محمد احمد رضا عطّاری(درجہ ثانیہ،جامعہ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین ، اسلام آباد،پاکستان)

سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد گرامی ہے: بے شک اللہ پاک اس کے فرشتے جمعہ کے دن عمامہ باندھنے والوں پر درود بھیجتے ہیں
صحابی ابن صحابی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا : جمعہ کی نماز مساکین کا
حج ہے دوسری روایت میں ہے کہ جمعہ کی نماز
غربیوں کا حج ہے ۔اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ تمہارے لئے ہر
جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ ہے
لہذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی نکلنا حج
اور جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے
لیے انتظار کرنا عمر ہیں حضرت سیدنا امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: نماز جمعہ کے بعد عصر کی نماز
پڑھنے تک مسجد ہی میں رہے اور اگر نماز مغرب تک ٹھہرے تو افضل ہے کہا جاتا ہے جس
نے جامعہ مسجد میں جمعہ ادا کرنے کے بعد
وہاں رک کر نماز عصر پڑھی اس کے لیے حج کا ثواب ہے اور جس نے وہاں رک کر مغرب کی
نماز پڑھی اس کے لیے حج و عمرہ کا ثواب ہے۔
حضرت سیدنا سلمان
فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ سلطان دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے: جو شخص
جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت یعنی پاکیزگی
کی استطاعت یعنی طاقت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ملے پھر نماز کو نکلے اور دو شخصوں میں جدائی
نہ کرے یعنی جو شخص بیٹھے ہوئے ہو انہیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نماز اس
کے لیے لکھی گئی ہے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں
مغفرت ہو جائے گی۔
مصطفی جانِ رحمت
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد
گرامی ہے: جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے
دروازے پر فرشتے آنے والوں کو لکھتے ہیں جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں جلدی
آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ پاک کی راہ میں ایک اونٹ صدقہ یعنی خیرات کرتا ہے اور اس کے بعد آنے والا اس
شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتا ہے اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جو
مینڈھا صدقہ کریں پھر اس کی مثل ہے جو
مرغی صدقہ کریں پھر اس کی مثال ہے جو انڈا صدقہ کرے اور جب امام خطبے کے لیے بیٹھ جاتا ہے تو وہ یعنی فرشتے اعمال ناموں کو
لپیٹ لیتے ہیں اور آ کر خطبہ سنتے ہیں حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: بعض علما نے فرمایا کہ ملائکہ جمعہ کی طلوع فجر سے کھڑے ہوتے ہیں بعض کے نزدیک آفتاب چمکنے یعنی سورج چمکنے سے مگر حق یہ ہے کہ سورج ڈھلنے یعنی
ابتدائی وقت ظہر سے شروع ہوتا ہے کیونکہ اسی وقت سے وقت جمعہ شروع ہوتا ہے معلوم ہوا کہ وہ فرشتے جب آنے
والوں کے نام جانتے ہیں خیال رہے کہ اگر اولاً سو آدمی ایک ساتھ مسجد میں آئے تو
وہ سب اول یعنی پہلے آنے والے ہیں۔

بہت سے ایسی چیزیں ہیں جو کچھ خصوصیات کی بناء پر اپنی جیسی
دیگر چیزوں سے ممتاز و افضل ہوجاتی ہیں جیسا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعداد
کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے لیکن جس مقام و مرتبے کو ہمارے پیارے آقا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت ہوئی وہ مقام و مرتبہ دیگر انبیاء کرام
علیہم السلام کو حاصل نہ ہوا، اسی طرح اللہ پاک نے چار آسمانی کتابیں اور کئی
صحیفے(رسالے) نازل فرمائے لیکن جو فضیلت و اَہمیت قراٰن مجید کو عطا فرمائی وہ
باقیوں کو کہاں، بالکل اسی طرح ہفتے میں سات دن ہوتے ہیں مگر جو شان و شوکت
جمعہ کے دن نے پائی وہ دوسرے دنوں کو نہ
مل پائی یہاں تک کہ عیدَيْن (عيدُالفِطْر و عيدُالْاَضْحٰی) کے دن بھی اس دوڑ میں
جمعہ کے دن کا مقابلہ نہ کر سکے، اسی طرح
نمازیں بھی کئی طرح کی ہیں جن میں بعض فرض کا درجہ رکھتی ہیں، بعض واجب کا، کچھ
سنّت کا اور کچھ نفْل کا لیکن نماز جمعہ ، جمعہ کے دن سے تعلُّق رکھنے کی وجہ سے باقی نمازوں سے افضل قرار پائی ۔ آئیے
نماز جمعہ کی فضیلت و اہمیت پر فرامین
مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ
کیجیے:۔
(1)پہلی فضیلت: اللہ کے آخری نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلْجُمُعَةُ حَجُّ الْمَسَاكِيْن کہ جمعہ کی نماز
مساکین کا حج ہے۔(فیضان جمعہ ، ص7)
(2) دوسری فضیلت: رسول بے مثال بی
بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بخشش نشان ہے: ایسا نہیں
ہو سکتا کہ کوئی شخص جمعہ کے دن غسل کرے
اور بقدر طاقت صفائی کرے اور اپنے تیل میں سے کچھ لگالے یا اپنے گھر کی خوشبو
لگالے پھر وہ مسجد جائے تو دو شخصوں کو الگ نہ کرے پھر جو کچھ تقدیر میں لکھی ہے
وہ نماز پڑھے پھر جب امام خطبہ پڑھے تو خاموش رہے اور اب سے دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ بخشے نہ جائیں۔(مشکوٰۃ المصابيح،
1/ 268،حدیث:1371، دار الکتب العلمیہ بیروت) حضرت مفتی احمد یار خان حدیث پاک کے
اس حصے: ”دو شخصوں کو الگ نہ کرے“کے تحت فرماتے ہیں: یعنی نہ تو لوگوں کی گردنیں
پھلانگے اور نہ دو ساتھیوں کو چیر کر ان کے درمیان بیٹھے بلکہ جہاں جگہ ملے بیٹھ جائے۔(مرآۃ
المناجیح،2/ 325،قادری پبلیشرز)
(3) تیسری فضیلت : شہنشاہ مدینہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان بشارت نشان ہے: بِلا شُبہ تمہارے لئے ہر
جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عُمرہ
موجود ہے،لہذا جمعہ کی نماز کے لئے جلدی
نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نماز کے بعد
عَصْر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (فیضان نماز، ص 121، مکتبۃ المدینہ)
(4) چوتھی فضیلت: پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان رحمت نشان ہے: نماز جمعہ کفَّارہ ہے ان گناہوں کے لیے جو اس جمعہ اور اس کے بعد والے جمعہ کے درمیان ہیں اور تین دن زیادہ (کے لیے بھی
نماز جمعہ کفَّارہ ہے) اور یہ اس وجہ سے
کہ اللہ پاک فرماتا ہے:جو ایک نیکی کرے، اس کے لیے دس مثل ہے۔(بہار شریعت، 1/
757،مکتبۃ المدینہ)
(5) پانچویں فضیلت: رسول پاک صاحب
لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پانچ چیزیں جو ایک دن میں
کرے گا اللہ پاک اسے جنّتی لکھ دے گا:(1) مریض کی عیادت کرے(2)جنازے میں حاضر
ہو(3) روزہ رکھے(4) نماز جمعہ کو جائے(5)
غلام آزاد کرے (بہار شریعت، 1/ 757،مکتبۃ المدینہ)

جمعۃ المبارک کو
جمعہ کہنے کی وجہ: عربی زبان میں اس دن کا نام عروبہ تھا
بعد میں جمعہ رکھا گیا اورسب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا نام
جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی وجہ
تسمیہ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ، ان
میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن نماز کیلئے
جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔( خازن،
الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 265)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں چونکہ اس دن تمام مخلوقات وجود میں اکھٹی ہوئی اور اس دن
تکمیل خلق ہوئی نیز حضرت آدم علیہ السّلام کی مٹی بھی اسی دن جمع ہوئی اور اسی دن
تمام لوگ اکھٹے ہو کر صلوۃ الجمعہ پڑھتے
ہیں اس جہت سے اس دن کو یوم جمعہ کہتے ہیں
اسلام سے پہلے اہل عرب اس کو عروبہ کہتے تھے۔ (مراۃ المناجیح،2/ 317)
تاجدارِ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکا پہلا جمعہ :سیرت بیان کرنے والے علما کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل
،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے،پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ،
جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم
فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے
مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔ یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اَصحاب رضی اللہُ
عنہمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 266)
مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: میرے پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پانچ سو جمعۃ المبارک کی نمازیں ادا فرمائی اس لیے کہ جمعۃ المبارک کی نماز ہجرت کے
بعد شروع ہوئی جس کے بعد دس سال میرے مولا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری زندگی مبارک رہی اس عرصے میں جمعۃ
المبارک کی نمازیں اتنی ہی بنتی ہیں۔ (مراۃ،2/346،لمعات للشیخ عبد الحق المحدث الدھلوی،3/190،تحت حدیث: 1415)
جمعہ کے5 فضائل :کثیر اَحادیث میں جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے
ہیں ،یہاں ان میں سے 5 اَحادیث ملاحظہ ہوں:۔
(1)حضرت سیدنا سلمان
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو شخص جمعۃ المبارک کے دن غسل کرے اور طہارت و نظافت حاصل کرے جس قدر
ممکن ہو اور تیل لگائے اور خوشبو ملے جو گھر میں میسر آئے۔ پھر گھر سے نماز کہ لیے
نکلے اور دو آدمیوں کے درمیان(اپنے بیٹھنے یا گزرنے کے لیے)شگاف نہ ڈالے۔ پھر نماز
پڑھے جو مقرر کردی گئی ہے۔ پھر جب امام نماز پڑھے تو خاموش(نماز کی حالت کی مثل)
بیٹھا رہے تو اس کہ وہ تمام گناہ جو ایک جمعۃ المبارک سے دوسرے جمعۃ المبارک تک اس
نے کیے معاف کر دیے جائیں گے۔(صحیح بخاری،کتاب الجمعۃ،باب الدھن للجمعۃ،1/306، حدیث:
883)
(2) حضرت ابوہریرہ
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا : بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم علیہ
السّلام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)
(3)حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو
جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا،اسے عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا
کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی۔( حلیۃ
الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، محمد بن المنکدر، 3 / 181، حدیث: 3629)
(4)حضرت ابوہریرہ
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کو آیا اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ،اس کے لیے ان گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں اور(ان کے علاوہ)مزید تین دن(کے گناہ بخش دئیے
جائیں گے ) اور جس نے کنکری چھوئی اس نے
لَغْوْ کیا یعنی خطبہ سننے کی حالت میں اتنا کام بھی لَغْوْ میں داخل ہے
کہ کنکری پڑی ہو اس ے ہٹا دے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی
الخطبۃ، ص427، حدیث: 857)
(5)حضرت ابو سعید
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :پانچ چیزیں جو ایک دن میں کرے گا، اللہ پاک اس کو جنّتی لکھ دے گا۔ (1)
جو مریض کو پوچھنے جائے ،(2) جنازے میں حاضر ہو ، (3) روزہ رکھے ،(4) جمعہ کو جائے ،(5)اور غلام آزاد کرے۔( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب
الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، 3 / 191، الجزء الرابع، حدیث: 2760)
چونکہ نماز جمعۃ المبارک کے فضائل و مناقب کثیر ہیں تو یاد
رہے کہ اس نماز کو چھوڑنے کی وعیدیں بھی ہیں جن میں سے تین درجہ ذیل ہیں۔
جمعہ کی نماز
چھوڑنے کی وعیدیں: اَحادیث میں جہاں نمازِ جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے
ہیں وہیں جمعہ کی نماز چھوڑنے پر
وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں چنانچہ یہاں اس کی تین وعیدیں ملاحظہ فرمائیں۔(1)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ
عنہمَا سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللہ پاک ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص430، حدیث:865) (2)حضرت اسامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس نے کسی عذر کے بغیر تین جمعے چھوڑے
وہ منافقین میں لکھ دیا گیا۔( معجم
الکبیر، مسند الزبیر بن العوام، باب ما جاء فی المرأۃ السوئ۔۔۔ الخ، 1 / 170،
حدیث: 422) (3)جمعۃ المبارک کے دن ایک گناہ کا عذاب بھی ستر گناہ ہے۔( المرقاۃ،2/336)
اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں یوم جمعۃ المبارک اور نماز جمعۃ
المبارک کی حفاظت اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلی
اللہ علیہ واٰلہ واصحابہ وازواجہ وبارک وسلم۔
محمد سعید سیلم عطّاری(جامعۃُ المدینہ خلفائے
راشدین بحریہ ٹاؤن راولپنڈی،پاکستان)

یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ
فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ
اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و
فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)
جمعہ کی وجہِ تَسمِیَہ :عربی زبان میں اس
دن کا نام عروبہ تھا بعد میں جمعہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا
نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی
وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ،
ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن نماز کیلئے
جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔( خازن،
الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 265)
تاجدارِ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکا پہلا جمعہ :سیرت بیان کرنے والے علماء کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل
،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے،پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ،
جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم
فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے
مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اَصحاب رضی اللہُ
عنہمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 266)
اَحادیث میں جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے
ہیں ،یہاں ان میں سے 5اَحادیث ملاحظہ فرمائیں:۔ (1)حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم علیہ
السّلام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)
(2) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے
گا۔حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشادفرمایا: بے شک! اللہ پاک نے زمین پر انبیاء
ِکرام علیہمُ السّلام کے جسم کھانا
حرام کر دیا ہے، اللہ پاک کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب
الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 2 / 291،
حدیث: 1637)
(3)حضرت ابو لبابہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا
ہے اور وہ اللہ پاک کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے، اس میں پانچ خصلتیں ہیں :(1) اللہ پاک نے اسی میں حضرت
آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا۔ (2) اسی میں انہیں زمین پر اُتارا۔ (3) اسی
میں انہیں وفات دی۔ (4)اور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت جس چیز کا
سوال کرے اللہ پاک اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے۔ (5)اور اسی دن میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان
و زمین ،ہوا ، پہاڑ اور دریا ایسا نہیں کہ
جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔( ابن ماجہ،
کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، 2 / 8، حدیث: 1084)
(4) حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا’’جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا،اسے
عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس پر شہیدوں کی
مُہر ہوگی۔(حلیۃ الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، محمد بن
المنکدر، 3 / 181،
حدیث: 3629)
(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اچھی طرح وضو کیا پھر جمعہ کو آیا اور (خطبہ) سنا اور چپ رہا ،اس کے لیے
ان گناہوں کی مغفرت ہو جائے گی جو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہوئے ہیں اور(ان کے علاوہ)مزید تین دن(کے گناہ بخش دئیے
جائیں گے ) اور جس نے کنکری چھوئی اس نے
لَغْوْ کیا۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل من استمع وانصت فی الخطبۃ، ص427، حدیث: 857)یعنی
خطبہ سننے کی حالت میں اتنا کام بھی
لَغْوْ میں داخل ہے کہ کنکری پڑی ہو اس ے
ہٹا دے۔
درس: اے عاشقان رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں یہ دن عطا فرمائے افسوس ہم
ناقدرے جمعہ شریف کو بھی عام دنوں کی طرح غفلت میں گزار دیتے
ہیں حالانکہ جمعہ یوم عید ہے اس کے اور
بھی بہت فضائل ہیں اور ہمیں ان فضائل کو
حاصل کرنا چاہیے اور جمعہ کی پابندی کرنی
چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو جمعہ کی اہمیت
کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے ساتھ جمعہ کو پابندی سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
راحیل افضل (درجہ خامسہ،مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ
مدینہ، کراچی،پاکستان)

جمعہ کا معنی ہے مجتمع
ہونا، اکٹھا ہونا، چونکہ اس دن تمام مخلوقات وجود میں مجتمع ہوئی کہ تکمیلِ خلق
اسی دن ہوئی، نیز آدم علیہ السلام کی مٹی اس دن ہی جمع ہوئی، نیز اس دن میں لوگ
نمازِ جمعہ جمع ہو کر ادا کرتے ہیں۔ ان
وجوہ سے اسے جمعہ کہتے ہیں۔ (مرآۃ
المناجیح، 2/309)
جمعہ بڑی ہی
فضیلتوں، عظمتوں اور برکتوں والا دن ہے۔ حدیثِ پاک میں اسے تمام دنوں کا سردار
فرمایا گیا، اسی دن حضرت آدم علیہ السّلام پیدا ہوئے، اسی دن انہیں زمین پر اتارا
گیا، اسی دن ان کی وفات ہوئی، اسی دن میں قیامت قائم ہو گی۔ یہی وہ دن ہے جس سے
مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور دریا ڈرتے ہیں۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ
الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، 2 / 8، حدیث: 1084) اسی دن مسلمان اکٹھے
ہو کر جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں، اسی دن
کو مسلمانوں کی عید قرار دیا گیا۔
اَحادیث مبارکہ میں بھی جمعہ کے دن کے فضائل بیان کئے گئے
ہیں، یہاں ان میں سے 5 ملاحظہ ہوں، چنانچہ:(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا،
جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم علیہ السّلام پیدا کیے گئے ، اسی
میں جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)
(2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ
سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت
کرو کہ یہ دن مشہود ہے، اس میں فرشتے حاضر
ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش
کیا جائے گا۔حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشادفرمایا: بے شک!
اللہ پاک نے زمین پر انبیائے کرام علیہمُ
السّلام کے جسم کھانا حرام کر دیا ہے، اللہ پاک کا نبی زندہ ہے، روزی دیا
جاتا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم، 2 / 291، حدیث: 1637)
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ
فرماتے ہیں، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے میرا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے
زمین کو ہفتہ کے دن پیدا فرمایا اور اتوار کے دن زمین میں پہاڑوں کو پیدا کیا اور پیر کے دن درختوں کو پیدا کیا اور منگل کے دن ناپسندیدہ چیزوں کو پیدا کیا اور بدھ کے دن نور کو پیدا کیا اور
جمعرات کے دن زمین پر چلنے والے جانداروں کو پیدا کیا اور تمام مخلوق کے آخر میں حضرت آدم علیہ السّلام کو
جمعہ کے دن، اس کی ساعات میں سے آخری ساعت میں ، عصر کے بعد سے رات کے وقت
کے درمیان پیدا کیا۔(مسلم،کتاب صفۃ القیامۃ والجنّۃ والنار،باب ابتداء الخلق وخلق
آدم علیہ السلام، ص1500، حدیث: 2789)
(4) حضرت جابر رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جو جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں مرے گا، اسے عذابِ قبر سے بچا لیا جائے گا اور قیامت کے دن اس طرح آئے گا
کہ اس پر شہیدوں کی مُہر ہوگی۔( حلیۃ
الاولیاء، ذکر طبقۃ من تابعی المدینۃ۔۔۔ الخ، محمد بن المنکدر، 3 / 181، حدیث: 3629)
(5)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ
سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک یہ سب ان گناہوں کے لئے کفارہ ہیں جو ان کے
درمیان واقع ہوں جب کہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچے ۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب
الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ ورمضان الی رمضان مکفرات لما بینہنّ۔۔۔ الخ، ص144،
حدیث: 233)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں جمعہ کے دن خوب خوب عبادات بجا لانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ پاک نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہمیں جمعہ عطا فرمایا ہے اس کے بے شمار فضائل ہیں چند
احادیث پیش خدمت ہیں: (1) حدیث پاک میں ہے جو جمعہ کو ناخن ترشوائے وہ اگلے جمعے تک بلاؤں سے
محفوظ رہے گا ۔(بہار شریعت حصہ 16 ص 226(
آخری نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جمعہ مساکین کا حج ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ
جمعہ غریبوں کا حج ہے۔(جمع الجوامع
للسیوطی ،4/ 84)
حضور نے ارشاد فرمایا: بلا شبہ تمہارے لئے جمعہ میں حج اور عمرہ ہے، جمعہ کیلئے جلدی جانا حج ہے اور عصر کی نماز کا
انتظار کرنا عمرہ ہے۔(احیاءالعلوم ،1/ 249)
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے
بڑا ہے اور وہ اللہ کے نزدیک عید الاضحیٰ اور عید الفطر سے بڑا ہے اس میں پانچ
خصلتیں ہیں: (1) اللہ پاک نے اس میں حضرت آدم کو پیدا کیا (2)اسی میں انہیں زمین
پر اتارا (3) اسی میں انہیں وفات دی(4)اسی میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جو مانگے
اللہ پاک دے گا جب تک کہ بندہ حرام کا سوال نہ کرے (5) اور اسی میں قیامت قائم ہو
گی۔) سنن ابن ماجہ ،2/ 8)
سردار مکہ مکرمہ تاجدار مدینہ منورہ آخری نبی حضرت محمد
مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے جو مسلمان اس میں کچھ
مانگے تو اللہ پاک ضرور عطا کرے گا اور وہ گھڑی مختصر ہے۔(صحیح مسلم، ص 424)
محمد احمد رضا عطّاری(درجہ رابعہ،جامعۃُ المدینہ
فیضان غوث اعظم چھانگامانگا،لاہور،پاکستان)

جمعہ کا لغوی معنیٰ کیا ہے؟: روزِ جمعہ اس دن کا نام عربی زبان میں
عروبہ تھا جمعہ اس کو اس لئے کہا جاتا ہے
کہ نماز کے لئے جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے۔
نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پہلا جمعہ کب ادا
فرمایا؟: پہلا جمعہ جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا اصحابِ سیَر کا
بیان ہے کہ حضور علیہ السلام جب ہجرت کرکے مدینہ طیّبہ تشریف لائے تو بارہویں ربیع
الاوّل روزِ دوشنبہ کو چاشت کے وقت
مقامِ قباء میں اقامت فرمائی دو شنبہ ، سہ شنبہ ، چہار
شنبہ ، پنج شنبہ یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی
بنیاد رکھی روزِ جمعہ مدینہ طیّبہ کا عزم
فرمایا بنی سالم بن عوف کے بطنِ وادی میں جمعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔ جمعہ کا دن سیّدُ الایام ہے جو مؤمن اس روز مرے حدیث شریف
میں ہے کہ اللہ پاک
اس کو شہید کا ثواب عطا فرماتا ہے اور فتنۂِ قبر سے
محفوظ رکھتا ہے ۔
جمعہ کی فضیلت و اہمیت پر بےشمار احادیث مبارکہ ہیں
جن میں سے پانچ ملاحظہ کیجئے۔
حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں
کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میں نے قصد کیا کہ
ایک شخص کو نماز پڑھانے کا حکم دوں اور جو لوگ جمعہ سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کے گھروں کو جلا دو۔)بہار شریعت ، 1/758(
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ
فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک کسی مسلمان کو جمعہ کے دن بے مغفرت کیے نہ چھوڑے گا۔(بہار شریعت،1/755(
ابو یعلیٰ نے انھیں سے روایت کیا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جمعہ کے دن
اور رات میں چوبیس گھنٹے ہیں کوئی گھنٹہ ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنم سے چھ
لاکھ آزاد نہ کرتا ہو جن پر جہنم واجب ہو گیا تھا۔)بہار شریعت ،1/755(
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے
ہیں کہ میرے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : بہتر دن
یہ کہ آفتاب نے اس پر طلوع کیا جمعہ کا دن
ہے کہ اسی دن حضرت سیدنا آدم علیہ السّلام
پیدا کیے گئے اور اسی دن جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی دن انھیں جنّت سے اترنے کا
حکم ہوا۔ اور جمعہ ہی کہ دن قیامت واقع
ہوگی۔)بہار شریعت ،1/753(
حضرت سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جمعہ کفارہ ہے ان گناہوں کے لیے جو اس کے بعد والے
جمعہ کے درمیان ہیں اور تین دن زیادہ اور
یہ اس وجہ سے کہ اللہ پاک فرماتا ہے جو ایک نیکی کرے اس کے لیے دس مثل ہے۔)بہار شریعت ،1/757(
اللہ پاک ہمیں جمعہ کے دن کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس دن خوب اپنے رب کی
عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد ابوبکر عطّاری ( درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان
بخاری ، کراچی ،پاکستان)

یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ
فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ
اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و
فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)
جمعہ کی وجہِ تَسمِیَہ :عربی زبان میں اس
دن کا نام عروبہ تھا بعد میں جمعہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا
نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں ۔اس کی
وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اَقوال ہیں ،
ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جمعہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس دن نماز کیلئے
جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے ۔( خازن،
الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 265)
اسلام میں جمعۃ المبارک کے دن کو بڑی فضیلت حاصل ہے، یہاں
تک کہ قراٰن پاک کی ایک پوری سورت’’سورۂ جمعہ “ کے نام سے نازل ہوئی ہے، جس میں
نمازِ جمعہ کی فرضیت اور دیگر احکام بیان
کئے گئے ہیں۔ جمعۃ المبارک کے چند فضائل ملاحظہ کیجئے: جمعہ غریبوں کا حج ہے سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلْجمعۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ مساکین
کا حج ہے اور دوسری روایت میں ہے کہ اَلْجمعۃُحَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ غریبوں
کا حج ہے۔ (کنزالعمال، جز:7 ،4/290، حدیث: 21027،21028)جو شخص حج کے لئے جانے سے
عاجِز ہو اس کا جمعہ کے دن مسجد کی طرف جانا حج کی طرح ہے۔(
حدیث:3636)
ستّر گُنا ثواب: حکیمُ الامت مفتی
احمد یار خان علیہ رحمۃُ اللہ المنان کے فرمان کے مطابق، جمعہ کو حج ہو تو اس کا ثواب ستَّر حج کے برابر ہے،
جمعہ کی ایک نیکی کا ثواب ستّرگنا ہے۔
(چونکہ جمعہ کا شرف بہت زیادہ ہے لہٰذا)
جمعہ کے روز گناہ کاعذاب بھی ستّرگناہے۔
(مراٰۃالمناجیح،2/ 325،323، 336)
جمعہ کے دن کی جانے والی چند نیکیاں: جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے قبل اور بعد کئی ایسی نیکیاں ہیں جنہیں بجا
لا کر ہم ثواب کا عظیم خزانہ حاصل کرسکتے ہیں، نمازِ جمعہ کی تیاری سے متعلق چند نیکیاں ملاحظہ کیجئے:
(1) ناخن تراشئے: جمعہ کے دن ناخن تراشنا اور مونچھوں کو کتروانا ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی مبارک عادت تھی۔ (شعب الایمان،3/24، حدیث: 2763) جمعہ کے دن ناخن کاٹنا حصولِ شفا کا سبب ہے۔ چنانچہ
مروی ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن ناخن کاٹتا
ہے اللہ پاک اس سے بیماری نکال کر شِفا داخل کردیتا ہے۔ (حدیث: 5325) جمعہ کے دن ناخن تَرَشْوانا مستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو
جمعہ کا انتظار نہ کرے کہ ناخن بڑا ہونا
اچھا نہیں کیونکہ ناخنوں کا بڑا ہونا تنگیٔ رزق کا سبب ہے۔ (بہارشریعت،3/582)
(2)غسل کیجئے، خوشبو لگائیے اور اچھے
کپڑے پہنئے: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور اچھے کپڑے پہنے پھر اگر اس کے پاس خوشبو تھی تو اسے
لگایا، پھر جمعہ کے لئے سکون و وقار کے
ساتھ چلا اور کسی کی گردن نہ پھلانگی ( اس طرح کہ نہ تو لوگوں کی گردنیں پھلانگے
اور نہ ساتھیوں کو چیر کر ان کے درمیان بیٹھے بلکہ جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے)
اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائی، پھر نماز ادا کی اور امام کے لوٹنے تک انتظار کیا تو
اس کے دو جمعوں کے درمیان کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (مجمع الزوائد، 2/385،
حدیث:3039،مراٰۃ المناجیح، 2/334) معجمِ اوسط میں ہے کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے لئے جمعہ کے دن پہننے کے لئے مخصوص لباس تھا۔ (معجم
اوسط، 2/352، حدیث:3516) (3)نیا لباس جمعہ کے دن پہنیں جب کبھی نيا لباس سلوائیں تو جمعہ کے دن سے پہننا شروع کریں کہ نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عام طور پر نیا
لباس جمعہ کے دن زیبِ تن فرمایا کرتے تھے۔
(جامع صغیر، ص408، حدیث:6563)
تاجدارِ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکا پہلا جمعہ :سیرت بیان کرنے والے علما کا بیان ہے کہ جب حضورِ اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو 12 ربیع الاوّل
،پیر کے دن، چاشت کے وقت قباء کے مقام پر ٹھہرے، پیر سے لے کر جمعرات تک یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی ،
جمعہ کے دن مدینہ طیبہ جانے کا عزم
فرمایا، بنی سالم بن عوف کی وادی کے درمیان جمعہ کا وقت آیا، اس جگہ کو لوگوں نے
مسجد بنایا اور سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا۔ یہ پہلا جمعہ ہے جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اَصحاب رضی اللہُ
عنہمْ کے ساتھ پڑھا۔( خازن، الجمعۃ، تحت الآیۃ: 9، 4 / 266)
اَحادیث میں جمعہ کے دن کے فضائل:
(1) حضرت ابوہریرہ
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا
دن ہے، اسی میں حضرت آدم علیہ السّلام پیدا کیے گئے ، اسی میں جنّت میں داخل کیے
گئے اور اسی میں انہیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔(مسلم، کتاب الجمعۃ، باب
فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)
(2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ
سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود
ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔ حضرت
ابو درداء رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں : میں نے عرض کی اور موت کے بعد؟ ارشاد فرمایا: بے شک! اللہ پاک نے زمین پر
انبیاء ِکرام علیہمُ السّلام کے جسم
کھانا حرام کر دیا ہے، اللہ پاک کا نبی زندہ ہے، روزی دیا جاتا ہے۔( ابن ماجہ،
کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 2 / 291، حدیث: 1637)
جمعہ کے دن دعا قبول ہونے کی گھڑی:جمعہ کے دن ایک
گھڑی ایسی ہے جس میں اللہ پاک خاص طور پر
دعا قبول فرماتا ہے ،جیسا کہ اوپر حدیث میں بیان ہو ا اور حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جمعہ کے دن کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس
میں ایک ساعت ہے، جو مسلمان بندہ اسے پائے
اور وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو اللہ پاک سے جو چیز مانگے گا وہی عطا فرما
دی جائے گی ،اور ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ وقت بہت تھوڑا ہے۔( بخاری، کتاب
الجمعۃ، باب الساعۃ التی فی یوم الجمعۃ، 1 / 321، حدیث: 935)
یاد رہے کہ وہ کون سا وقت ہے اس بارے میں روایتیں بہت ہیں ،ان میں سے دو قوی ہیں : (1) وہ وقت امام کے خطبہ کے
لیے بیٹھنے سے نماز ختم تک ہے۔(2)وہ جمعہ کی آخری ساعت ہے۔( بہار شریعت، حصہ چہارم، جمعہ کا بیان، 1 / 754، ملخصاً)
جمعہ کی نماز چھوڑنے کی وعیدیں: اَحادیث میں جہاں نمازِ جمعہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں جمعہ کی نماز چھوڑنے پر
وعیدیں بھی بیان کی گئی ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ اور
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہمَا سے
روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لوگ
جمعہ چھوڑنے سے باز آئیں گے یا اللہ پاک ان کے دلوں پر مہر کر دے گا، پھر وہ غافلین میں سے ہو جائیں گے۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب التغلیظ فی ترک الجمعۃ، ص430، حدیث:865)
محمد اشفاق عطّاری(درجہ رابعہ،جامعہ المدینہ فیضان
عطّار نیپال گنج، نیپال)

انفاق فی سبیل اللہ
کے متعلق مختصر تمہیدی گفتگو: ہر مسلمان کو چاہئے کہ انفاق فی سبیل
اللہ کرتے رہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کا قرب حاصل کر سکے۔ راہِ خدا میں انفاق
کرکے وہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتے ہیں جو ہر کوئی نہیں کر سکتا ہے۔ اگر اللہ نے
آپ کو مال دیا ہے تو ضرور نیک کاموں میں خرچ کرے۔ حشر کے میدان میں کوئی بھی چیز
فائدہ نہیں دے گی۔ دنیوی دوستی بھی بیکار ہو گی بلکہ ماں باپ بھی اپنی اولاد سے
جان چھڑا رہے ہونگے۔ ہر عزیر و اقرباء ایک دوسرے سے بھاگ رہے ہوں گے۔ اس لئے ہمیں
چاہئے کہ آخرت کا فکر کرتے ہوئے نیک و جائز کاموں میں اپنا مال انفاق کرے۔ جیسا کہ اللہ
رب العزت نے حکم بھی دیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِمَّا
رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا
خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ-وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۲۵۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو
اللہ کی راہ میں ہمارے دئیے میں سے خرچ کرو وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدفروخت
ہے نہ کافروں کے لیے دوستی اور نہ شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں ۔(پ3،البقرۃ:254)
فکرآخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ قیامت کے آنے
سے پہلے پہلے راہِ خدا میں اللہ پاک کا دیا ہوا مال خر چ کرلو۔ قیامت کا دن بڑی ہیبت
والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی دوستیاں بھی بیکار ہوں گی
بلکہ باپ بیٹے بھی ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں گے اور کافروں کو کسی کی سفارش
کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کوئی کسی کی سفارش کرسکے گا۔ صرف اِذنِ الٰہی
سے اللہ پاک کے مقبول بندے شفاعت کریں گے جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیتُ الکرسی میں
آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی آخرت میں اسی صورت میں ہے جب دنیا میں اسے نیک
کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی۔
(صراط الجنان)
جو راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں اسے اللہ رب العزت ایک مثال
کے ذریعے بیان کر رہا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ
سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ
وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمہ کنز الایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں
خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور
اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔(پ3،البقرۃ:261)
راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان
کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے
سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج
کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں
خرچ کرتا ہے اللہ پاک اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا
فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ پاک کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے
بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی بشارت ہے
جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں ملتی ہیں۔(مسند
البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما، طاوس عن ابن عباس، 11 / 52، حدیث: 4745)
اس آیت
میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی
تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو
کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو
کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے
فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں وغیرہ پر کھلادیا جائے۔(صراط الجنان)
اللہ پاک ہمیں انفاق فی سبیل اللہ کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انفاق کرے تو کہاں کرے۔ تو اس بارے میں بھی اللہ رب العزت
نے ارشاد فرمایا ہے : لِلْفُقَرَآءِ
الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی
الْاَرْضِ٘-یَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ-تَعْرِفُهُمْ
بِسِیْمٰىهُمْۚ-لَا یَسْــٴَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاؕ-وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ
خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ۠(۲۷۳)ترجمہ کنز الایمان: ان فقیروں
کے لیے جو راہ خدا میں روکے گئے زمین میں چل نہیں سکتے نادان انہیں تونگر سمجھے
بچنے کے سبب تو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا لوگوں سے سوال نہیں کرتے کہ
