جیسے ہمارے آقاﷺباقی صفات میں بے مثل و بے مثال تھے ویسے ہی آپ کی بہادری بھی بے مثال تھی۔ چنانچہ ایک رات مدینہ کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہو گیا گویا چور یا ڈاکو آگیا ہو،حضور ﷺ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو کہ سست رفتار اور سرکش تھا،آپ ﷺ اس کی پیٹھ پر بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار آڑے لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے۔ جب لوگ اس آواز کی طرف لوٹے تو حضور ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے اور آپ نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت ڈرو مت! اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی مانند تیز رفتار پایا۔

(سیرتِ رسولِ عربی،ص 354)

قریش کی مخالفت اور حضور ﷺ کی بہادری:

اعلانِ دعوت پر قریش نے آپ کی سخت مخالفت کی، جب ابو طالب نے بھی آپ کا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کیا تو آپ نے یوں فرمایا:چچا جان!اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں تاکہ میں اس کام کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ خدا اسے غالب کر دے یا میں خود ہلاک ہو جاؤں۔(سیرت رسول عربی،ص 355)

آقا ﷺ کی شجاعت کے متعلق صحابہ کرام کے اقوال:

حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بہادر صحابی کا قول ہے کہ جب لڑائی خوب گرم ہو جاتی تھی اور جنگ کی شدت دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی انکھیں پتھرا کر سرخ پڑ جایا کرتی تھی اس وقت ہم آقا ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر اپنا بچاؤ کرتے تھے۔آپ ﷺ ہم سب لوگوں سے زیادہ آگے بڑھ کر اور دشمنوں کے بالکل قریب پہنچ کر جنگ فرماتے تھے اور ہم لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر وہ شمار کیا جاتا تھا جو جنگ میں رسول اللہ ﷺ کے قریب رہ کر دشمنوں سے لڑتا تھا۔(الشفاء،1/116)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ حضور ﷺ سے زیادہ بہادرو طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی اور کو نہیں دیکھا۔(دارمی،1/44، رقم:59)

حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ کی قسم! جب لڑائی شدت سے ہوا کرتی تھی تو ہم نبیِ کریم ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔ (مسلم، ص980، حدیث:1776)

غزوۂ حنین کا معرکہ اور حضور ﷺ کی بہادری:

جنگِ حنین میں 12 ہزار کا لشکر کفار کے حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا گیا تھا اور کفار کی طرف سے لگاتار تیروں کی بارش ہو رہی تھی ،اس وقت بھی رسول اللہ ﷺ ایک بھی قدم پیچھے نہ ہٹے۔ آپ ایک سفید خچر پر سوار تھے اور حضرت سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے اور آپ اکیلے دشمنوں کے لشکروں کے ہجوم کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے اور یہ کلمات زبانِ اقدس پر جاری تھے:

اَنَا النَّبِيُّ لَا کَذِبْ          اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

(بخاری ،3/111،حدیث:4317)(سیرتِ مصطفیٰ،ص620)(شرح زرقانی،3/517)

جب تمام لشکر بھاگ گیا پھر بھی آپ ڈٹے رہے اور دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے آقا ﷺ شجاعت و بہادری میں مخلوق میں سب سے بلند تر اور بے مثال ہیں۔ آپ صرف شجاعت و قوت میں نہیں بلکہ تمام صفات میں بے مثل و بے مثال ہیں جیسا کہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

یہی بولے سِدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے

سبھی میں نے چھان ڈالے تِرے پایہ کا نہ پایا

تجھے یک نے یک بنایا