سیف علی عطّاری(درجہ خامسہ جامعۃالمدینہ فیضان حسن و
جمال مصطفی کراچی،پاکستان)

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 96
صفحات پر مشتمل کتاب ”تکبر“صفحہ 16 پر ہے: خُود کو افضل اور دوسرے کو حقیر جاننے
کا نام تکبر ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: الکبر بطر
الحق و غمط الناس یعنی تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان، حدیث 91 ،ص 61 (جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔
(1)حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے
گا جس کی وجہ سے ان پر ذلت طاری ہو گی اور انہیں جہنم کے
بولس نام کے قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا (گھسیٹا) اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی
لپیٹ میں لے کران پر غالب آجائے گی اور انہیں جہنم کی پیپ پلائی جائے گی۔(ترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ ،4/ 221حدیث:2500)
(2)سرکار عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا : بے شک قیامت کے دن تم میں سے میرے سب سے نزدیک اور پسندیدہ شخص وہ ہو گا
جو تم میں سے اخلاق میں سب سے زیادہ اچھا ہو گا اور قیامت کے دن میرے نزدیک سب سے
قابل نفرت اور میری مجلس سے دور وہ لوگ ہوں گے جو واہيات بکنے والے ، لوگوں سے
ٹھٹھا کرنے والے اور مُتَفَیْہِق ہیں۔صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :یا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بے ہودہ بکواس بکنے والوں اور لوگوں سے ٹھٹھا
کرنے والوں کو تو ہم نے جان لیا مگر یہ مُتَفَیْہِق کون ہيں؟ تو آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اس
سے مراد ہر تکبر کرنے والا شخص ہے ۔(جامع الترمزی،ابواب البر و الصلۃ، 3 / 410،حدیث:2025)
(3)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تا جدار
رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جس کے دل میں رائی کے دانے
جتنا (تھوڑاسابھی) تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل نہ ہو گا۔(صحیح مسلم کتاب الایمان ،ص
60،حدیث 147)حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں اس سے مراد ( گزشتہ حدیث مبارکہ)ہر بری
خصلت سے عذاب بھگتنے کے بعد یا اللہ کے عفوو کرم سے پاک و صاف ہو کر جنّت میں داخل
ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح ،8/ 828تا829)
(4)مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا بیشک جہنم میں ایک مقام ہےجس میں تکبر کرنے والے کو ڈال کر اوپر سے بند کر
دیا جائے گا۔(مساویٔ الاخلاق للخرائطی، ص 234حدیث:577)
(5)اللہ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر نظر
رحمت نہیں فرمائے گا ۔(صحیح البخاری، کتاب اللباس ،4/36،حدیث: 5788)
تکبر کا علاج: اپنے رب کریم سے
دعا کریں، رب کریم کی بارگاہ میں حاضری کو یاد رکھیئے، اپنے عیوب پر نظر رکھیئے، عاجزی
اختیار کریں، اپنا سامان خود اٹھایئے،حق بات تسلیم کریں،اپنی غلطی مان لیجئے ،اپنے
کام کود سے کریئے ،غریبوں کی دعوت قبول کریں، لباس میں سادگی اختیار کریئے، دعوت
اسلامی کا مدنی ماحول اپنا لیجئے، دعوت اسلامی کے ہفتہ
وار اجتماع میں شرکت کیجیئے۔ ان
شاءاللہ اگر آپ ان تمام پر عمل کریں گے تو تکبر جیسی بری بلا سے محفوظ رہیں گے۔ اللہ
ہم تمام کو تکبر جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے اور ہمارا خاطمہ بالخیر فرمائے ۔اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی آفتاب قادریت مہتاب رضویت
حضرت علامہ مولانا أبو بلال محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتھم العالیہ غلامانِ
رسول کو سمجھاتےاور نیکی کی دعوت سے مالامال مدنی پھول عطاءفرماتے ہوئے اپنے
مجموعہ کلام وسائل بخشش میں فرماتے ہیں:
خوب انساں کو کرتی ہے رسوا ۔۔۔۔۔۔جب زباں بے لگام ہوتی ہے
گر تکبر ہو دل میں ذرہ بھر۔۔۔۔۔۔۔سن
لو جنّت حرام ہوتی ہے
راحیل افضل (درجہ خامسہ،مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ
مدینہ کراچی،پاکستان)

تبلیغِ قراٰن و سنت
کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ
96 صفحات پر مشتمل کتاب ”تکبر“ صفحہ 16 پر ہے: ”خود کو افضل دوسروں کو حقیر جاننے
کا نام تکبر ہے“۔ چنانچہ رسول اکرم، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(مسلم،
کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ، حدیث : 91، ص61)
تکبر انتہائی مذموم وصف ہے اور اس کا تعلق دل سے ہے۔ انسان
دل ہی دل میں خود کو دوسروں سے بہتر گمان کرتا اور اس آفتِ بد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اب چاہے خود کو دوسروں سے بہتر گمان کرنا لباس کی وجہ سے ہو یا خوش الحانی کے سبب،
حسن وجمال کی وجہ سے ہو یا مال و دولت کی فراوانی کے سبب، زیادتئ علم کی وجہ سے ہو
یا کثرتِ عبادات و ریاضات کے سبب، سب ہی تکبر کی صورتیں اور باعثِ ہلاکت ہیں۔
تکبر کا انجام بہت ہی بھیانک ہے کہ اس کے سبب آدمی کے لئے
قبولِ حق بھی مشکل و دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی تکبر کا نتیجہ ہے کہ ابلیس جو کہ بہت
بڑا عابد و زاہد اور ملائکہ کا استاد تھا مردودِ بارگاہِ رب الانام ہوا۔ اسی کے
سبب سے قارون کو اس کے مال و دولت سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی تکبر کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے
چنانچہ:
(1)حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی
دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر
کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو
پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، 3 / 403، حدیث: 2007)
(2)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح
آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے، ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، انہیں
جہنم کے قید خانے کی طرف لے جایا جائے گا جس کا نام ’’بولس‘‘ ہے، آگ ان پر چھا
جائے گی اور انہیں ’’ طِیْنَۃُ الْخَبَالْ ‘‘ یعنی جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا۔ (ترمذی،
کتاب صفۃ القیامۃ ، 4 / 221، حدیث: 2500)
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ
سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو تکبر
کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف رحمت کی نظر نہ
فرمائے گا۔ (بخاری، کتاب اللباس، باب من جرّ ثوبہ من الخیلائ، 4 /46، حدیث: 5788)
(4) حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہو گا وہ جنّت میں داخل
نہ ہو گا۔ (مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص60، حدیث: 147(
(5)حضرت حذیفہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
کیا میں تمہیں اللہ پاک کے بد ترین بندے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ بد اخلاق اور
متکبر ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث حذیفۃ بن الیمان عن النبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 9 / 120، حدیث: 23517)
اللہ پاک ہمیں تکبر جیسے مذموم وصف سے محفوظ فرمائے اور عاجزی و انکساری عطا فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تکبر باطنی بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے اور افسوس کے
ساتھ یہ مرض ہم میں کثرت سے بڑھتا چلا جا رہا ہے کسی کو اپنے ہنر پر فخر و تکبر ہے
اور دوسرے کو حقیر سمجھا جاتا ہے تو کسی کو اپنے مال و دولت پر ناز ہے تو کسی اپنی
طاقت و قوت پر تکبر اور کوئی اپنے حسب و نسب پر اتراتا ہے تو کوئی اپنے منصب و
مرتبہ پر فخر و تکبر کرتا دکھائی دیتا ہے اور تو اور کسی کو اپنی عبادت و ریاضت
بڑا فخر و غرور ہے کسی کو اپنے علم پر ناز ہے اور دوسروں کو اپنے سے حقیر جانتا ہے
یاد رکھئے میرے محترم اسلامی بھائیو !!متکبر شخص اللہ پاک کو ناپسند ہے اللہ پاک قراٰن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
اور تکبر کی تعریف کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام
ہے(مسلم، حدیث: 174)
آئیے تکبر کی مذمت پر
پانچ روایات بیان کرتے ہیں:
(1) فرمان نبوی ہے: جس شخص کے دل میں
رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں ہوگا اور جس شخص کے دل میں
رائی کے دانہ کے برا بر ایمان ہوگا وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، حدیث: 148)
(2) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے کہ عظمت اور کبریائی میری چادر
میں ہیں جوان میں سے کسی کا دعوی کرے گا میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا ، مجھے کسی
کی پروانہیں ہے۔(ابو داؤد، حديث :4090)
(3) فرمان نبوی ہے کہ
آدمی اپنے نفس کی پیروی میں برابر بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسے متکبرین میں
لکھا جاتا ہے اور اسے انہیں کے عذاب میں مبتلا کیا جائیگا۔(ترمذى،حديث :2007(
(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سرکش اور
متکبروں کو قیامت کے دن چیونٹیوں جیسی جسامت میں پیدا کیا جائے گا اللہ پاک کے
یہاں ان کی ناقدری کی وجہ سے لوگ انہیں روندتے ہوں گے۔(ترمذى، حديث: 2500)
5) ) فرمان نبوی ہے
کہ جہنم میں ایک محل ہے جس میں تمام متکبروں کو جمع کیا جائیگا اور پھر وہ محل ان
پر گرا دیا جائے گا۔(شعب الإيمان،حديث:8187)
میرے پیارے اسلامی بھائیو! صادق و مصدوق نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سے واضح ہوتا ہے تکبر انسان کے لئے دنیا و
آخرت میں کس قدر ہلاکت و رسوائی کا سبب ہے مگر افسوس کہ آج ہم اپنے سے کم مرتبہ
شخص کو کس قدر حقارت سے دیکھتے ہیں اور ہمارے انداز اور طور طریقے کس قدر
تقسیم ہو چکے ہیں کہ ہمارا ایک امیر و مال و منصب و مرتبے والے سے ملنا کا
گفتگو کرنے کا انداز اور ہے اور کسی نادار اور کم مال و دولت والوں سے ملنے اور
گفتگو کرنے کا طور طریقہ مختلف ہے بڑے آدمی سے جھک کر سلام لیں گے، جبکہ عام شخص
سے ہاتھ ملانا گوارہ نہ کریں گیں اور بعض تو اپنے گھر کام کرنے والوں کو
اپنے برابر یا پاس بیٹھنا گوارہ نہیں کرتے۔ یاد رکھئے محترم اسلامی بھائیو ! کبریائی اور بڑائی اللہ پاک کی ذات کے لیے ہے
اور اللہ پاک متکبر شخص سے ناراض ہوتا ہے جس کا اعلان واضح طور پر اللہ پاک نے
فرمایا: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
جس کو اللہ پاک پسند نہیں فرماتا یقیناً ایسا شخص جہنم کا مستحق ہے اللہ پاک ہم سے
راضی ہو جائے اور اللہ پاک ہمیں عاجزی و انکساری نصیب فرمائے اور تکبر جیسی بری
بیماری سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پیارے اسلامی بھائیو ! جہنم میں لے جانے والے گناہوں میں سے
