حضور ﷺ  اس وصف پر بھی فائق تھے۔ رسولِ اکرم ﷺ کی بے مثال شجاعت کا یہ عالم تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا یہ قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی انکھیں پتھرا کر سرخ پڑجایا کرتی تھی اس وقت میں ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے اور آپ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شخص شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(سیرتِ مصطفیٰ، ص 619تا620)

جس کو بارِ دو عالم کی پرواہ نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں

غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلارو بہادر بھاگ جایا کرتے تھے آپ ﷺ ثابت قدم رہا کرتے تھے چنانچہ جنگِ احد میں جب مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہِ استقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر پھینکتے رہے۔جب کمان پارہ پارہ ہو گئی تو سنگ اندازی شروع کی۔جنگِ حنین میں صرف چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے اس نازک حالت میں آپ نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خچر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا چاہتے تھے مگر وہ جان باز مانع آرہے تھے۔ جب گھمسان کا معرکہ ہوا کرتا تھا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور ﷺ کی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: اللہ پاک کی قسم!جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبی ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم، ص980، حدیث:1776)(سیرتِ رسولِ عربی،ص349)

ایک رات مدینۂ منورہ کے لوگ ڈر گئے اور شور وغل برپا ہوا گویا کوئی چور یا دشمن آیا ہے توآپ نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا،آپ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ ﷺ راستے میں واپس آتے ہوئے ملے ،آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت!اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔(بخاری،4/108-109، حدیث:6033)

اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی، جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان!اللہ کی قسم!اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں۔(سیرۃ نبویۃ لابن ہشام،ص103،104ملخصاً)

ہجرت سے پہلے قریش نے مسلمانوں کو اس قدر ستایا کہ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تنگ آکر انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کی کہ آپ ان پر بددعا فرمائیں،یہ سن کر آپ کا چہرۂ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا:تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان پر لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتیں جس سے گوشت پوست سب علیحدہ ہو جاتا اور ان کے سروں پر آرے رکھے جاتے اور چیر کر دو ٹکڑے کر دیے جاتے مگر یہ اذیتیں ان کو دین سے پھیر نہ سکتی تھیں۔ اللہ پاک دینِ اسلام کو کمال تک پہنچائے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سےحضر موت تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔(بخاری، 2/573،حدیث: 3802)

رہے گا روز افزوں آپ کا شہرہ قیامت میں بلاغت کا فصاحت کا شجاعت کا سخاوت کا

حضور ﷺ کی قوتِ بدنی بھی سب سے زیادہ تھی۔غزوۂ احزاب میں جب صحابہ کرام علیہم الرضوان خندق کھود رہے تھے تو ایک جگہ ایسی سخت زمین ظاہر ہوئی کہ سب عاجز آگئے اور آپ سے عرض کیا گیا تو آپ خندق میں اترے اور ایک کدال ایسا مارا کہ وہ سخت زمین ریگ رواں کا ایک ڈھیر بن گئی۔(سیرت رسول عربی ،ص،354 تا 355)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضور ﷺ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری انکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)

رکانہ پہلوان سے کشتی:

حضور اقدس ﷺ کی جسمانی طاقت بھی حد اعجاز کو پہنچی ہوئی تھی اور آپ نے اپنی اس معجزانہ طاقت و قوت سے ایسے ایسے محیرالعقول کار ناموں اور کمالات کا مظاہرہ فرمایا کہ عقلِ انسانی اس کے تصور سے حیران رہ جاتی ہے۔چنانچہ

عرب کا مشہور پہلوان رکانہ آپ کے سامنے سے گزرا ،آپ نے اس کو اسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگا کہ اے محمد!اگر آپ مجھ سے کشتی لڑ کر مجھے پچھاڑ دیں تو میں آپ کی دعوت اسلام کو قبول کر لوں گا۔حضور اکرم ﷺ تیار ہو گئے اور اس سے کشتی لڑ کر اس کو پچھاڑ دیا، پھر اس نے دوبارہ کشتی لڑنے کی دعوت دی آپ نے دوسری مرتبہ بھی اپنی پیغمبر انہ طاقت سے اس کو اس زور کے ساتھ زمین پر پٹک دیا کہ وہ دیر تک اٹھ نہ سکا اور حیران ہو کر کہنے لگا کہ اے محمد! خدا کی قسم!اپ کی عجیب شان ہے کہ آج تک عرب کا کوئی پہلوان میری پیٹ زمین پر نہیں لگا سکا مگر آپ نے دم زدن مین مجھے دو مرتبہ زمین پر پچھاڑ دیا۔(سیرتِ مصطفیٰ،ص 621)

نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے

اے اللہ کریم !ہمیں بھی بہادری کے ساتھ دین کے کاموں میں دل جمعی کے ساتھ ہر وقت خوشاں رہنے کی توفیق اور اپنے پیارے حبیب اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین