پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی  کے زیر اہتمام مدرسۃُ المدینہ کبیر والا خانیوال میں سیکھنے سکھانے کا حلقہ ہوا جس میں مدرسے کے طلبہ و اساتذہ نے شرکت کی۔

خانیوال ڈسٹرکٹ ذمہ دار محمد یو سف عطاری نے یومِ مدرسۃُ المدینہ کے موقع پر بچوں اور اساتذہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے سنتوں بھرا بیان کیا پھر شعبہ اسپیشل پرسنز کا تعارف پیش کرتے ہوئے انہیں ڈیف اسلامی بھائیوں میں نیکی کی دعوت دینے کا ذہن دیا اور آخر میں کچھ اشارے بھی سکھائے۔ (رپورٹ : محمد سمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


پنجاب پاکستان کے شہر کوٹ مٹھن شریف میں دعوتِ اسلامی کے شعبہ مزاراتِ اولیاء کے تحت عرسِ حضرت خواجہ عبدالکریم کوریجہ رحمۃاللہ علیہ کےحوالے سے مزار شریف میں قراٰن خوانی کا اہتمام کیا گیا جس میں مدرسۃالمدینہ بوائز کے بچوں، شعبے کے ڈویژن ذمہ، شعبہ مدنی قافلہ کے ڈویژن ذمہ داراور ڈسٹرکٹ ذمہ دار سمیت کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

اس موقع پر محفلِ نعت کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر ثناء خوانوں نے شرکت کی نیز محفل کے بعد اسلامی بھائیوں نے مزار شریف پر حاضری دی۔بعدازاں صاحبزادہ خواجہ محمد فرید کوریجہ نے مدنی چینل کو تأثرات دیتے ہوئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ (رپورٹ:ساجد رسول عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


10 دسمبر 2022ء بروز ہفتہ گجرات میں شعبہ مزاراتِ اولیاء دعوتِ اسلامی کےذمہ دار اسلامی بھائیوں نے پیر سیّد قطب علی شاہ قادری سے ملاقات کی۔

دورانِ ملاقات ڈویژن ذمہ دار ثناء اللہ عطاری نے انہیں دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات بالخصوص شعبہ مزاراتِ اولیاء کا تعارف کروایا اور دینی کاموں میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔بعدازاں ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے پیر سیّد مقبول حسین شاہ علیہ رحمہ کے مزار شریف پر حاضری دی۔ (رپورٹ:شعبہ مزارات ولیاء، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


مدنی قاعدہ موبائل ایپلی کیشن جس میں شامل ہیں!

22اسباق

لفظ با لفظ آڈیو

تمام اسباق کی وڈیو ز

اردو اور انگلش  زبان

سوال و جواب

آن لائن قاری  صاحبان

تو آج ہی پلے اسٹور اور ایپ اسٹور سے ڈاون لوڈ کریں:

Download Now


الله پاک نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے اور اس میں انسانوں کو آباد کیا ہے۔

انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد:الله پاک کی عبادت و اطاعت انسان کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہے۔ دنیا کی رونق اور نفس و شیطان کے دھوکے سے یہ مقصد نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کو یاد دلانے اور انسان کو سیدھی راہ پر چلانے کیلئے اللہ پاک نے مختلف زمانوں میں کئی انبیا ئےکرام علیہم السلام بھیجیے۔انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد لوگوں کو آخرت کی طرف دعوت دینا تھا اور اس مقصد کے لیے آسمانی کتا بیں نازل کی گئیں۔ اللہ پاک نے بہت سےنبیوں پر صحیفے اور آسمانی کتابیں اتاریں۔ اُن میں سے چار کتابیں بہت مشہور ہیں۔

(1) توریت:حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر نازل ہوئی۔(2)زبور:حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔(3) انجیل: حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔(4)قرآنِ کریم:جو کہ سب سے افضل کتاب ہے سب سے افضل رسول،خاتم النبیین، ہمارے پیارے نبی، حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل ہوئی۔

سب آسمانی کتابیں حق ہیں:الله پاک نے جتنے صحیفے اور کتابیں نازل فرمائی ہیں سب برحق ہیں اور سب اللہ پاک کی طرف سے ہیں۔کسی ایک کتاب کا انکار بھی کفر ہے۔ان میں جو کچھ ارشاد ہوا سب پر ایمان لانا اور انہیں سچ ماننا ضروری ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگلی کتابوں کی حفاظت الله پاک نے امت کے سپردکی تھی، ان سے اُس کا تحفظ نہ ہو سکا بلکہ ان کے شر یر لوگوں نے یہ کیا کہ ان میں تحریفیں (تبدیلیاں) کیں یعنی اپنی خواہش کے مطابق گھٹا بڑھا دیا، لہٰذا جب کوئی بات ان کتابوں کی ہمارے سامنے پیش ہو تو اگر وہ ہماری کتاب کے مطابق ہے تو ہمیں اس کی تصدیق کرنی ہے اور اگر مخالف ہے تو یقین جانیں گے کہ یہ ان کی تحر یفات میں سے ہے۔ اور اگر موافقت مخالفت کچھ معلوم نہیں تو حکم ہے کہ ہم اس بات کی نہ تصدیق کریں نہ تکذیب بلکہ یوں کہیں کہ: اٰمَنْتُ بِا للّٰهِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ یعنی اللہ پاک اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور رسولوں پر میرا ایمان ہے۔

حقوق:

(1)قرآنِ مجید کا مسلمانوں پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اسے سمجھیں اور اس میں غور و فکر کریں چنانچہ ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲) (پ 12،یوسف: 2 )ترجمہ کنز العرفان: بے شک ہم نے اس قرآن کو عربی نازل فرمایا تاکہ تم سمجھو۔اس آیتِ مبار کہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان قرآنِ مجیدکو سمجھیں اور اس میں غور و فکر کریں اور اسے سمجھنے کے لئے عربی زبان پر عبور و مہارت ہونا ضروری ہے۔ جنہیں عربی زبان پر عبور حاصل نہیں تو انہیں چاہیے کہ اہلِ حق مستند علما کے تراجم اور ان کی تفاسیر کا مطالعہ فرمائیں۔ تاکہ وہ قرآن کو سمجھ سکیں۔

(2)کتاب الله کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کو اچھے انداز سے پڑھنا آنا چاہیے اس کو صحیح طرح پڑھنے کے بہت سے فضائل ہیں جن میں سے ایک ملاحظہ فرمائیے۔

حدیث:حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:تم سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے۔(بخاری،3/410، حدیث:5027)

(3)قرآن کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اس کو دلی اطمینان اور چاہت سے پڑھا جائے۔اس کے متعلق فرمانِ نبی پڑھیے۔

حدیث: حضرت جندب بن عبد الله رضی الله عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:قرآن کو اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل کو الفت اور لگاؤ ہو اور جب دل اچاٹ ہو جائے تو کھڑے ہو جاؤ یعنی تلاوت بند کردو۔ (بخاری،3/419،حدیث:5061)

(4)پہلی آسمانی کتابیں صرف انبیا کو حفظ ہوا کرتی تھیں۔ یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ یہ کتاب اللہ بچے بچے کو یاد ہو جاتی ہے۔اس لیے اس کے حقوق میں سے ہے کہ اس کو یاد رکھا جائے اور ہمیشہ یاد رکھا جائے۔اس کے متعلق حافظِ قرآن کو حکم ہوگا کہ پڑھتے رہو اور (درجات) چڑھتے جاؤ اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسے تم اسے دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑ ھتے تھے کہ تمہار ا مقام اس آخری آیت کے نزدیک ہے جسے تم پڑھو گے۔ (ترمذی،4/419، حدیث:2923) اس حدیثِ پاک کا حاصل یہ ہے کہ ہر آیت پر ایک ایک درجہ اس کا جنت میں بلند ہوتا جائے گا اور جس کے پاس جس قد ر آیتیں ہوں گی اسی قدر در جے اسے ملیں گے۔سبحان اللہ

آداب: اس کتابِ الٰہی کو پڑھنے کے بہت سے آداب ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:(1)قرآنِ مجید کو اچھی آواز سے پڑھنا چاہیے اور اگر اچھی آواز نہ ہو تو اچھی آواز بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔(2) مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے پڑھیں یہ حرام ہے۔اگر چند لوگ پڑھتےہوں تو حکم ہے کہ آہستہ پڑھا جائے۔ (3) جو شخص غلط پڑھتا ہو تو سننے والے پر واجب ہے کہ بتادے بشرطیکہ بتانے کی وجہ سے کینہ و حسد پیدا نہ ہو۔

دعا: الله پاک سے دعا ہے کہ اس کی آسمانی کتاب کے حقوق بجالانے اور ان کے آداب کے ساتھ اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العلمین ﷺ


قرآنِ کریم اللہ پاک  کا بے مثل کلام ہے۔قرآنِ مجید نازل ہونے کی ابتدا رمضان کے بابرکت مہینے میں ہوئی جبکہ مکمل نزول پیارے آقا ﷺ کے ظاہری وصال سے قبل تقریبا 23 سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا حالات و واقعات کے حساب سے ہوا۔ الله پاک نے اپنا یہ کلام رسولوں کے سردار،دو عالم کے تاجدار،حبیبِ بے مثال ﷺ پر نازل فرمایا تاکہ اس کے ذریعے آپ ﷺ لوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے اور دینِ حق کی پیروی کرنے کی طرف بلائیں اور شرک و کفر و نافرمانی کے انجام سے ڈرائیں، لوگوں کو کفر و شرک اور گناہوں کے تاریک راستوں سے نکال کر ایمان اور اسلام کے روشن اور مستقیم راستے کی طرف ہدایت دیں اور ان کے لیے دنیاو آخرت میں فلاح و کامرانی کی راہیں آسان فرمائیں۔قرآنِ مجید کو دنیا کی فصیح ترین زبان یعنی عربی میں نازل کیا گیا تا کہ لوگ اسے سمجھ سکیں۔ کتاب الله مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت، بشارت،

نصیحت اور شفا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ۠(۸۹) (النحل:89) ترجمہ کنز العرفان: اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔

کتاب الله کےبہت سے حقوق ہیں۔جن کا ذکر قرآن و حدیث میں جابجا موجود ہے:

(1)قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے والے کو خیال رکھنا چاہئے کہ آہستہ پڑھے اور اس کے معانی میں غور وفکر کرے،تلاوت ِقرآن کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے۔چنانچہ ارشاد ِباری ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) 29،المزمل:4) ترجمہ:اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

امیرالمومنین حضرت علی المرتضی، شیرِ خدا کرم اللہ وجہہ الکریم سے پوچھا گیا کہ ترتیل کے کیا معنی ہیں ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا:”تَجْوِیدُ الْحُرُوفِ وَمَعْرِفَۃُ الْوُقُوْفِ“ترتیل حروف کو عمدگی سے(مخارج اور صفات کے ساتھ ) ادا کرنا اور وقف کی جگہوں کو پہچاننے کا نام ہے۔

(2) قرآنِ پاک کو خوش آوازی سے پڑھنا: جہاں تک ممکن ہو قرآنِ پاک کو خوش الحانی (اچھی آواز) کے ساتھ پڑھیں۔ سیدالمرسلین، شفیع المذنین، رحمۃ للعالمین ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:زَیِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُم ترجمہ: قرآن کو اپنی آوازوں سےزینت دو۔(بخاری،4/592)

(3) تعظیم ِقرآن:قرآنِ عظیم کا حق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے،اس سے محبت کی جائے، اس کی تلاوت کی جائے،اسے سمجھا جائے،اس پر ایمان رکھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے اور قرآن عظیم کی اس طرح تلاوت کریں جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے، باوضو ہوکر، قبلہ رو ہو کر، مؤدب ہو کر اور عجز وانکساری کے ساتھ بیٹھے۔

حضرت عبیدہ مُلیکی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے قرآن والو! قرآن کو تکیہ نہ بناؤ یعنی سستی اور غفلت نہ برتو اور دن اور رات میں اس کی تلاوت کرو جیسا تلاوت کرنے کا حق ہے اور اس کو پھیلاؤ اور تغنی کرو یعنی اچھی آواز سےپڑھو یا اس کا معاوضہ نہ لو اور جو کچھ اس میں ہے اس پر غور کرو تا کہ تمہیں فلاح ملے، اس کے ثواب میں جلدی نہ کرو کیونکہ اس کا ثواب بہت بڑا ہے۔ (شعب الایمان، 2/350 -351، حدیث:2007-2009)

(4) وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) الاعراف:204) ترجمہ کنز الایمان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔

علامہ عبدالله بن احمد نسفی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں:اس آیت سے ثابت ہوا کہ جس وقت قرآنِ کریم پڑھا جائے خواہ نماز میں یا خارجِ نماز اُس وقت سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔ (مدارك، الاعراف، تحت الآیہ: 204، ص 401)اس آیت میں قرآن کی عظمت و شان کا تقاضا بیان کیا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔

(5) قرآنِ مجید کی پیروی:قرآنِ عظیم کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس میں موجود احکام کی پیروی کی جائے اور ہر حکم پر پوری کوشش کر کے عمل کیا جائے چنانچہ ارشاد باری ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔

اس آیت میں موجود لفظ فَاتَّبِعُوْهُ: (تو تم اس کی پیروی کرو) کی تفسیر تفسیر صراط الجنان میں کچھ یوں ہے: یعنی قرآنِ کریم میں مذکورہ احکامات پر عمل کرو، ممنوعات سے باز آجاؤ اور اس کی مخالفت کرنے سے بچو تا کہ اس کی اتباع اور عمل کی برکت سے تم پر رحم کیا جائے۔(تفسیرصراط الجنان، 3/ 247 )

افسوس! آج کا مسلمان اس فانی دنیا میں اپنی دنیوی ترقی و خوشحالی کے لئے نت نئے علوم و فنون سیکھنے، سکھانے میں ہر وقت مصروف عمل نظر آتا ہے جبکہ رب کریم کے نازل کردہ قرآنِ پاک کو پڑھنے، سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی اور غفلت کا شکار ہے حالانکہ اس کی تعلیم کی اہمیت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے!

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ (غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، 1/364)

آپ نے قراءت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگا لیا ہوگا۔ اس لیے ہمیں ہر وقت درست قرآن پڑھنے اور سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وہ مسلمان بڑا بد نصیب ہے جو درست قرآن شریف پڑھنا نہیں سیکھتا۔

یہی ہے آرزو تعلیم ِقرآن عام ہو جائے تلاوت شوق سے کرنا ہمارا کام ہو جائے


اللہ پاک نے اپنی مقدس کتاب کی ابتدا میں ہی ارشاد فرمایا: لَا رَیْبَ ﶈ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲) (پ 1، البقرۃ: 2) ترجمہ کنز الایمان: کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو۔ اس کلام میں کوئی شک نہیں اور یہ حق اور سچ ہے اور فرمایا: یہ متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ِکریم کی تلاوت ہمارے لیے کتنی اہمیت اور فضیلت رکھتی ہے جیسے حقوق اللہ ہے حقوق العباد ہے اس طرح کتاب الله کے حقوق بھی ہیں۔علمائے کرام نے قرآنِ کریم کے حقوق ذکر فرمائے ہیں۔قرآنِ کریم اور حدیثِ مبارکہ میں بھی ان کا ذ کر موجود ہے۔

قرآنِ کریم پر ایمان لانا:قرآن کریم کا پہلا حق ہے اس پر ایمان لانا۔ یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائیں ان سب پر ایمان لانا ایک مسلمان پر لازم ہے۔ اللہ پاک کی نازل کردہ کسی ایک بھی کتاب کا انکار کرنا کفر ہے۔

قرآنِ کریم کی محبت و تعظیم:قرآنِ پاک کا دوسرا حق ہے اس سے محبت کرنا اور دل سے اس کی تعظیم کرنا۔ الحمد لله قرآن سے محبت کرنا سنتِ مصطفیٰ ہے۔ ہمارے پیارے آقاﷺقرآن ِکریم سے بہت محبت فرماتے تھے۔ ایک روز حضور ﷺنے حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ کو فرمایا: عبدالله ! مجھے قرآن سناؤ!حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول الله ﷺ میں سناؤں؟حالانکہ قرآن آپ پر نازل ہوا ہے!فرمایا: ہاں۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سور ۃ النساء کی تلاوت کی، حضور ﷺ قرآن سنتے رہے اور آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔(بخاری،ص 1138، حدیث: 4582)

قرآن پر عمل کرنا: قرآنِ پاک کا تیسراحق ہے یعنی قرآن ِپاک کے بیان کرده آداب زندگی اپنا نا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔ پارہ 8 سوره انعام آیت: 155 میں اللہ پاک ارشادفر ماتا ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ ترجمہ کنز الایمان: اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو۔ معلوم ہوا ! قرآنِ پاک کا اہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا، اس کی اتباع کرنا، اس کے بتائے ہوئے انداز پر زندگی گزارنا ہے۔ بے شک اسے دیکھنا، چھونا، اس کی تلاوت کرنا عبادات ہیں۔

اس کی تلاوت کرنا: قر آنِ پاک کا چو تھا حق ہے اس کی تلاوت کرنا۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے کہ ہم لوگ تلاوت نہیں کرتے۔ کتنے حفاظ ایسے ہیں جو صرف رمضان ہی میں قرآن ِکریم کھول کر دیکھتے ہیں۔ ہمیں صبح و شام دن رات تلاوت ِقرآن کی ترغیب دی گئی ہے۔ تلاوتِ قرآن افضل عبادت ہے۔(کنز العمال،1/257، حدیث:2261)

قرآنِ کریم سمجھنا اور اس کی تبلیغ کرنا:قرآنِ پاک کا پانچواں حق ہے قرآن ِکریم کو سمجھنا اور سمجھ کر دوسروں تک پہنچا نا۔ حضور ﷺنے قرآنِ پاک کے بے شمار اوصاف بیان فرمائے ہیں اُن میں ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ قرآنِ کریم دلیل ہے یہ یا تو تمہارے حق میں دلیل بنے گایا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔

علامہ قرطبی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص قرآن سیکھے مگر اس سے غفلت کرے قرآن اس کے خلاف دلیل ہوگا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے خلاف دلیل ہو گا جو قرآنِ کریم کے حق میں کمی کرے اور اس سے جاہل رہے۔ (تفسیر قرطبی، 1/ 19 )

اے عاشقانِ رسول!قرآنِ کریم کے حقوق پر عمل کرنے کے لیے بآسانی سمجھنے کے لیے بہت سے ذریعے ہیں ان میں سے ایک ذریعہ تفسیر صراط الجنان بھی ہے۔اس کا مطالعہ کرنے سے ہمیں معلوم ہو گا کہ اللہ کیا فرما رہا ہے۔ قرآن پر عمل کر نے سےآسانی ہو گی۔ جب ہم اس کو سمجھ کر پڑھیں گے تو اللہ پاک نے چاہا تو دین و دنیا کی بے شمار برکتیں ملیں گی۔ الله پاک ہمیں قر آنِ کریم پڑھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ (آمین )


یوں تو دنیا میں کئی کتابیں مو جود ہیں مگر قرآنِ پاک  جوکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کے قلبِ انور پر نازل ہوا۔اس کی شان سب سے زیادہ ہے۔یہ ایک ایسا چمکتا آفتا ب ہے جس سے دنیا کا ذرہ ذرہ اپنی استطاعت کے

مطابق فیض پاتا اور خود کوچمکاتا ہے۔ قرآن ِ پاک ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔اس کے کامل واکمل ہونےاور

حق اورسچ ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میرے رب کا کلام ہے۔قرآنِ پاک میں ارشادِ ربانی ہے، ترجمہ: وہ بلند مرتبہ کتاب (قرآن)کوئی شک کی جگہ نہیں ہدایت ہے ڈرنے والوں کو۔

آج دنیا میں کئی جنگیں لڑی جارہی ہیں۔ کہیں خواتین کے حقوق کی بات ہورہی ہے تو کہیں جانوروں کے حقوق کی لیکن آج ایک مسلمان کو یہ نہیں معلوم کہ اس پر قرآنِ مجید کے کتنے حقوق ہیں!آئیے! قرآنِ پاک کے حقوق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں قر آنِ پاک کےپانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

ایمان و تعظیم:قرآنِ پاک کا ہم سب پر پہلا حق یہ ہے کہ ہم اس پر ایمان لائیں اور تعظیم کریں۔

تلاوت: قرآنِ پاک کا دوسرا حق اس کی تلاوت ہے۔ قراءت کا لفظ ہر کتاب کے لئے بولا جاتا ہے مگر تلاوت کا لفظ صرف قرآنِ پاک کے لیے مخصو ص ہے۔ جسم کی طرح روح کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی سب سے بہترین غذا تلاوتِ قرآن ہے۔پیارے آقاﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:بے شک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگ جاتا ہے۔ عرض کیا گیا:اللہ کے رسول ﷺاس کی صفائی کس طرح ہوگی؟فرمایا:ہر وقت موت کا دھیان اور قرآنِ کریم کی کثرت سے تلاوت کرنے سے۔

تجوید و قواعد کا لحاظ ر کھتے ہوتے درست مخارج کی ادائیگی اور خوش الحانی کے ساتھ روزانہ تلاوت کرنا آدابِ تلاوت میں سے ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے: ترجمہ: اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:قرآن کو اپنی آواز سے مزین کرکے پڑھو۔(ابوداود،1/548)

تذ کرو تدبر: تذکر و تدبر میں دو چیزیں ہیں:(1)تذکر بالقرآن یہ ہے کہ قرآن سے نصیحت حاصل کرنا (2)تدبر بالقرآن یہ ہے کہ قرآن میں غور و خوض کیا جائے۔ قرآن وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا کسی کو اندازہ نہیں ہو سکا۔ قرآنِ پاک اس قدر جامع کتاب ہے کہ اس میں ہر قسم کے مضامین موجود ہیں۔ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآنِ پاک ہے۔اس پاک کتاب کی تفسیر میں اب تک لاتعداد کتا بیں لکھی جاچکی ہیں۔مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں غور و فکر کرنےوالے ایک نئی بات کا انکشاف کرتے ہیں۔ اپنے ہوں یا غیر،تاریخ دان ہوں یاسائنس دان،مفسرین ہوں یا فلاسفر سب نے اپنی محدود عقلوں کے مطابق اس پاک کلام میں غور و فکر کر کے اسے سمجھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے:ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا ہے۔ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا۔ (پ 27، القمر:17)

احکام پر عمل:قرآنِ کریم کا چو تھا حق یہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔قرآنِ پاک محض ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر دکان،مکان میں برکت کے لئے رکھنے کے لئے نہیں،نہ ہی مردے بخشوانے کے لئے اور نہ ہی اس کا مقصد عدالت میں گواہی دیتے وقت اس پر ہاتھ رکھنا ہے بلکہ قرآنِ پاک تو هُدًى لِّلنَّاسِ ہے۔ اس کے نازل کرنے کا مقصد ہی اس سے ہدایت حاصل کرنا ہے اور اسے اپنی زندگیوں پر نافذ کرنا ہے۔ جو قرآنِ پاک پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس پر عمل کریں۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:اور یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔(الانعام:155)اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ امت پر قرآنِ پاک کا ایک حق یہ ہے کہ اس مبارک کتاب کی پیروی کریں اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنے سے بچیں۔

تبلیغ وتبین:قرآنِ پاک کا پانچواں حق یہ ہے کہ اس کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔حدیثِ نبوی میں ہے:بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ اٰیَۃ(ترمذی،4/337)اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کی ذمہ داری سے کوئی بھی بری نہیں اگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:تم میں سےبہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (بخاری،3/410)

مگر بدقسمتی سے آج حال یہ ہے کہ قرآنِ پاک کو خوبصورت جزدانوں میں سجاکر رکھ دیا جاتا ہے۔جن لوگوں نے اس کی تعلیم کو عام کرنا تھا وہ خود محتاج ہیں کہ ان تک قرآن کی تعلیمات پہنچائی جائیں۔بقول اقبال:

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر اور تم رسوا ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

ایک اور جگہ فارسی کے شعر میں کہتے ہیں:ترجمہ:ہم قرآن کو چھوڑ کر خوارہو رہے ہیں اور شکوہ زمانے کا کر رہے ہیں۔اےوہ شخص! جوشبنم کی طرح زمیں پر گراپڑاہے۔تیری بغل میں زندہ کتاب ہے۔

آج کے اس پرفتن دور میں دعوت ِاسلامی نےتعلیمِ قرآن کو عام کرنے اور درست طریقے سے قرآن پڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔قرآنِ پاک وہ مبارک کتاب ہے جس کا ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ رحمتِ الٰہی کا نزول اورباعث راحت قلب ہےمگر اس کو جو درست طریقے سے پڑھے گا یہ سب فائدے بھی وہی حاصل کر سکے گاورنہ غلط قرآن پاک پڑھنے سے بندہ گناہ کبیرہ کامرتکب ہو جاتا ہے بلکہ معاذ الله کفر تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ درست انداز میں قرآِن پاک سیکھا جائے اوراس کے لئےدعوتِ اسلامی نے الگ الگ مدارس المدینہ قائم کئے ہیں جہاں نا صرف بچوں اور بچیوں بلکہ بڑی عمر کی اسلامی بہنوں اور بھائیوں کے لیے بھی خاص اہتمام کیا گیا ہے۔اسی کے ساتھ قرآن کوسمجھنے کے لیے عام فہم اورآسان تفسیر ”تفسیر صراط الجنان“ مفتی قاسم صاحب نے تحریر فرمائی ہے۔یہ کتابی صورت میں موجود ہے اور موبائل ایپلیکیشن کی صورت میں بھی۔اللہ پاک سے دعاہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین


(1) کتاب الله پر ایمان لانا (2) کتاب اللہ کو پڑھنا (3) کتاب الله کو سمجھنا (4) کتاب الله کے احکام کے مطابق اپنی زندگی گزارنا (5) کتاب اللہ کو دوسروں تک پہنچا نا۔

کتاب الله کی اہمیت:کتاب الله روحانی اور جسمانی دونوں قسموں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور خود جناب نبی کریم ﷺنے مشکلات، بیماریوں اور آفات میں کتاب الله کے ذریعےعلاج کی تلقین فرمائی ہے۔ کتاب الله کے سامنے کوئی باطل نہیں ٹھہر سکتا۔ ظالموں کی طاقت، جابروں کی تدبیریں اور دشمنوں کی سازشیں کتاب الله کے سامنے بلبلے سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔ کتاب اللہ کا نور بد خواہوں کی آنکھوں کو بے نور کر دیتا ہے۔ ہم نے کتاب اللہ کے سامنے بارہا طاقتوردشمنوں کو خائب و خاسر ہوتے دیکھا۔ افریقہ کا کالا جادوکتاب اللہ کی آیت کے سامنے ہم نے خود ٹوٹتے، بکھرتے اوربھاگتے دیکھا۔ ہندوستان کے جوگی، پنڈت اور سادھو اس کلام کے سامنے بے بس ہو گئے اور برہمن پکار اُٹھے کہ یہ بہت اعلیٰ کلام ہے ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مگر آج کئی مسلمان کتاب الله کو چھوڑ کر نا پاک سفلی علوم کا سہارا لیتے ہیں۔کتاب اللہ اپنی پوری قوت، شفا، شان اور تاثیر کے ساتھ موجود ہے۔ مگر مسلمان جاہل اور لالچی عاملوں کے درپر اپنا ایمان،عقیدہ اور مال تباہ کر رہے ہیں۔

آؤ مسلمانو!کتاب الله کی طرف لوٹ آؤ۔ یہ سچی، پختہ اور مضبوط کتاب ہم سب کے لیے رحمت بھی ہے اور شفا بھی۔ دیکھورب کریم خود فرمارہا ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ- (پ 15، بنی اسرائیل: 82) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ امت کے اہلِ علم میں شفاء بالقر آن کا ہمیشہ معمول رہا ہے۔اس کی برکت اور افادیت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا۔

قرآن کو درست پڑھنے کی ترغیب اور غلط پڑھنے کا وبال:ایسے بہت سارے الفاظ ہیں کہ جس میں معنی بدل جاتے ہیں، جیسے کہ ہم قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱) پڑھتے ہیں اور بعض لوگ اَحَدکو اَھَدپڑھتے ہیں۔اَحَدٌاوراَھَدٌ میں بڑا فرق ہے۔ اب یہ تو اللہ کی شان ہے:اللّٰهُ اَحَدٌ (اللہ اکیلا ہے ) اور اَھَدکے معنی بنتے ہیں:بزدل، کمزور۔ تو اگر معنی جانتے ہوئے کوئی اَھَدپڑھے گاتو اسلام سے ہی گیا اور وہ کافر ہو گیا، کیونکہ وہ معنی بالکل چینج ہیں الٹ ہیں اور بالکل فاسد معنی ہیں۔ اِسی طرح ہمارےہاں الحمد للّٰه کیساحال ہے اگر جلدی میں کہہ دیا الھمدللّٰه تو معنی بالکل تباہ ہو گئے۔ الحمدللہ خوبی، شکر کے معنی میں بھی آتا ہے اور الحمد لله تمام خوبیاں الله کے لیے ہیں۔ اب جلدی میں جب ہم ہمد پڑھتے ہیں خصوصاً میمن برادری، گجراتی برادری وہ ھمد پڑھتے ہیں ان کا ح نہیں نکلتا۔احد کو بھی معاذ الله اھد پڑھتے ہیں اور الحمد کو بھی الھمد پڑھتے ہیں تو حمد کے معنی ہیں خوبی جبکہ ھمد معنی دیھمی آگ بالکل معنی تباہ ہو گئے۔ اب جیسا کہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱) قُلْ کے معنی کہہ دیں بعض پڑھتے بھی گجراتی لوگ ہیں وہ قُلْ کی جگہ کُلْ پڑھتے ہیں اور لکھتے بھی کُلْ ہی ہیں۔ کُلْتو اب غلط ہو گیا۔ قُلْ کے معنی کہہ دیں اور کُلْ کے معنی کھالو یہ عربی لفظ ہے کل یعنی کھا کُلوا کھاؤ واشربواپیو،قالوا یعنی انہوں نے کہا۔ اورکالواانہوں نے ناپا۔ علیم یعنی جاننے والا یہ اللہ کی صفت ہے اور اگر بولیں گے الیم الف سے تو اس کے معنی دردناک، یہ لفظ عذاب کے ساتھ آتا ہےعَذَابٌ اَلِيْمٌ کتنا فرق پڑ جاتا ہے علیم اور الیم میں (اللہ پاک ہمیں درست مخارج کے ساتھ قرآن پڑھنے کی توفیق عطافرمائے۔

احادیث کی روشنی میں تلاوتِ قرآن کے فضائل:

فرمانِ مصطفیٰ ﷺہے:قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گا۔ (مسلم)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص قرآن شریف پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی) کو ( احتراماً) بوسہ دیتا ہے۔

رسول اللهﷺ نے ارشاد فرمایا:قرآن پڑھو کیونکہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والے کا سفارشی بن کر آئے گا۔(صحیح مسلم)

رسول اللهﷺنے ارشاد فرمایا:قرآنِ کریم کی تلاوت اور الله پاک کے ذکر کا اہتمام کیا کرو۔ اس عمل سے آسمانوں میں تمہارا ذکر ہو گا اور یہ عمل زمین میں تمہارے لیے ہدایت کا نور ہوگا۔(بیہقی)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرنے والا علانیہ صدقہ کرنے والےکی طرح ہے اور پوشیدہ آواز میں تلاوت کرنے والا مخفی انداز میں صدقہ کرنے والے کی طرح ہے۔

قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنا:رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کا عادی ہوتا ہے، اللہ پاک اس کو اس کی آنکھوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے جب تک وہ دنیا میں رہے (یعنی اس کی آنکھوں کی بینائی موت تک باقی رہتی ہے۔)

تلاوت قرآن کا اجر و ثواب: حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے تو اس کے لیے ہر حرف کے عوض ایک نیکی ہے۔(اور یہ ایک نیکی ا لله پاک کے قانون کرم کے مطابق دس نیکیوں کے برابر ہے۔ یعنی قرآن کےہر حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں۔مزید وضاحت کے لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے (بلکہ )الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے۔( اس طرح الم پڑھنے والا بندہ تیس نیکیوں کے برابر ثواب حاصل کرنے کا مستحق ہوگا۔(ترمذی،دارمی)

کتاب اللہ پر ایمان لانا: الله پاک کی کتاب پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام احکام اور سب تقاضوں پر عمل کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زبان سے قرآن مجید پر ایمان لانے کا جو دعوی کر رہا ہے، کیا اس کی عملی حالت اس دعوے کی تصدیق کر رہی ہے یا نہیں؟ (صراط الجنان،1/172)

کتاب الله کو پڑھنا اور دوسروں تک پہنچانا،عمل میں لانا:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللهﷺ سے سنا ہے: عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب کہ فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول الله پھر اُن فتنوں سے نکلنے کا کیا ذریعہ ہے ؟ رسول اللهﷺ نے فرمایا: کتاب اللہ کیونکہ اس میں تم سے قبل کے حالات اور تم سے بعد کی خبریں اور تمہارے مابین معاملات ( موجودہ امور) کا حکم ہے اور وہ قول فیصل ہے کہ کوئی ہزل (یعنی ظرافت، ہنسی مذاق) نہیں۔ جو جبار شخص اسے چھوڑ دے گا اللہ پاک اس کو ختم کر دے گا اور جو شخص قرآن کے سواکسی اور کتاب میں ہدایت کو تلاش کرے گا اللہ پاک اس کوگمراہ کردے گا۔ قرآن ہی ایسی چیز ہے کہ اس کو نفسانی خواہشات لغزش میں نہیں لا سکتیں۔ زبانیں اس کے ساتھ ملتبس نہیں ہو سکتیں۔ علما اس کے علم سے مستغنی نہیں ہوتے اور وہ باوجود کثرت سےتلاوت کرنے، بار بار پڑھے جانے کے پرانا نہیں ہوتا اور اس کے عجائبات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ اس کے مطابق کہنے والا سچا اور اس پر عمل کرنے والا مستحق اجرہوتا ہے اور اس کے موافق حکم دینے والا عادل ہوتا ہے اور اس کی جانب دعوت دینے والا راہ راست کی طرف ہدایت پاتا ہے۔خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔(بخاری،3 / 410)

کتاب اللہ کو سمجھنا: قرآن پاک کا اصل مزہ تو تب ہے جب قرآن پاک کو ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھا جائے۔ارشادِ باری ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) الاعراف:204) ترجمہ کنز الایمان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔

جب تم کسی چیزکو چھوڑ دیتے ہو تو وہ مرجھاجاتی ہے

لیکن جب تم قرآن کو چھوڑتے ہو تو تم مرجھا جاتے ہو


قرآنِ کریم وہ کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کی سردارہے۔جس طرح اس کا مر تبہ بلند و بالا ہے اسی طرح کلام اللہ یعنی قرآنِ کریم کے کچھ حقوق بھی ہیں جن کا ادا کرنا ہمارے ذمے لازم ہے، وہ حقوق یہ ہیں؛ قرآن کی تلاوت کرنا، قرآن کو سمجھنا، قرآن پر عمل کرنا، قرآن کو دوسروں تک پہنچانا  اور قرآنِ کریم پر ایمان لانا۔

1-سورۂ واقعہ میں اللہ پاک نے فرمایا: لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) (پ 27، الواقعہ: 79)ترجمہ كنز العرفان: اسے نہ چھوئے مگر باوضو۔

تفسیر صراط الجنان:آیت ِمبارکہ سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کو وہ ہاتھ لگائے جو باوضو ہو اور اس پر غسل فرض نہ ہو۔

نوٹ:قرآنِ کریم کو چھونے کیلئے وضو کرنا فرض ہے۔

2-سورہ ٔاعراف آیت نمبر 204 میں اللہ پاک نے فرمایا: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) ترجمہ كنز العرفان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔

تفسیر صراط الجنان:اس کی عظمت و شان کا تقاضہ یہ ہے کہ جب قرآنِ کریم پڑھا جائے تو غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔

3-سورہ ٔنحل آیت نمبر 98 میں اللہ پاک نے فرمایا: فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(۹۸)ترجمہ کنز الایمان:تو جب تم قرآن پڑ ھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے۔

تفسیر صراط الجنان:یعنی قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کرتے وقت اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم پڑھو۔یہ پڑھنا مستحب ہے۔

4-سورۂ مزمل آیت نمبر04 میں اللہ پاک نے فرمایا: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجمہ کنز الایمان: اور قرآن خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو۔

تفسیر صراط الجنان:اس کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قرآن پڑھو کہ حروف جدا جدا رہیں، جن مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات (اور مدات )کی ادائیگی کا خاص خیال رکھا جائے۔

5-سورهٔ قيامہ آیت نمبر16 میں اللہ پاک نے فرمایا: لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ(۱۶)ترجمہ کنز الایمان:تم یاد کرنے کی جلدی میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔

شان نزول:جب حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس وحی لےکر آئے تو حضور اقدس ﷺ حضرت جبریل علیہ السلام کے(پڑھنے کے )ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں کی حرکت دیا کرتے تھے، اس سے آپ ﷺ کو تکلیف ہوتی تھی۔ تو اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی یہ مشقت گوارا نہ فرمائی اور سورۂ قیامہ میں یہ آیت ِمبارکہ نازل فرمائی۔

ترغیب:جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ پاک اُسے اپنے وفادار بندوں میں شمار کرے اور اُسے اپنی ابدی رحمتوں میں حصے دار بنائے تو اس کیلئے لازم ہے کہ قرآنِ کریم کو جس طرح پڑھنے کا حق ہے اس کو اسی انداز سے پڑھا جائے۔ اگر ہم قرآنِ کریم کو درست انداز میں پڑھنے میں کامیاب ہوگئے تو ہماری دنیا و آخرت سنور جائیں گی۔