ایک تکبر بھی ہے جس کا علم سیکھنا فرض ہے۔
تکبر ایسا خطرناک باطِنی مرض ہے جس کی وجہ سے ’’معلم الملکوت یعنی فِرِشتوں کے اس تاذ
‘‘ کا رُتبہ پانے والے اِبلیس (شیطان) نے خدائے رحمٰن کی نافرمانی کی اور اپنے
مقام ومَنصَب سے محروم ہوکر جہنمی قرار پایا۔
آئیے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ تکبر کسے کہتے ہیں:
تکبر کی تعریف: خود کو افضل، دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے ۔ چنانچہ رسول اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تکبر حق کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا
نام ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبروبیانہ، حدیث
: 91، ص61)
اِس باطِنی گناہ کے کثیر دنیوی واُخرَوی نقصانات ہیں، رب
کائنات عزوجل تکبر کرنے والوں کو پسند
نہیں فرماتا جیسا کہ سورۂ نحل میں اِرشاد ہوتا ہے : اِنَّهٗ لَا
یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ
مغروروں کو پسند نہیں فرماتا ۔ (پ14، النحل:23)
شہنشاہ خوش خصال، پیکر حسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : اللہ پاک متکبرین (یعنی مغروروں) اور اترا کر
چلنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے ۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال،3/210، حدیث : 7727)
تکبر کی مذمت کے بارے میں اور بھی کئی آیات ہیں بہرحال ان
پر اکتفا کرتے ہوئے اب احادیثِ مبارکہ سے اس کی مذمت بیان کی جائے گی۔
تکبرکی مذمت پر
احادیثِ مبارکہ
(2)تکبر کرنے والوں کو قیامت کے دن ذلت و رسوائی
کا سامنا ہوگا: چنانچہ دو جہاں کے تاجور، سلطان بحرو بر صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے :
قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا، ہر
جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم کے ’’بولس‘‘ نامی قید خانے کی طرف ہانکا
جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ
میں لیکر ان پر غالب آجائے گی، انہیں ’’طینۃ الخبال یعنی جہنمیوں کی پیپ‘‘ پلائی جائے گی۔(جامع الترمذی، کتاب
صفۃ القیامۃ، باب ماجاء فی شدۃ الخ، 4/221، حدیث: 2500)
(3) رسول اکرم، شہنشاہ بنی آدم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : ایک شخص دو چادریں اوڑھے
ہوئے جا رہا تھا، تکبر کے مارے اس کا تہبند لٹک رہا تھا تو اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا اب وہ قیامت تک
اس میں دھنستا رہے گا۔(المطالب العالیۃ لابن حجر، باب الزجرعن الخیلاء ،4/568، حدیث: 5546)
(4)سرکار والا
تبار، ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : اللہ پاک ان چار لوگوں کو
قطعاً پسند نہیں فرماتا: (1) کثرت سے قسمیں کھانے والا تاجر (2) متکبر فقیر (3) بوڑھا زانی اور (4) ظالم حکمران۔(سنن النسائی، کتاب الزکاۃ،
باب الفقیر المختال، حدیث: 2577،ص2254)
(5)رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے
میں خبر نہ دوں۔ ہر ناحق جھگڑا کرنے والا، اَکڑ کر چلنے والا اور تکبر کرنے والا
جہنمی ہے۔(مسلم،کتاب الجنۃ الخ،باب النار
یدخلھا الجبارونالخ ،ص1527، حدیث : 2853) یہ حدیث بخاری و مسلم دونوں میں ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے وہ ہمیں نیک اعمال کرنے، گناہوں سے بچنے
کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں تکبر جیسے موذی مرض سے نجات عطا فرمائے، جہنم سے آزادی
اور جنّت میں داخلہ نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد بلال رضا عطّاری(درجہ رابعہ،جامعۃ المدینہ فیضان غوث اعظم قصور،پاکستان)

تکبر کسے کہتے ہیں ؟:خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ امام
راغب اصفہانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں سے
افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر اور مغرور کہتے ہیں۔ تکبر کرنے
والوں کے بارے میں اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ
سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ
جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر
۔(پ24، المؤمن:60)
متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں
سے پانچ ملاحظہ فرمائے۔
(1)سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: مجھ پر جہنم میں سب سے پہلے داخل ہونے والے تین افراد پیش کئے گئے جو یہ
ہیں:(1) زبر دستی حکمران بننے والا،(2) اپنے مال سے اللہ پاک کا حق ادا نہ کرنے
والا، (3) متکبر فقیر(جہنم میں لے جانے والے اعمال،حدیث39،ص235)
(2) حضرت سیدنا سلیمان بن داؤد علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ
والسلام نے ایک دن جن وانس،درندوں اور پرندوں کو باہر نکلنے کا حکم دیا تو دولاکھ
انسان اور دولاکھ جن حاضر خدمت ہوگئے پھر آپ علیٰ نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام
اتنے بلند ہوئے کہ آپ علیٰ نبینا وعلیہما
الصلوۃ والسلام نے آسمانوں کے فرشتوں کی تسبیح کرنے کی آواز سن لی۔ پھر آپ علیٰ
نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام نیچے تشریف لائے ۔یہاں تک کہ آپ علیٰ نبینا وعلیہما
الصلوۃ والسلام کے قدم مبارک سمندر سے مل گئے کہ اچانک آپ علیٰ نبینا وعلیہما
الصلوۃ والسلام نے ایک آواز سنی ”اگر