گڑگڑانا پڑے اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے جانتا ہے۔(پ3،البقرۃ:273)
اللہ پاک ہمیں علمائے کرام کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے
تاکہ وہ دین کا کام تیزی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کر سکے۔ اٰمین یا رب العالمین۔
انفاق فی سبیل اللہ میں معاشرے کا کردار: لیکن آج جب ہم
معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس طرف بالکل ہی توجہ نہیں دیتے ہیں۔
سستی کا شکار ہے۔ وہ سوچتے ہیں ہمارا مال ختم ہو جائے گا ۔ ہم مفلس ہو جائیں گے۔
لوگ ہم سے زیادہ مالدار ہو جائے گا۔ اس طرح کے وسوسے انسانوں کو شیطان دلاتا ہے
جسے اللہ پاک نے قرآن میں بیان کیا ہے: اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُكُمْ
بِالْفَحْشَآءِۚ-وَ اللّٰهُ یَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَ فَضْلًاؕ-وَ
اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌۖۙ(۲۶۸) ترجمۂ کنز الایمان : شیطان
تمہیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور اللہ تم سے وعدہ
فرماتا ہے بخشش اور فضل کا اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (پ3 ،البقرۃ : 268 )
بغیر کسی دنیاوی مفاد کے رضائے الٰہی کیلئے خرچ کرنے کے
فضائل کے بیان کے بعد اِس راہ میں پیش آنے والے سب سے بڑے وسوسے کا بیان کیا جا
رہا ہے کہ شیطان طرح طرح سے وسوسے دلاتا ہے کہ اگرتم خرچ کرو گے ،صدقہ دو گے تو
خود فقیر و نادا رہوجاؤ گے لہٰذا خرچ نہ کرو۔ یہ شیطان کی بہت بڑی چال ہے کہ
اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے وقت اس طرح
کے اندیشے دلاتا ہے حالانکہ جن لوگوں کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالا جارہا ہوتا ہے وہی
لوگ شادی بیاہ میں جائز و ناجائز رسومات پر اور عام زندگی میں بے دریغ خرچ کررہے
ہوتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ شیطان تو تمہیں بخل و کنجوسی کی طرف بلاتا ہے لیکن
اللہ پاک تم سے وعدہ فرماتا ہے کہ اگر تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو وہ تمہیں
اپنے فضل اور مغفرت سے نوازے گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ وہ پاک پروردگار بڑی وسعت والا ہے، وہ صدقہ سے تمہارے مال کو
گھٹنے نہ دے گا بلکہ اس میں اور برکت پیدا کردے گا۔(صراط الجنان)
لہذا مسلمانوں کو شیطانی وسوسے سے بچنا چاہئے اور فضائل کو ذہن نشین رکھے
کہ صدقہ غضبِ الٰہی کو بجھاتا اور بری موت دور کرتا ہے۔ گناہ مٹاتا ہے۔ برائی کے
ستر دروازے بند کرتا ہے اور بری قضا ٹال دیتا ہے۔ صدقہ دینے سے روزی اور مدد ملتی
ہے۔ عمر بڑھتی ہے۔ آفتیں دور ہوتی ہیں، نیز بلا صدقے سے آگے قدم نہیں بڑھاتی۔ (فتاوی
رضویہ، 23 / 137تا 140، ملخصاً)
محمد قاسم عطاری(درجہ خامسہ،جامعۃُ المدینہ فیضانِ امام احمد رضا حیدرآباد)

اللہ پاک جب کسی بندے کو پیدا فرماتا ہے۔ تو اس کے رزق کا
ذمہ کرم اپنے اوپر لے لیتا ہے۔ زمانہ حال میں لوگ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے
کتراتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کے انفاق فی سبیل اللہ
سے ہمارے مال میں کمی آ جائے گی اور اسی مال کو مختلف پارٹیوں اور فنکشنز میں
اڑاتے وقت ان کو مال کے کم ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ جبکہ قراٰن پاک میں جگہ
جگہ اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے نقصانات بیان کئے گئے ہیں۔ آئیے ان میں سے
چند سن کر انفاق فی سبیل اللہ کا ذہن بناتے ہیں۔
(1)اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ
یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ
اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴)ترجمہ کنزالایمان:اور وہ کہ
جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں
خوشخبری سناؤ درد ناک عذاب کی۔ (پ 10، التوبۃ: 34)
کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟حضرت عبداللہ بن عمر
رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں(یعنی وہ اس آیت
کی وعید میں داخل نہیں)خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی زکوٰۃ
نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قراٰن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ دیا جائے
گا۔(تفسیر طبری،التوبۃ،تحت الآیۃ:34، 6/357)
(2) ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ مَا لَكُمْ اَلَّا
تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِؕ- ترجمہ کنز
الایمان: اور تمہیں کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالانکہ آسمانوں اور زمین
سب کا وارث اللہ ہی ہے۔(پ27،الحدید:10) صراطُ الجنان میں ہے: یعنی تم کس وجہ سے
اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہیں کر رہے حالانکہ آسمانوں اور زمین سب کا مالک اللہ
پاک ہی ہے وہی ہمیشہ رہنے والا ہے جبکہ تم ہلاک ہو جاؤ گے اور تمہارے مال اسی کی
ملکیت میں رہ جائیں گے اور تمہیں خرچ نہ کرنے کی صورت میں ثواب بھی نہ ملے گا،
تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تم اپنا مال اللہ پاک کی راہ میں خرچ کر دو تاکہ ا س کے
بدلے ثواب تو پا سکو۔(صراطُ الجنان،10/721)
(3) اللہ
پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اَنْفِقُوْا
فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- وَ
اَحْسِنُوْاۚۛ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۹۵)ترجمہ کنزالایمان: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے
ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں۔(پ2،
البقرة: 195 )خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی بہت سی صورتیں ہیں: بخاری شریف میں ہے:یہ
آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔ (بخاری،3 / 178،حدیث: 4516) یعنی راہ ِ خدا میں
خرچ کرنا بند کرکے یا کم کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (صراطُ
الجنان،1/309)
پیارے اسلامی بھائیو!اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے انسان پاک
ہو جاتا ہے، اس کا دل بھی پاک ہو جاتا ہے اور مال بھی، اور آفات سے بھی محفوظ
رہتا ہے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی بلکہ اللہ پاک اس