قرآنِ کریم کو غلط پڑھنے کا و بال: مراٰ ۃ المناجیح جلد 03، حدیث:2135 میں ہے:رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ اس قرآن کے ذریعے کچھ قوموں کو سر بلند کرےگا اور کچھ کو گرا دےگا۔

شرح: گرادے گا سے مراد جو اس سے غافل رہیں یا غلط طرح سمجھیں۔ غلط طور پر عمل کریں وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں جن پر قرآن خود لعنت کرتا ہے۔

آباد وہی ہے دل کہ جس میں تمہاری یاد ہے جو یاد سے غافل ہوا ویران ہے برباد ہے

البتہ قرآن کو سمجھ کر، درست انداز میں پڑھنا چاہیے تاکہ جو احکام الله پاک نے بیان فرمائے ہیں وہ بآسانی سمجھ سکیں۔ اس کیلئے اس دور کی عظیم الشان، مقبول عام تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ فرمائیں۔ اللہ پاک ہمیں قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین ﷺ


قرآنِ پاک الله پاک کی  وہ آخری اور واحد مکمل کتاب ہے جسے اللہ پاک نے پیارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمایا۔ یہ وہ مقدس کتاب ہے جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھےراستے کی طرف رہنمائی فرمائی اور بے شمار منکرین ِخدا اور رسول اسی کلام ِمجید کی بدولت اسلام قبول کر کے کائنات کے عظیم رہنما بن گئے۔ یہی وہ کتاب ہے جس کے کروڑوں انسان حفاظ ہیں۔قرآنی آیتوں پر عمل کرنا دونوں جہاں میں سعادت مندی و کامیابی کا ذریعہ ہے۔اس آسمانی کتاب کو دیکھنا، چھونا، پڑھنا سب عبادت ہے۔

قرآن ِپاک کی فضیلت:احادیثِ مبارکہ میں قرآنِ پاک کی بے شمار فضیلتیں ہیں۔ جیسا کہ نبی پاکﷺ نے فرمایا:1- تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (بخاری، 3/410)

2-افضل عبادت قرآنِ پاک کی تلاوت ہے۔(بخاری،حدیث:1)

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جب بندہ قرآن پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیتا ہے۔

حضرت علی المر تضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:تین چیزیں قوتِ حافظہ میں اضافہ کرتی اور بلغم کو ختم کرتی ہیں:

1-مسواک کرنا۔2- روزے رکھنا۔3- قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا۔

قرآنِ پاک کی ضرورت:دیکھا آپ نے قرآن ِپاک پڑھنے کی کتنی پیاری پیاری فضیلتیں ہیں۔ قرآن کریم تمام عالمین کے لئے شفا اور حمت اور ہدایت و نور ہے۔ جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم قرآن میں اتار تے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لئے شفا اور رحمت ہے۔ (پ 15، بنی اسرائیل:22)

ہر بیماری کی دوا قرآنِ پاک میں موجود ہے۔ قرآنِ پاک ہر مسلمان کے لئے مفید ہے۔ قرآنِ پاک دل، بدن اور روح سب کے لئے دوا ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے: 1-ایک شخص نبی پاک ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ مجھے حلق میں درد ہے تو آپ نے فرمایا:قرآن پڑھنا اختیار کرو۔(شعب الایمان، 2/519،حدیث:2580)

2- بہترین دوا قرآنِ پاک ہے۔

مختلف قرآنی سورتیں پڑھنے کی فضیلت: قرآنِ پاک میں کچھ آیات مختصر ہیں جو خاص امراض اور مصائب کے خاتمے کے لیے ہیں۔ پورا قرآنِ پاک ہی بیماریوں کیلئے شفا اور مصائب و تکالیف میں مشکل کشا ہے۔ قرآنِ پاک کی ہر سورت کی اپنی فضیلت ہے۔ جن میں سے چند سورتوں کے فضائل درج ذیل ہیں:

سورۃ ملک: ہر رات میں پڑھنے والا عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔ سورۃ واقعہ: جو شخص روزانہ پڑھے گا اس کو کبھی فاقہ نہ ہوگا۔ سورۃ العلق: میں جوڑوں کے درد کا علاج ہے۔ سورۃ العصر:پڑھنے سے غم دور ہو جاتا ہے۔ سورۃ القارعہ: پڑھنے سے بلاؤں سے حفاظت رہتی ہے۔سورۃ الرحمن:گیارہ (11) بار پڑھنے سے ہر مقصد پورا ہوتا ہے۔سورۂ یسٓ: اس کو ایک بار پڑھنے سے دس قرآنِ پاک پڑھنے کا ثواب ملتا ہے۔

قرآنِ مجید کے حقوق:قرآنِ پاک کے بہت سے حقوق ہیں۔ قرآنِ پاک کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے۔ دوسرا اس سےمحبت کی جائے۔ تیسرا اس کی تلاوت کی جائے۔ چو تھا اسے سمجھا جائے۔ پانچواں اس پر ایمان رکھا جائے۔ چھٹا اس پر عمل کیا جائے۔ ساتواں اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔

غلط پڑھنے کاوبال: قرآنِ پاک کے فضائل پربے شمار احادیثِ مبارکہ، قرآنی آیتیں کتب میں موجودہیں مگر یاد رہے کہ یہ فضائل اور اجر و ثواب اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ قرآن ِکریم کو درست تلفظ اورصحیح مخارج کے ساتھ پڑھا جائے کیونکہ غلط طریقے پر پڑھنا بجائے ثواب کے وعید و عذاب کا باعث ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ (غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے۔ (احیاء علوم الدین )

حضرت میسرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فاسق و فاجر شخص کے پیٹ میں قرآن اجنبی ہے۔

آپ نے پڑھا قرآنِ پاک کو پڑھنے کی بے شمار فضیلتیں ہیں اور غلط پڑھنے کی وعیدیں بھی ہیں۔جن سے حروف ادا نہیں ہوتے انہیں چاہیے کہ دن رات کوشش کریں اس طرح ہم حروف صحیح ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ قرآن کو غلط پڑھنے کی وجہ سے ہماری نمازیں بھی برباد ہیں۔ اس لیے ہمیں قرآنِ پاک کو صحیح پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