تمہارے ساتھی کے دل میں رائی کے دانے جتنا
تکبر ہوتا تو میں اسے اس سے بھی دور تک زمین میں دھنسا دیتا جتنا اسے بلندی پر لے گیا تھا“۔(جہنم میں لے جانے
والے اعمال،حدیث54،ص237)
(3) مدینے کےتاجدار
ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے کہ ظالم اور متکبر لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں
کی طرح اٹھائے جائیں گے ۔لوگ انہیں اللہ پاک کے معاملے کو ہلکا جاننے کی وجہ سے اپنے قدموں تلے روندتے ہوں گے۔(جہنم میں
لے جانے والے اعمال، حدیث13 : ، ص 231)
(4) سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کا فرمان عالیشان ہے : قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں
چیونٹیوں کی مانند ا ٹھایا جائے گا، ہر جانب سے ان پر ذلت طاری ہو گی، انہیں جہنم
کے ”بُولَس “نامی قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا اور بہت بڑی آگ انہیں اپنی لپیٹ
میں لیکر ان پر غالب آ جائے گی، انہیں ”طِیْنَۃُ الْخَبَّالِ “یعنی جہنمیوں کی پیپ پلائی جائے گی۔ ۔(جہنم میں لےجانے
والے اعمال،حدیث12،ص231(
(5)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی
ان میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال
دو گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد،حدیث،4174)
اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے تکبر سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تکبر کسے کہتے ہیں ؟: خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام تکبر ہے۔ چنانچہ
رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اَلْکِبْرُ
بَطرُ الْحَقِّ و غَمطُ النَّاسِ ترجمہ تکبر حق
کی مخالفت اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: تکبر یہ ہے کہ
انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ جس کے دل میں تکبر پایا جائے اسے متکبر
اور مغرور کہتے ہیں۔
یاد رہے کہ تکبر کرنے والا مؤمن ہو یا کافر، اللہ پاک اسے
پسند نہیں فرماتا اور تکبر سے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :تکبر حق بات کو
جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص:276)
قرآن و حدیث میں تکبر کرنے والوں کا بہت برا انجام بیان
کیا گیا ہے ،چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔ (پ14،النحل:23)
متعدد احادیث میں بھی تکبر کی مذمت بیان
کی گئی ہے۔ جن میں سے پانچ ملاحظہ فرمائیں۔
(1)ایک شخص اپنی چادر اوڑھے اکڑ کے چل رہا تھا اور اسے اپنا
آپ بڑا پسند آیا اللہ پاک نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا رہے
گا۔(مسلم باب جرالثوب خیلا،الخ حدیث،2058)
(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہیں
ہوگا۔ اور وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی
ایمان ہوا۔(مسلم کتاب الایمان،باب تحریم الکبر،حدیث،148)
(3) سب سے آخری نبی مُحَمَّد مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنّت اور جہنم کے درمیان مکالمہ ہوا تو جہنم نے کہا کہ
مجھے متکبروں اور ظالموں سے ترجیح دی گئی ہے۔ جنّت نے کہا کہ مجھے کیا ہے کہ مجھ
میں کمزور ،عاجز اور گرے پڑے لوگ داخل ہونگے۔ اللہ پاک نے جنّت سے ارشاد فرمایا کہ
تو میری رحمت ہے۔ میں تیرے ذریعے سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا
اور جہنم سے ارشاد فرمایا کہ تو میرا عذاب ہے تیرے ذریعے میں اپنے بندوں میں سے جس
پر چاہوں گا عذاب دوں گا اور تم دونوں کو بھر دوں گا۔(مسلم کتاب الجنہ باب النار،
حدیث،2846)
(4)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : بدتر ہے وہ شخص جو تکبر کرے اور حد سے بڑھے اور سب
سے بڑے جبار عزوجل کو بھول جائے۔(سنن الترمذی کتاب الصفۃ القیامۃ،ص،203تا204،حدیث
،2456)
(5) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ۔ اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے کہ بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میرا تہبند ہے۔ جو کوئی ان
میں سے کسی ایک کے بارے میں کبھی بھی مجھ سے جھگڑے گا تو میں اس جہنم میں ڈال دو
گا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد،حدیث،4174)
اللہ پاک ہمیں ان احادیث پر عمل کرتے ہوئے تکبر سے بچنے اور
عاجزی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم
النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابو رضا اسامہ صدیقی المدنی ( جامعۃالمدینہ آفندی
ٹاؤن حیدرآباد ،پاکستان)

تکبر کبیرہ گناہوں میں سے ایک ایسا گناہ ہے کہ جس کی وجہ سے
بندے کئی گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کفر بھی کر بیٹھتے ہیں۔ لیکن پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ تکبر کہتے کسے ہیں چنانچہ خود کو افضل، دوسروں
کو حقیرو ذلیل جاننے کا نام تکبر ہے اور شیطان جو کہ معلِّم المَلَکوت یعنی فرشتوں کا استاذ تھا وہ بھی اللہ پاک کی
بارگاہ اقدس سے اس تکبر کی وجہ سے مردود ہوا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے جب شیطان کو حکم
دیا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کر ، تو اس نے سجدہ نہیں کیا اور کافروں میں سے
ہوگیا، پھر اللہ پاک نے اس سے پوچھا کہ تو
نے سجدہ کیوں نہیں کیا تو اس نے کہا : اَنَا خَیْرٌ
مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجمہ
کنزالایمان: میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اس ے مٹی سے بنایا (پ8،الاعراف:12)
اور یہ ایسا گناہ ہے جس کی قراٰن و حدیث میں بہت مذمت آئیں
ہیں اور قراٰن پاک میں اللہ پاک ایسے شخص کی یوں مذمت فرمائی: اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ
الْمُسْتَكْبِرِیْنَ(۲۳) ترجمہ کنزالایمان: بے شک وہ مغروروں کو پسند نہیں فرماتا۔(پ14،النحل:23)
جسے اللہ پاک نا پسند کرتا ہو تو اس شخص کی دنیا و آخرت
دونوں برباد ہیں اور ایسے شخص کو رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی
پسند نہیں فرماتے۔ چنانچہ متکبر شخص کی مذمت کے بارے میں 5 فرامین مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:۔
(1) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند لٹکائے گا اللہ پاک قیامت کے دن اس پر
نظرِرحمت نہ فرمائے گا۔(صحیح البخاری،4/46،حدیث:5788)
(2) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جس کے دل میں رائی کے دانے جتنا بھی تکبر ہوگا وہ جنّت میں داخل نہ ہوگا۔(صحیح
مسلم،حدیث:147،ص60)
( 3) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: اللہ پاک متکبرین(یعنی تکبر کرنے والے)اور اترا کر چلنے والوں کو ناپسند
فرماتا ہے۔(کنزالعمال،3/210،حدیث:7727)
(4)حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو
چیونٹیوں کی شکل میں اٹھایا جائے گا اور لوگ ان کو روندیں گے کیوں کہ اللہ پاک کے
ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ہوگی(رسائل ابن ابی دنیا،التواضع و الخمول،578،حدیث224)
(5) حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر سے بچتے رہو کیونکہ اسی تکبر نے
شیطان کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرے(ابن
عساکر،حرف القاف ذکر من اسمہ قابیل،49/40)
اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہمیں ہمیشہ تکبر سے بچائے رکھے اور اپنی رضا کے لئے عاجزی اختیار کرنے کی توفیق
دے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد اشفاق عطّاری(درجہ رابعہ،جامعہ المدینہ فیضان
عطّار نیپال گنج، نیپال)

جمعہ کی فضیلت کے
لئے یہی کافی ہے کہ سرکار مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :
یہ تمام دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے روز
مرنے والے سے قبر میں سوالات نہیں کئے جاتے ہیں۔ روز جامعہ میں ایک ایسا وقت ہے جس میں دعا رد نہیں کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن ایک نیکی کا ثواب ستر گناہ زیادہ ملتا ہے
جبکہ اور دنوں میں ایک نیکی کرنے پر صرف دس نیکیاں ملتی ہے۔ جمعہ کے دن ہر گھنٹہ میں چھ لاکھ مسلمان عذاب نار سے
نجات پاتے ہیں۔ جس پر جہنم واجب ہو چکی ہوتی ہے۔ جمعہ کے دن ہر کھڑی بڑی قیمتی ہے اس لئے ہمیں اس کی
قدر کرنی چاہئے اسے اور دنوں کی طرح غفلت میں ہرگز نہیں گزارنی چاہئے۔ بلکہ اس دن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رحمت
الٰہی سے مالامال ہوتا رہے اور دوسرے کو بھی اس بارے میں بتائیں تاکہ وہ میں
جمعہ کے دن سے فیضیاب ہو سکے۔ اللہ پاک ہمیں
جمعہ کے دن کی قدر کرنے کی توفیق عطا
فرمائیں۔
جمعہ کے دن ناخن کاٹنے پر فرمان مصطفٰے صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : جسے بہار شریعت میں
صدرُ الشَّریعہ رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ
پاک نقل فرماتے ہیں : جو جمعہ کے روز ناخن
تَرَشوائے اللہ پاک اس کو دو سرے جُمعے تک
بلاؤں سے محفوظ رکھے گا اور تین دن زائد یعنی دس دن تک۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جو جمعہ کے دن ناخن تَرَشوائے تو رَحمت آ ئے گی گناہ
جائیں گے۔(بہارِ شریعت حِصَّہ16، ص226، دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار، 9/668)
لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ ہر جمعہ کو اپنے ناخن تراشنے کی عادت ڈالے اور ثواب کا
حقدار بنیں۔ لیکن جن کے ناخن بڑے ہو گئے ہو اور چالیس دن ہونے والے ہو تو اسے
جمعہ سے قبل ہی تراش لے۔ جمعہ آنے کا انتظار نہ کرے۔ جیسا کہ صدرُ الشَّریعہ
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جمعہ کے دِن ناخن تَرشوانا مُستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جمعہ کا انتِظار نہ کرے کہ ناخن بڑا ہونا اچّھا نہیں
کیوں کہ ناخنوں کا بڑا ہونا تنگیٔ رِزق کا سبب ہے۔ (بہارِ شریعت حِصَّہ16، ص225)
عمامہ باندھنے والے
پر فرشتے درود بھیجتے ہیں: حدیث پاک میں
ہے : بے شک اللہ پاک اور اس کے فرِشتے جمعہ کے دن عمامہ با ند ھنے والوں پر
دُرُود بھیجتے ہیں ۔(مَجْمَعُ الزَّوائِد ،2/394،حدیث:3075)
اللہ پاک کے پیارے رسول، رسولِ مقبول، سیِّدہ آمِنہ رضی اللہُ
عنہا کے گلشن کے مہکتے پھول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ تمہارے لئے ہر جمعہ کے دن میں ایک حج اور ایک عمرہ موجود ہے، لہٰذا جمعہ کی نَماز کیلئے جلدی نکلنا حج ہے اور جمعہ کی نَماز کے بعد عَصر کی نماز کے لئے انتظار کرنا عمرہ ہے۔ (السنن الكبرى للبیہقی، 3/342،حديث: 5950)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ سرکارِ نامدار ، باِذنِ پروردگار دو عالم کے مالِک و