کے مال میں اضافہ فرما دیتا ہے۔
ربِ کریم فرماتا ہے: اے ابنِ آدم! اپنے خزانے میں سے میرے
پاس کچھ جمع کر دے، نہ جلے گا، نہ ڈوبے گا، نہ چوری کیا جائے گا۔ میں اُس وقت تجھے
پورا بدلہ دوں گا، جب تو اُس کا زیادہ ضرورت مند ہوگا۔(شعب الایمان، 3/211، حدیث:
3342)
تو پیارے اسلامی بھائیو ہم سب کو اللہ پاک کی راہ میں اپنے
نفیس مال میں سے خرچ کرتے رہنا چاہئے تاکہ آخرت میں ہمیں اس کا بدلہ مل سکے۔

راہِ خدا میں خرچ کرنا
ایک محمود صفت ہے جس کے سبب اللہ
پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا ، دوزخ سے نجات اور جنّت میں داخلہ نصیب
ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کو معاشی سکون حاصل ہوتا ہے، معاشرے سے غربت
کا خاتمہ ہوتا ہے اور معیشت ترقی کی جانب سفر کرتی ہے۔جبکہ اس کے بر عکس راہِ خدا
میں خرچ نہ کرنا ایک مذموم صفت ہے جو اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی ناراضی، جہنم میں داخلے اور جنت
سے محرومی کا سبب ہو سکتا ہے۔ اس سے معاشرے پر بھی بُرے اثرات پڑتے ہیں اور معاشرہ
چوری ،ڈکیتی، بدامنی اور بے سکونی والا بن جاتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ کرنے کی اہمیت اور افادیت کو
بیان کیا اور کئی مقامات پر راہِ خدا میں خرچ نہ کرنےکے متعلق آیات نازل فرماکر
مسلمانوں کو اس کی وعید اور اس کے نقصانات سے آگاہ کیا۔
خود کو ہلاکت میں ڈالنے کا سبب: وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا
بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- ترجمۂ
کنزالایمان : اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ (پ2،
البقرة: 195) بخاری شریف میں ہے:یہ آیت خرچ کرنے سے متعلق نازل ہوئی۔
(بخاری،3/178،حدیث:4516) یعنی راہ ِ خدا میں خرچ کرنا بند کر کے یا کم کرکے اپنے
آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔(صراطُ الجنان،1/309)
اپنے آپ سے بخل کرنا: وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖؕ-وَ
اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو بخل کرے
وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج ۔(پ26
،محمد:38)
تفسیر صراطُ الجنان میں ہے: جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان سے
بخل کرتا ہے کیونکہ وہ خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہو جائے گا اور بخل کرنے کا
نقصان اٹھائے گا۔ بخل کرنے والا راہِ خدا میں خرچ کرنے کے ثواب سے محروم رہتا اور
حرص جیسی خطرناک باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ (صراطُ الجنان، 9/333 ملتقطاً)
درد ناک عذاب کی خوشخبری: وَ الَّذِیْنَ
یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ
اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ
کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ (پ10 ،التوبۃ:34)
کَنز کی وَعید میں کون سا مال داخل ہے؟:حضرت عبدُاللہ بن
عمر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ دی گئی وہ کنز نہیں(یعنی وہ اس
آیت کی وعید میں داخل نہیں)خواہ دفینہ (زمین میں دفن شدہ خزانہ) ہی ہو اور جس کی
زکوٰۃ نہ دی گئی وہ کنز ہے جس کا ذکر قراٰن میں ہوا کہ اس کے مالک کو اس سے داغ
دیا جائے گا۔(تفسیر طبری،التوبۃ،تحت الآیۃ:34، 6/357)
اللہ پاک ہمیں بخل
کی آفت سے بچائے اور دل کھول کر اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مختصر تمہید: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو انفاق فی سبیل اللہ کہا جاتا
ہے۔ یقیناً اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سارے فضائل ہیں مگر اللہ کی راہ میں
خرچ نہ کرنے کے بھی نقصانات ہیں خصوصاً اس صورت میں جب زکوٰۃ فرض ہو پھر تو زیادہ
ہی نقصانات ہیں۔
انفاق فی سبیل اللہ معاشرے میں: انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنا نہ صرف آپ کو فائدہ پہنچتا
ہے بلکہ معاشرے میں جو لوگ غریب ہیں ان کو بھی اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ بھی
اپنی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔
انفاق نہ کرنے کے قراٰنی آیات سے نقصانات: وَ الَّذِیْنَ
یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ
اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ(۳۴): ترجمۂ کنز العرفان: اور
وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کررکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے
انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔(پ10،التوبۃ:
34) اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بخل کرتے ہیں
، مال کے حقوق ادا نہیں کرتے اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ جب اللہ پاک نے یہودی و عیسائی
علما و پادریوں کی حرصِ مال کا ذکر فرمایا،
تو مسلمانوں کو مال جمع کرنے اور اس کے حقوق ادا نہ کرنے سے خوف دلاتے ہوئے فرمایا
کہ وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ پاک کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک
عذاب کی خوشخبری سناؤ ۔(صراط الجنان تحت
الآیہ (
تنگدلی سے راہِ خدا میں مال خرچ کرنا: وَ لَا یُنْفِقُوْنَ
اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ(۵۴) ترجمہ کنز العرفان: اور ناگواری سے ہی مال خرچ کرتے ہیں۔
(پ10،التوبۃ : 54 (منافقین کا راہ خدا میں خرچ کرنا مردود ہے اس لئے کہ جو کچھ
وہ خیرات کرتے ہیں وہ بھی ناگواری سے کرتے ہیں کیونکہ اس میں بھی وہ ثواب کے قائل
نہیں ، صرف اپنے نفاق کو چھپانے کے لئے خیرات کرتے ہیں۔( صراط الجنان سورہ توبہ
تحت الآیہ) اس آیتِ
مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راہ ِ خدا میں خرچ کرنے سے د ل تنگ ہونا منافقوں کا
طریقہ ہے۔ لہٰذا اللہ پاک کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے اور وہ بھی خوش
دلی سے خرچ کیا جائے۔
انفاق فی سبیل اللہ کا درس: تو جیسا کہ آپ نے سنا اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کے کتنے نقصانات ہیں سب سے
بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ منافقوں کی علامت ہے۔ اللہ پاک ہمیں اس سے بچائے اور ہمیں چاہیے کہ ہم
اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کریں اور غریبوں ، فقیروں کا خیال ضرور رکھیں۔