قرآنِ کریم وحی الٰہی ہے۔ یہ قربِ خداوندی کا ذریعہ ہے۔ رہتی دنیا تک کے لیے نسخۂ کیمیا ہے۔تمام علوم کا سر چشمہ ہے۔یہ ہدایت کا مجموعہ، رحمت کاخزینہ اور برکتوں کا منبع ہے۔ یہ ایسا دستور ہے جس پر عمل پیرا ہو کر  تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ جس سے گمراہی کے تمام اندھیرے دور کئے جا سکتے ہیں۔قرآنِ کریم ایسا راستہ ہے جو سیدھا اللہ پاک کی رضا اور جنت تک لے جا سکتا ہے۔

اہمیت:حضرت اياس بن معاویہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جو لوگ قرآنِ پاک صرف پڑھتے ہیں ان کی مثال ان لوگوں کی طرح ہے جن کے پاس رات کے وقت ان کے بادشاہ کا خط آیا اور ان کے پاس چراغ نہیں جس کی روشنی میں وہ اس خط کو پڑھ سکیں تو ان کے دل ڈر گئے اور انہیں معلوم نہیں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے!اور وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کی تفسیر جانتا ہے اس کی مثال اس قوم کی طرح ہے جن کے پاس قاصد چراغ لے کر آیا تو انہوں نے چراغ کی روشنی سے خط میں لکھا ہوا پڑھ لیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ خط میں کیا لکھا ہے۔ (تفسیر قرطبی)

فوائد و ثواب: قرآنِ پاک پڑھنے کے بے شمار فضائل ہیں:

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ اَلنَّظْرُ فِی الْمُصْحَفِ عِبَادَۃ یعنی قرآنِ پاک کو دیکھنا عبادت ہے۔ (شعب الایمان)

الله پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ- (پ 15، بنی اسرائیل: 82) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم بیماروں کے لیے شفا ہے۔

قرآنِ پاک پر عمل بلندی اور اس سے انحراف تنزلی کا باعث ہے۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک اس کتاب کے سبب کتنی قوموں کو بلندی عطا کرتا ہے اور کتنوں کو پست کرتا ہے۔(مسلم)

قرآنِ کریم کے حقوق:

1 -قرآنِ کریم پر ایمان لانا:قرآنِ مجید کا پہلا حق ہے اس پر ایمان لانا۔ اللہ پاک نے جتنی بھی کتابیں نازل فرمائیں، جتنے صحیفے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل فرمائے ان سب پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لیے لازم ہے۔اللہ پاک کی نازل کردہ کسی ایک کتاب کا انکار کرنا کفر ہے۔ البتہ پچھلی آسمانی کتابوں پر اور قرآن ِکریم پر ایمان لانے میں ایک فرق ہے کہ پچھلی جتنی بھی آسمانی کتابیں اور صحیفے ہیں ان سب پر ایمان لانا اجمالی فرض ہے اورقرآنِ کریم پر تفصیلی ایمان فرض ہے۔ اجمالی ایمان کا مطلب یہ ہے کہ الله پاک نے تورات نازل فرمائی،زبور نازل فرمائی، انجیل نازل فرمائی، اس کے علاوہ جو صحیفے نازل فرمائے وہ سب حق ہیں۔ ہاں!لوگوں نے اپنی خواہش سے ان میں جو اضافے کیے جو تبدیلیاں کیں وہ سب باطل ہیں اور تفصیلی ایمان لازم ہے۔یعنی الحمد سے لے کر والناس کے سین تک قرآن کا ایک ایک جملہ، ایک ایک لفظ، ایک ایک حرف سب حق ہیں۔ اللہ پاک کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔

2- قرآنِ کریم کی محبت وتعظیم:دوسرا حق ہے اس کی دل سے تعظیم کرنا اور محبت کرنا۔الحمد لله !قرآنِ کریم سے محبت کرنا سنتِ مصطفٰے ہے۔پیارے آقا،مکی مدنی مصطفٰے ﷺ قرآنِ کریم سے بہت محبت فرماتے تھے۔

ایک روز آقا کریم ﷺ اپنے گھر مبارک میں تشریف فرما تھے،کوئی شخص بہت خوبصورت آواز میں قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہا تھا۔آپ ﷺاٹھے اور باہر تشریف لے گئے اور دیر تک تلاوت سنتے رے،پھر واپس تشریف لائے اور فرمایا: یہ ابو حذیفہ کا غلام سالم ہے۔تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا فرمایا۔( ابن ماجہ، ص216،حدیث:1338 )

3-قرآنِ کریم پر عمل کرنا: قرآنِ کریم کے بیان کردہ آدابِ زندگی اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔ پارہ 8 سورهٔ انعام آیت 155 میں ہے: وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری کرو کہ تم پر رحم ہو۔معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کا اہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا، اس کی کامل اتباع کرنا اور اس کے بتائے ہوئے انداز پر زندگی گزارنا ہے۔

4-قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا:قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا اس کا چوتھا حق ہے۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے کہ ہم لوگوں میں تلاوت کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ کتنے حفاظ ایسے میں جو صرف رمضان المبارک میں قرآنِ کریم کھول کر دیکھتے ہیں حالانکہ ہمیں دن رات قرآنِ کریم کی تلاوت کی ترغیب دی گئی ہے۔

5- قرآنِ کریم سمجھنا اور اس کی تبلیغ کرنا:قرآنِ کریم کا پانچواں حق ہے اس کو سمجھنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا۔نبی ِکریم ﷺ نے اس کے بے شمار وصف بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ وصف بیان فرمایا ہے: قرآنِ کریم دلیل ہے یا تو یہ تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔

علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو شخص قرآن سیکھے مگر اس میں غفلت کرے تو قرآنِ کریم اس کے خلاف دلیل ہوگا اور اس سے بڑھ کر اس بندے کے لیے دلیل ہوگا جو اس میں کمی کرے اور اس سے جاہل رہے۔ (تفسیر قرطبی،1/19)

سلطان محمود غزنوی او را حترامِ قرآن: سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا:اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟سلطان محمود غزنوی نے فرمایا: ایک مرتبہ میں کہیں مہمان تھا۔ جس کمرے میں مجھے ٹھہرایا گیا وہاں قدموں کی جانب طاق میں قرآنِ کریم رکھا تھا، میں نے سوچا کہ قرآنِ کریم کو باہر بھجوا دوں، پھر خیال آیا کہ میں اپنے آرام کے لیے قرآنِ کریم کو باہر کیوں بھجواؤں؟ یہ سوچ کر میں قرآنِ کریم کی تعظیم میں ساری رات بیٹھا رہا اور اس کی طرف پاؤں نہیں کیے،بس اسی وجہ سے اللہ پاک نے مجھے بخش دیا۔ ( دلیل العارفین، مجلس: 5، ص 50)