مختار، شَہَنشاہِ اَبرار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اَلْجمعۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْن یعنی جمعہ کی نماز
مساکین کا حج ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے
کہ اَلْجمعۃُحَجُّ الْفُقَرَاء یعنی جمعہ کی نماز غریبوں کا حج ہے۔ (جمع الجوامع لِلسُّیُوطی ، 4/84، حدیث:11108، 11109)
حجّ و عُمرہ کا ثواب:
حجۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمدبن محمد
غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں
: (نَمازِ جمعہ کے بعد ) عَصرکی نَما ز پڑھنے تک مسجِد ہی میں
رہے اور اگر نَمازِ مغرِب تک ٹھہرے تو افضل ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جس نے جامِع مسجِدمیں ( جمعہ ادا کرنے کے بعد وَہیں رُک
کر) نمازِ عَصرپڑھی اس کیلئے حج کا ثواب ہے اور جس نے (وَہیں رُک کر) مغرِب کی نَماز پڑھی اسکے لئے حج اور عمرے کا
ثواب ہے۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ،1/249)
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان رحمت نشان
ہے : جمعہ میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسے
پاکر اس وقت اللہ پاک سے کچھ مانگے تو اللہ پاک اسکو ضرور د ے گا اور وہ گھڑی
مختصر ہے۔ (صَحیح مُسلِم، ص424،حدیث:852)
نوٹ: جمعہ کے فضائل
پر مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کا
رسالہ "فیضان جمعہ " کا مطالعہ فرمائیں بہت مفید ثابت ہوگا ان شاءاللہ
الکریم ۔

جمعۃُ المبارک کو بڑی فضیلت و اہمیت حاصل ہے، اللہ پاک نے
جمعہ کے نام کی ایک پوری سورت ”سورۃُ الجمعہ“ نازِل فرمائی ہے جو قراٰنِ کریم کے
اٹھائیسویں پارے میں جگمگا رہی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اس دن کے بہت فضائل بیان
ہوئے ہیں۔ چنانچہ سرکارِمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ
ہے: جُمُعہ کا دن تمام دِنوں کا سردار ہے اور اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور
وہ اللہ پاک کے نزدیک عیدُالاضحٰی اور عیدُالفطر سےبڑا ہے، اس میں پانچ خصلتیں ہیں:(1)اللہ
پاک نے اسی میں حضرت آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا (2)اسی میں انہیں زمین پر
اُتارا (3)اسی میں انہیں وفات دی (4)اور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس وقت
جس چیز کا سوال کرے اللہ پاک اسے دے گا، جب تک حرام کا سوال نہ کرے (5)اور اسی دن
میں قیامت قائم ہوگی، کوئی مُقَرَّب فرشتہ، آسمان و زمین،ہوا، پہاڑ اور دریا ایسا
نہیں کہ جمعہ کے دن سے ڈرتا نہ ہو۔(ابن ماجہ، 2/8، حدیث: 1084)
دن میں پانچ نمازیں فرض ہونے کی نسبت سے نمازِ جمعہ کی فضیلت
پر 5 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
(1)حضرتِ سیِّدُنا اَنس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے
کہ اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کسی
مسلمان کو جمعہ کے دن بے مغفرت کئے نہ چھوڑے گا۔(معجم اوسط، 5/ 109، حدیث: 4817)
(2)سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
خوشبودار ہے: جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس گھنٹے ہیں کوئی گھنٹہ ایسا نہیں جس میں
اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو، جن پر جہنم واجِب ہو گیا تھا۔ (مسند ابی
یعلیٰ، 3/219،حدیث:3421)
(3)حضرت عبداللہ بن عَمْرو رضی اللہُ عنہمَا سے روایت ہے کہ
حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: جو مسلمان جمعہ کے دن یا
جمعہ کی رات میں مرے گا، اللہ پاک اسے فتنۂ قبر سے بچالے گا۔ (ترمذی، 2/ 339، حدیث:
1076)
(4)تاجدارِمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد
فرمایا: جو روزِ جمعہ یا شبِ جمعہ (یعنی جمعرات اور جُمُعہ کی درمیانی شب)مرے گا
عذابِ قبرسے بچا لیاجائے گااور قِیامت کے دن اِس طرح آئے گا کہ اُس پر شہیدوں کی
مُہر ہو گی۔(حلیۃ الاولیاء، 3 / 181، حدیث: 3629)
(5)اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ فرحت نشان ہے: سوائے روزِ جمعہ کے جہنم(ہر روز)بھڑکایا جاتا ہے۔(ابو
داؤد،1/403،حدیث:1083)
اے عاشقان رسول! ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں جُمُعۃ المبارَک کی نعمت
سے سرفراز فرمایا۔ افسوس! ہم ناقدرے اس مبارک دن کو بھی عام دِنوں کی طرح غفلت میں
گزار دیتے ہیں حالانکہ جمعہ عید کا دن ہے۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: اللہ پاک نے
اِسے (یعنی جمعہ کو) مسلمانوں کے لئے عید کا دن بنایا ہے تو جو شخص جمعہ میں آئے
وہ غسل کرے اور جس کے پاس خوشبو ہو وہ خوشبو لگائے اور مسواک کرے۔(ابنِ ماجہ،
2/16،حدیث:1098)
اللہ پاک ہمیں اس مبارک دن کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دین ِ اسلام کی خوبصورتیوں میں ایک اس کا نظام اخوت اور بھائی چارہ اور مساوات بھی ہے۔ یہ
اخوت و بھائی چارہ اسی صورت ممکن ہے جب لوگ آپس میں ملیں، گفتگو کریں، حال اور
احوال کا تبادلہ کریں۔ آج کے اس جدید سائنسی دور نے اس چیز کو بہت کم کر دیا ہے
لیکن اسلام کی خوبصورتی تو دیکھیے کہ اس نے ہمیں اتنے جدید دور میں بھی باہمی
تعلقات قائم رکھنے اور ملاقات کے کثیر مواقع فراہم کئے ہیں۔ جیسے باجماعت نماز، حج
کہ جس میں دنیا بھر کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں۔ انہی میں ایک ہفتہ وار اجتماع
