بہادری یہ اردو زبان کا کلمہ ہے اور اس کو عربی میں شجاعت
کہتے ہیں جو کہ ایک فضیلت ہے۔ شجاعت یہ ہے کہ غضب کی قوت ہوتے ہوئے اس کو عقل کے
تابع کر دیا جائے۔حضور ﷺ کی شجاعت و بہادری اس مرتبے تک تھی کہ کوئی اس سے ناواقف
نہ تھا یعنی مشہور تھی۔آپ کو بہت سے سخت مواقع پیش آئے کہ بڑے بڑے بہادر شجاع نہ
ٹھہر سکے مگر آپ ثابت قدم رہے اور نہ ہٹے مقابلہ کیا مگر پیٹھ نہ دکھائی، نہ وہاں
سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہوئے۔ کوئی شجاع ہو مگر وہ بھاگنے پر مجبور ہوتا وہ دور شمار میں آتا ہے اور اس کے ٹل جانے کی یاد
باقی رہتی ہے،لیکن حضور ﷺ ہر مقام پر ثابت قدم رہے،نیز رسول اللہ ﷺ دیگر اوصافِ حمیدہ
کی طرح اس وصف میں بھی سب پر فائق تھے،چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک رات مدینہ منورہ
کے لوگ ڈر گئے اور شور و غل برپا ہوا گویا کوئی چور یا دشمن آیا ہے، آپ نے حضرت
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا گھوڑا لیا جو سست رفتار اور سرکش تھا، آپ اس کی پیٹھ پر
بغیر زین کے سوار ہو گئے اور تلوار لٹکائے ہوئے جنگل کی طرف اکیلے ہی تشریف لے گئے،
جب لوگ اس آواز کی طرف گئے تو رسول اللہ ﷺ ان کو راستے میں واپس آتے ہوئے ملے،آپ
نے ان کو تسلی دی کہ ڈرو مت! ڈرو مت!اور گھوڑے کی نسبت فرمایا کہ ہم نے اسے دریا کی
مانند تیز رفتار پایا ہے۔(بخاری،4/108،109،حدیث:6033)
غزوات میں جہاں بڑے بڑے دلاور بہادر بھاگ جایا کرتے تھے آپ
ثابت قدم رہا کرتے تھے ۔چنانچہ
جنگِ احد میں جب
مسلمانوں کو ہزیمت ہوئی تو یہ کوہ ِاستقامت اپنی جگہ پر قائم رہے اور دشمنوں پر تیر
پھینکتے رہے جب کمان پارہ پارہ ہو گئی تو سنگ اندازی شروع کی۔جنگِ حنین میں صرف
چند جانباز آپ کے ساتھ رہ گئے تھے باقی سب بھاگ گئے تھے ،اس نازک حالت میں آپ
نے اسی پر اکتفا نہ کیا کہ اپنی جگہ پر
قائم رہ کر دفاع فرمائیں بلکہ اپنے خنجر کو بار بار ایڑ لگا کر دشمن کی طرف بڑھانا
چاہتے تھے مگر وہ جانباز مانع آ رہے تھے۔
(سیرتِ رسولِ عربی،ص354)
جب گھمسان کا معرکہ
ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورﷺکی آڑ میں پناہ لیا کرتے تھے
چنانچہ حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ پاک کی قسم! جب لڑائی شدت
سے ہوا کرتی تھی تو ہم رسول اللہ ﷺ کی پناہ ڈھونڈا کرتے تھے اور ہم میں سے بہادر
وہ ہوتا تھا جو آپ کے ساتھ دشمن کے مقابل کھڑا ہوتا تھا۔(مسلم،ص980،حدیث:1776)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب لڑائی شدت اختیار
کر جاتی اور آنکھیں سرخ ہو جاتیں تو ہم رسول اللہ ﷺ کے بچاؤ کی فکر کرتے لیکن آپ
سے زیادہ کوئی بھی دشمن کے قریب نہ ہوتا۔
(الشفاء،1/116)
اسی طرح ایک جنگ میں ابی بن خلف
ملعون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کو شہید کر دینے کی نیت سے آگے بڑھا۔ حضورِ
اقدس ﷺ نے اپنے ایک جاں نثار صحابی حضرت حارث بن صمہ رضی اﷲ عنہ سے ایک چھوٹا سا
نیزہ لے کر ابی بن خلف کی گردن پر ماراجس سے وہ تلملا گیا۔گردن پر بہت معمولی زخم
آیا اور وہ بھاگ نکلامگر اپنے لشکر میں جا کر اپنی گردن کے زخم کے بارے میں لوگوں
سے اپنی تکلیف اور پریشانی ظاہر کرنے لگااور بے پناہ ناقابلِ برداشت درد کی شکایت
کرنے لگا۔اس پر اس کے ساتھیوں نے کہا:یہ تو معمولی خراش ہے!تم اس قدر پریشان کیوں
ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگ نہیں جانتے کہ ایک مرتبہ مجھ سے محمد(ﷺ) نے کہا تھا کہ
میں تم کو قتل کروں گا!اس لئے۔یہ توبہرحال زخم ہے میراتو اعتقادہے کہ اگر وہ میرے
اوپر تھوک دیتے تو بھی میں سمجھ لیتا کہ میری موت یقینی ہے۔
(مدارج النبوت،2/127۔129ملتقطاً)
اسی طرح امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے قصیدے میں
ایک شعر یہ بھی ذکر کیا ہے جس کا ترجمہ
کچھ یوں ہے کہ آپ ﷺ معرکہ میں کافروں کا
مقابلہ کرتے رہے یہاں تک کہ دشمن نیزوں کے پےدر پے وار کے سبب تختہ قصاب پر رکھے
ہوئے گوشت کے مشابہ ہو گئے تھے۔
تشریح: اس شعر میں حضور ﷺ کی شجاعت کا ذکر ہے کہ حضور ﷺ
اعلاء کلمۃ اللہ یعنی اللہ پاک کا نام بلند کرنے کے لیے کفار سے برابر جنگ کرتے
رہے اور پھر امام بوصیری نے فرمایا:ان کفار کی لاشیں صحابہ کے نیزوں پر ایسی لٹک
رہی تھی جیسے قصاب کا گوشت سلاخوں پر لٹکتا ہے۔(قصیدہ بردہ شریف،ص145)
اے اللہ پاک اس قوم کو بھی حضور ﷺ کی بہادری کے صدقے بہادری
عطا فرما،اسلام کو غلبہ عطا فرما اور اُمّت ِمسلمہ کوجہاد کے ذریعے فتحِ عظیم
عطافرما۔آمین