بھی ہے، جس کو ہم نمازِ جمعہ کہتے ہیں۔
قراٰن و حدیث میں اس کی بہت اہمیت و فضیلت
بیان ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ جمعہ کے ساتھ
بیع (خرید و فروخت) کو ترک کرنے کا حکم فرما دیا گیا۔ آیئے اب ہم اس سلسلے میں
پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنے دل اور روح کو جلا
بخشتے ہیں۔
(1)حضرت سَلمان فارسی رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے، خاتمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص جمعہ کے دن
نہائے اور جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی
استِطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز کو نکلے اور
دو شخصوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ
بیٹھے اور جو نَماز اس کے لئے لکھی گئی ہے
پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لئے اُن گناہوں کی، جو اِس
جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری،
1/306،حدیث:883)
(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا :بہتر دن جس پر سورج نے طلوع کیا، جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم علیہ السّلام پیدا کیے گئے ، اسی
میں جنّت میں داخل کیے گئے اور اسی میں انہیں جنّت سے اترنے کا حکم ہوا اور قیامت جمعہ ہی کے دن قائم ہوگی۔( مسلم، کتاب الجمعۃ، باب فضل یوم الجمعۃ، ص425، حدیث: 854)
(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب جمعہ کا دن
آتاہے تو مسجِد کے دروازے پر فِرشتے آ نے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو اللہ پاک کی راہ میں ایک اُونٹ صدقہ کرتا ہے، اور اس کے بعد آنے والا اس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صدقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اس شخص کی مثل ہے جومَینڈھا صدقہ کرے، پھر اِس کی مثل ہے جو مُرغی صدقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو اَنڈا
صدقہ کرے اورجب امام (خطبے کے لیے) بیٹھ جاتاہے تو وہ اعمال ناموں
کو لپیٹ لیتے ہیں اورآکر خطبہ سنتے ہیں۔(صَحیح بُخاری ، 1/319،حدیث:929)
(4) حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد
المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جمعہ کے دن مجھ پر درُود کی کثرت کرو کہ یہ دن مشہود
ہے، اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور مجھ پر جو درُود پڑھے گا پیش کیا جائے گا۔
(5) حضرت ابو لبابہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ پاک کے نزدیک سب سے بڑا
ہے اور وہ اللہ پاک کے نزدیک عیدالاضحی اورعید الفطر سے بڑا ہے۔( ابن ماجہ، کتاب
اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی فضل الجمعۃ، 2 / 8، حدیث: 1084)
ان فضائل کو سن کر ہمیں چاہیئے کہ اس مبارک گھڑی کی قدر کریں۔ اس میں جو اعمال
و افعال بیان کئے، عمل کریں اور سعادت دارین پائیں۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مبشر رضا عطّاری (درجہ ثانیہ ،جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم ،لاہور،پاکستان)

اللہ پاک کا ہم پر کتنا کرم ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں پانچ وقت کی نمازیں اور نمازِ
جمعہ کی عظیم دولت سے سرفراز فرمایا۔
افسوس ہم نا قدرے اس کو غفلت میں قضا
کر دیتے ہیں حالانکہ نمازِ جمعہ کو ادا کرنے والا جنّتی لکھ دیا جاتا ہے۔ نمازِ
جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ کریم
قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ
لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا
الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و
فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔(پ28،الجمعۃ:09)
تفسیر صراط الجنان میں ہے اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیت خرید و فروخت وغیرہ دُنیوی مشاغل کی
حرمت اور سعی یعنی نماز کے اہتمام کا وجوب ثابت ہو اور خطبہ بھی ثابت ہوا۔(خزائن
العرفان) احادیثِ کریمہ میں بھی نمازِ
جمعہ کا ذکر آیا ہے، چنانچہ نمازِ
جمعہ کی فضیلت و اہمیت پر پانچ احادیث
ملاحظہ ہو۔
(1)
جنّت واجِب ہو گئی: حضرتِ سیِّدُناابواُمامہ رضی اللہُ عنہ سے مَروی ہے کہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فر مایا: جس نے جمعہ کی نَماز
پڑھی ،اس دن کا روزہ رکھا ، کسی مریض کی عیادت
کی ،کسی جنازہ میں حاضِر ہوا اور کسی نِکاح میں شرکت کی توجنت اس کے لیے واجِب
ہوگئی۔(المعجمُ الکبیر ،8/97،حدیث:7484)
(2) مغفرت
کی بشارت: حضرتِ سیِّدُنا سَلمان فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، خاتمُ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت ہو کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز
کو نکلے اور دو شخصوں میں جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر
بیچ میں نہ بیٹھے اور جو نَماز اس کے لئے
لکھی گئی ہے پڑھے اور امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لئے اُن گناہوں کی، جو اِس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں
مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری، 1/306،حدیث:883)
(3) 200 سال کی عبادت کا ثواب: حضرتِ سیّدنا صدیق اکبر و
عمران بن حصین رضی اللہُ عنہما روایت
کرتے ہیں کہ تاجدار مدینہ منورہ سلطان مکہ مکرمہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :جو جمعہ کے دن نہائے اس کے گناہ اور خطائیں مٹا دی جاتی ہیں اور جب
چلنا شروع کیا تو ہر قدم پر بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ (المعجمُ الکبیر ، 18/139،حدیث: 292) اور
دوسری روایت میں ہے : ہر قدم پر بیس سال کا عمل لکھا جاتا ہے اور جب نَماز سے فارغ
ہو تو اس ے دو سو برس کے عمل کا اجر ملتا ہے۔(المعجمُ الْاَ وْسَط ،2/314 ،حدیث:
3397)
(4) گناہوں کا کفارہ: حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
:پانچ نمازیں، ایک نمازِ جمعہ دوسرے نمازِ
جمعہ تک ، ایک رمضان دوسرے رمضان تک کفارہ ہےجو ان کے درمیان گناہ ہوئے جبکہ کبائر (کبیرہ گناہوں) سے اجتناب
کیا۔(مسلم،2/186)
(5) دل پر مہر : نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت
نشان ہے: جو شخص تین جمعہ (کی
نَماز) سُستی کے سبب چھوڑے اللہ پاک اس کے دل پر مُہر کر دے گا۔(سنن ترمذی ، 2/38،حدیث:500)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پانچوں نمازیں باجماعت اور نمازِ
جمعہ پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جمعہ تمام دنوں کا
سردار ہے۔ جمعہ پڑھنا فرض ہے مقیم پر۔ جمعہ کے دن اچھے طریقے سے نہا دھوکر، غسل کرکے
جانا چاہیے۔ جمعہ کی نماز ایسی عبادت ہے کہ لوگ اس میں ذوق و شوق سے حاضر ہوتے ہیں اور
اپنے بچوں کو بھی اس میں لے آتے ہیں۔ آیئے ہم جمعہ کے بارے میں کچھ احادیثِ پاک سنتے ہیں۔
(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا :جس نے جمعہ کے دن غسل کیا
پھر نماز(جمعہ ) کے لئے پہلی گھڑی گیا گویا اس نے اونٹ کی قربانی کی، جو دوسری گھڑی
میں گیا گویا اس نے گائے کی قربانی دی، جوتیسری ساعت میں گیا گویا اس نے سینگوں
والا مینڈھا قربان کیا جو چوتھی ساعت میں گیا گویا اس نے مرغی صدقہ کی جو پانچویں
ساعت میں گیا گویا اس نے انڈا صدقہ کیا اور جب امام (منبرکی طرف) نکلتا ہے تو
اعمال نامے لپیٹ دئیے جاتے ہیں اور قلم روک دئیے جاتے ہیں اور فرشتے منبر کے پاس
جمع ہو کر خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
تشریح: اس حدیث میں جو بیان ہوا وہ ترتیب سے آنے والوں کے لئے
فضیلتیں ہیں کہ جو پہلے آیا اس کو اونٹ صدقہ کرنے کا اور جو اس کے بعد آیا گائے
صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔اور جو اس کے بعد آیا سینگوں والا مینڈھا صدقہ کیا۔تو
اس طرح ثوابات مختلف ہیں۔ اللہ ہمیں جلدی جمعہ کے لئے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
(2) حضرتِ سیِّدُناسَلمان فارسی رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن نہائے اور
جس طہارت ( یعنی پاکیزگی) کی استِطاعت ہو
کرے اور تیل لگائے اور گھر میں جو خوشبو ہو ملے پھر نَماز کو نکلے اور دو شخصوں میں
جُدائی نہ کرے یعنی دو شخص بیٹھے ہوئے ہوں اُنھیں ہٹا کر بیچ میں نہ بیٹھے اور جو
نَماز اس کے لئے لکھی گئی ہے پڑھے اور
امام جب خطبہ پڑھے تو چپ رہے اس کے لئے
اُن گناہوں کی، جو اِس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان ہیں مغفِرت ہو جا ئے گی۔(صَحیح بُخاری،
1/306،حدیث:883)
ہفتہ بھر گناہوں کی بخشش کی سات صورتیں:(1) غسل (2) مکمل
طہارت (3) سر اور داڑھی میں تیل لگاکر گندگی کو دور کرنا۔ (4) خوشبو ہو تو لگائے
(5)مسجد میں جائے جہاں جگہ ملے وہی بیٹھ جائے۔ (6)جتنی چاہے نماز پڑھے۔ (7)خطبہ کے
وقت خاموش رہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ خطبہ دے رہے تھے کہ امیر
المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہُ
عنہ مسجد میں تشریف لائے تو آپ نے ان سے فرمایا: کیا یہ آنے کا وقت ہے؟ تو امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: اذان سننے کے بعد میں نے صرف وضو کیا اور چلا آیا۔ ‘‘ تو امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: کیا صرف وضو؟ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔
تشریح: جمعہ کے دن گسل
کرنا سنّت ہے، تو اس سنّت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی غسل کرکے مسجد میں جائیں۔
(4) حضرت سَلمان فارسی رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ جمعہ کا
دن کیا ہے؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ پھر دوسری بار آپ نے
ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ جمعہ کا
دن کیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی بار ارشاد فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں تمہارے باپ
آدم علیہ السّلام کو جمع کیا گیا۔ اس دن جو مسلمان بھی وضو کر کے مسجد میں جائے
گا، پھر اس وقت تک خاموش بیٹھا رہے حتّی کہ امام اپنی نماز پڑھ لے، تو یہ عمل اس
جمعہ اور اس کے بعد جمعہ کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا، بشرطیکہ اس نے
خون ریزی سے اجتناب کیا ہو۔(نعمۃ الودود فی شرح ابی داؤد،3/797)
(5)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جمعہ کے دن اور رات میں چوبیس
گھنٹے ہیں، کوئی گھنٹا ایسا نہیں جس میں اللہ پاک جہنم سے چھ لاکھ آزاد نہ کرتا ہو
جن پر جہنم واجب ہو گیا تھا۔
اللہ کریم ہمیں پاک و صاف ہوکر مسجد میں جاکر جمعہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم