عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی جانب سے 9 دسمبر 2022ء بروز جمعہ رکنِ شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے بلدیہ ٹاؤن میں محمد رفیق عطاری کی ہمشیرہ اور فرید عطاری کی زوجہ کے انتقال پر لواحقین سے تعزیت کی۔

رکنِ شوریٰ نے لواحقین کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں عوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے اور ہفتہ وار اجتماعات میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی نیز آخر میں مرحومہ کو ایصالِ ثواب کرتے ہوئے اِ ن کے لئے دعا ئے مغفرت کروائی۔( کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی کے تحت 9 دسمبر 2022ء  بروز جمعہ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد امین عطاری نے بلدیہ ٹاؤن میں محمد ارشد عطاری کے انتقال پر تعزیت و ملاقات کی۔

اس موقع پر رکنِ شوریٰ نے اہلِ خانہ کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کی دعوت دی اور مرحوم کو ایصالِ ثواب کرتے ہوئے ان کے لئےدعائے مغفرت کروائی۔( کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


11 دسمبر ٫2022 بروز اتوار شعبہ عطیات بکس کی پنجاب کے شہر لیہ میں قائم دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ لیہ میں میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں شعبے کی ڈویژن ڈی جی خان کی مینجمنٹ نے شرکت کی۔

میٹنگ کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک و نعتِ رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہوا۔ اس کے بعد صوبائی ذمہ دار محمد زاہد عطاری نے مدنی مشوروں کے مدنی پھول پڑھ کر سنائے اور ذمہ داران کو12 دینی کاموں کے حوالے سے ترغیب دلائی جس میں بالخصوص ایک ماہ کے مدنی قافلوں کے حوالے سے ذہن سازی کی۔اس پر 6 ذمہ داران نے ہاتھوں ہاتھ اپنے آپ کو ایک ماہ کےمدنی قافلے میں سفر کے لئےپیش کیا ۔

آخر میں صوبائی ذمہ دار نے اچھی کارکردگی پر ذمہ داران کو تحائف بھی دیئے۔اس مدنی مشورے میں ڈویژن ڈی جی خان کے نگران محمد اقبال عطاری نے بھی شرکت کی۔ (رپورٹ: محمد شہریار عطاری سوشل میڈیا ڈونیشن بکس پنجاب، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ وہ اپنی تعظیم کے اصول خود بناتے ہیں، اپنے دربار کے آداب خود بناتے اور جب چلے جاتے ہیں تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے، جس کے دربار کا دستور ہی نرالا ہے کہ اس نے اپنی بارگاہ کے ادب و احترام کے اصول و قوانین نہ خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے ہیں۔بلکہ سب سے بڑے شہنشاہ،بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے ربّ کریم نے نازل فرمائے ہیں۔ وہ ہستی عظیم، شہنشاہ، مالک و مختار ہستی محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، جن کی تعظیم و توقیر کرنے کا خود اللہ پاک نے حکم فرمایا۔ چنانچہ

(1)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ9، الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔ حضور ﷺ جب بھی بلائیں، حکم فرمائیں تو فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ۔

(2) اللہ پاک فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبیِ کریم ﷺ کو پکارنے سے منع فرمایا گیا ہے۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1، البقرۃ: 104)ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

آیتِ مبارکہ سے پتا چلا کہ جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو، وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ جیسا کہ لفظِ راعنا کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے۔

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ26، الحجرات:2)ترجمہ کنز العرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔

آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں کچھ عرض کرنا ہو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز اُن کی آواز سے بلند نہ ہو، بلکہ جو بھی عرض کرنا ہو وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

(5) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)(پ26، الحجرات: 4) ترجمہ کنز العرفان: بےشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی جلالتِ شان کو بیان فرمایا گیا کہ سید المرسلین ﷺ کی بارگاہ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اور صحابیاتِ طیبات رضی اللہُ عَنہُنَّ حضورِ اقدس ﷺ کا بےحد ادب و احترام کرتے اور بارگاہِ رسالت کے آداب کا ہمیشہ خیال رکھتے۔

صحابیہ کا ادبِ رسول: بحیرہ بن فراس قشیری نامی شخص نے حضور ﷺ کی اونٹنی کی کوکھ میں نیزہ چبھادیا،وہ اچھلی اور آپ زمین پر تشریف لے آئے۔حضرت ضُباعہ بنتِ عامر رضی اللہُ عنہا یہ سن کر آپے سے باہر ہوگئیں اور اپنے چچا زاد آلِ عامر کے ذریعے اس گستاخی کا بدلہ لیا۔آلِ عامر نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ حضور پرنور ﷺ نے خوش ہوکر برکت کی دعا دی۔انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔اپنے آقا پر جانیں قربان کردیں۔(صحابیات و صالحات کے اوصاف،1/80) اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پیارے آقا ﷺ سے اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کا ادب و احترام بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ 


اللہ پاک نے اپنی تمام مخلوقات میں ہمارے نبی کریم ﷺ کو جو عزت و شرافت اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے،اتنا کسی کو نہیں دیا گیا۔آپ کو دل سے مقصدِ تخلیقِ کائنات،واجب الاتباع،خاتم الانبیا،محسن، ہادی اور رہبر جاننا اور ماننا ضروری ہے۔آپ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنا بھی کفر ہے۔اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں بارگاہِ نبوی کے آداب کو بیان فرمایا ہے:

(1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں راعنا کی بجائے انظرنا کہنے کا حکم دیا،جس کا معنی ہے:ہم پر نظر و شفقت فرمائیں۔

(2) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ9، الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا رسول اللہ ﷺ کا بلانا اللہ پاک کا ہی بلانا ہے۔

(5) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح آقا ﷺ کو نہ پکارو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ادبِ ملاقات:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینے شریف کی گلی میں رحمتِ عالم،نورِ مجسم ﷺ سے میرا سامنا ہوا اور اس وقت میں جنبی (ناپاکی کی)حالت میں تھا، تو میں نے گوارا نہ کیا کہ اس حالت میں آقا ﷺ کے سامنے آؤں۔چنانچہ میں نے آپ کو دیکھتے ہی راستہ بدل لیا اور غسل کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا:اے ابو ہریرہ!کہاں تھے؟ تو میں نے عرض کی:میں ناپاکی کی حالت میں تھا،اس لئے آپ کے پاس بیٹھنا پسند نہ کرتا تھا۔ (ابو داؤد، 1/110، حدیث: 231)اللہ پاک ہمیں آقا ﷺ کی تعظیم و توقیر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 


ادب اخلاقیات کا حصہ اور ہمارے دین اسلام کا اہم جز ہے۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ با ادب با مراد۔ اسلام میں ادب و احترام کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں ملحوظ رکھا گیا ہے، یہ ہماری بنیادی تربیت کا حصہ بھی ہے۔ فرمان سید الانبیاء ﷺہے کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھا ادب سکھانے سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا۔ (ترمذی،‏3/ 383، حدیث: 1959) اس حدیث پاک سے ادب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن کریم میں بارگاہ نبوی ﷺکے آداب کی بات کر رہے ہیں۔ رب کریم نے اپنے پیارے محبوب ﷺکی بارگاہ کے آداب خود قرآن کریم میں بیان فرما دئیے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں سے خطاب ہے اور حضور کو پکارنے کے ادب کو بیان کیا جا رہا ہے کہ راعنا نہ کہو، جس کے معنی ہیں (ہمارے حال کی رعایت فرمائیے) اور یہود کی لغت میں (خطا کار کے )ہیں۔ تو یہودی مذاق کے طور پر راعنا کہتے اور صحابہ کرام کلام کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے عرض کرتے۔ تو آیت میں راعنا کی جگہ انظرنا کہنے کا حکم دیا گیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر، ان کی جناب میں ادب کا لحاظ رکھنا فرض ہے، جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی بھی اندیشہ ہو زبان پر لانا ممنوع ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔

چند لوگوں نے عیدالاضحیٰ کے دن حضور ﷺسے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ وہ دوبارہ قربانی کریں۔(تفسیر صراط الجنان)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

ان آیات میں مطلقاً دو آداب بیان ہوئے، پہلا کہ جب حضور ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم کچھ عرض کرو تو تمہاری آوازیں ان سے بلند نہ ہوں۔ اور دوسرا یہ ہےکہ حضور ﷺکو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو نام لے کر نہ پکارو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ ادب و تعظیم و توصیف و تکریم کے کلمات کے ساتھ ہو۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

اس آیت میں بارگاہِ رسالت میں حاضری کا ادب بیان ہوا کہ جب حضور ﷺ حجروں میں ہوں تو باہر سے پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء:64) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

حضور ﷺکی تعظیم و توقیر جس طرح آپ کی حیات ظاہری میں کی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح ہماری نظروں سے پردہ فرمانے کے بعد بھی واجب و لازم ہے۔

محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی شگفتہ مزاجی کے باوجود جب بھی حدیث سنتے تو سراپا انکساری و عاجزی ہو جاتے۔

اسی طرح خود حضور ﷺکی زبان پاک سے سنتے وقت خاموش رہنا واجب ہے۔ (الشفاء،2/ 92)

جب یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ والی آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺاللہ کی قسم آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔ (کنزالعمال، 1/214)

مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ حضور ﷺکی بارگاہ میں حاضری کے وقت آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔

اللہ پاک ان حضرات کے طفیل حضور کی بارگاہ کے آداب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

آئیے ترغیب کے لیے ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے چنانچہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ حاضرین مجلس کے ساتھ حضور اقدس کی سیرت پاک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس وقت آپ ﷺ کلام فرماتے تھے تو آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے صحابہ کرام اس طرح سر جھکا کر خاموش اور سکون سے بیٹھ رہا کرتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس وقت آپ خاموش ہو جاتے تو صحابہ کرام گفتگو کرتے اور کبھی آپ کے سامنے کلام میں تنازع نہیں کرتے، اور جو آپ کے سامنے کلام کرتا آپ توجہ کے ساتھ اس کا کلام سنتے رہتے یہاں تک کہ وہ خاموش ہوجاتا۔(شمائل ترمذی، ص 125)


دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور دربار کے آداب خود بناتا ہے دنیا سے جاتے ہوئے تعظیم کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالم ہی نرالا ہے اس کی بارگاہ کے آداب اور اصول نہ خود اس نے اور نہ ہی مخلوق نے بنائے بلکہ تمام بادشاہوں کے بادشاہ اللہ پاک نے قرآن میں بیان فرمائے اور خاص وقت کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے مقرر فرمائے اور وہ عظیم شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔

اعلی حضرت فرماتے ہیں:

مولا علی نے واری تیری نیند پر نماز

اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے

صدیق بلکہ غار میں جان ان پر دے چکے

اور حفظِ جاں تو جان فروض غرر کی ہے

ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز

پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

قرآنی آیات:

1۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ(پ9، الانفال:24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

تفسیر: حضور اکرم ﷺجب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے۔

2- لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-(پ18،النور: 63) ترجمہ کنزالعرفان: اے لوگو! رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

تفسیر: ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبی ﷺکو نہ پکارو۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: علما تصریح فرماتے ہیں حضور ﷺکو نام لے کر ندا کرنا حرام ہے، خالی نام کی بجائے القاب سے پکارنا چاہیے۔

3-اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ26، الحجرات: 1)ترجمہ کنزالعرفان: ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: کسی قول اور فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو۔ تمام مخلوق پر حضور کی اطاعت واجب ہے۔

4-اللہ پاک فرماتا ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر: جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے جیسا کہ لفظ راعنا کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے۔

5- اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: حجروں کے باہر سے پکارنے والوں کو اللہ نے بے عقل فرمایا اور انہیں تعظیم کی تعلیم دی۔

درس: ان آیات سے واضح ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب کا ادب انتہائی مطلوب ہے، ان کا ادب نہ کرنا اللہ پاک کو انتہائی ناپسندیدہ ہے حضور کا ادب کرنا شرک نہیں۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجیے

لہٰذا ان آداب کو بجا لانا چاہیے۔

بزرگ کا واقعہ:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مسجد نبوی میں درس دیا کرتے تھے جب ان کے حلقے میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی آپ ایک آدمی مقرر کر لیں جو آپ سے حدیث پاک سن کر لوگوں کو سنا دے۔ امام مالک نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے: اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور رسول کی عزت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے اس لیے میں یہاں کسی شخص کو آواز بلند کرنے کے لئے ہر گز مقرر نہیں کر سکتا۔ (صراط الجنان)


حضور کی شان اتنی بلند ہے کہ اللہ پاک نے خود اپنے پیارے حبیب کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب بیان فرمائے اور لوگوں کو سکھائے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں آدابِ نبوی بیان کیے جاتے ہیں:

آیاتِ مبارکہ:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ 26، الحجرات:1) ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب واحترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے کہ لوگوں کو حضور ﷺ کی اجازت کے بغیر ان کے قول یا فعل میں اصلا ان سے آگے نہ بڑھنا لازم ہے۔ تم اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ یہ ہی ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا۔

شانِ نزول یہ ہے کہ چند لوگوں نے عید الضحیٰ کو حضور ﷺ سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم ہوا کہ دوبارہ قربانی کریں۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات:2) ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اوران کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

تفسیر:اس میں آداب سکھائے گئے ہیں کہ ایک یہ کہ تم جب نبی کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو یا وہ تم سے کلام فرمائیں تو تم پر لازم ہے کہ ان سے اپنی آواز بلند نہ کرو اور دوسرا یہ کہ نبی کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو ایسے نہ پکارو، بلکہ لقب سے ندا کرو کیونکہ ترکِ ادب سے اعمال برباد ہونے کا اندیشہ ہے اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (پ26،الحجرات: 4) ترجمہ: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

تفسیر: بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے آپ کو حجروں کے باہر سے پکارنا شروع کر دیا اور حضور باہر تشریف لائے تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور ان لوگوں کی ملامت کی گئی۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (پ26، الحجرات:5) اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کیلئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:اس آیت میں ادب کی تلقین کی گئی کہ اگر وہ نبی خودان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزد ہوئی اگر وہ اس سے توبہ کر لیں اور نبی کا ادب اپنے اوپر لازم کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-(پ 9، الانفال:24)ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کیلئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

تفسیر: اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدار رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے، چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو اگرچہ نماز میں ہو۔

آداب بجالانے کا درس:ان سب آیات سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ادب ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس ادب کو ترک کرنے والے کے اعمال برباد ہونے کا اندیشہ ہے تو اسی طرح ادب کی ترغیب دیتے ہوئے ایک قرآنی آیت پیش ِنظر رہے، ترجمہ: بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کیلئے پر کھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ادب کا درس دینے کے ساتھ ساتھ ادب والے کے لیے بخشش اور بڑے ثواب کی بشارت ہے تو کیوں نہ ہو کہ ہم بھی اس ثواب کو پانے کے حقدار بنیں۔ اس سے مراد یہ ہے نبی کے ہر قول و فعل حدیث پاک کا ادب کیا جائے اور علماء اور پیرو مرشد کا ادب کیا جائے جو صحیح العقیدہ عالم ہوں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: میں نے کبھی اپنے کسی استاد کے دروازے پر دستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتظار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے استفادہ کرتا۔

ایک صحابی کا واقعہ:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں درس دیا کر تے تھے جب ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی: آپ ایک آدمی مقرر کرلیں جو آپ سے حدیث سن کر لوگوں کو سنادے۔ امام مالک نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور رسول کریم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے اس لیے میں یہاں کسی شخص کو آواز بلند کرنے کیلئے ہر گز مقرر نہیں کر سکتا۔(صراط الجنان،9/403)


حضور اقدس ﷺ کی بارگاہ اللہ پاک کی بارگاہ ہے اور ان کے ہاں حاضری اللہ کے حضور حاضری ہے۔ حضور کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور حضور کے حکم سے منہ موڑنا رب تعالیٰ کے حکم سے منہ موڑنا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور الله سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ:52، ص 787)

1۔مقدس قرآن پاک میں اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں۔ اس آیت مبارکہ میں حضور اکرم ﷺ کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺکی خدمت میں آواز بلند کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

آسکتا ہے کب ہم سے گنواروں کو ادب وه جیسا کہ ادب کرتے تھے یاران محمد

2۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم فرماؤ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم منہ پھیرو تو رسول کے ذمہ وہی تبلیغ ہے جس کی ذمے داری کا بوجھ ان پر رکھا گیا اور تم پر وہ (اطاعت) لازم ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا ہے اور اگر تم رسول کی فرمانبراری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کے ذمے صرف صاف صاف تبلیغ کر دینا لازم ہے۔(تفسیر طبری، النور،تحت الآیۃ:54، 9/346) اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب! تم ان سے فرما دو کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں گے تو ہدایت پائیں گے اگر وہ نافرمانی کریں گے تو اس میں ان کا اپنا ہی نقصان ہے، کیونکہ رسول پاک کی ذمہ داری صرف دین کی تبلیغ اور احکام الٰہی پہنچانا ہے اور انہوں نے اپنا یہ کام پورا کرلیا ہے اور آپ پر ان کی فرمانبرادی لازم ہے اگر رو گردانی کروگے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کاتمہیں سامنا کرنا پڑے گا۔

3۔قرآن پاک کی سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ 26، الحجرات:1) ترجمہ: اے ایمان والو!الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور الله سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵) (پ 26، الحجرات: 15) ترجمہ کنز الایمان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں۔اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ جو الله اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لائے اور ایمان لانے کے بعد اس میں شک نہ کرے اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جو جہاد کرے وہی سچا ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (پ26،الحجرات: 4) ترجمہ: بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیت میں اُن لوگوں کو بے عقل قرار دیا گیا ہے کہ جو آپ ﷺ کو حجرے سے باہر کسی کام کے لیے بلاتے تھے۔

ان آداب کو بجالانے کا درس: تمام مخلوقات میں الله کے نزدیک رسول کریم ﷺ سب سے زیادہ بزرگ و محترم مقرب و محبوب اور برگزیدہ ہیں، آپ کی بارگاہ عالی وہ ہے جہاں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے اور آواز بلند کرنے کا وبال یہ ہے کہ تمام اعمال و عبادتیں ضائع اور برباد ہو جاتی ہیں اور آدمی کو اس کا شعور و احساس بھی نہیں رہتا اس لیے لازم ہے کہ ہر مسلمان آپ کا ادب واحترام کرے اور بے ادبی سے بچتا رہے۔

ایک صحابی کا واقعہ: ایک دفعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ نے کفر کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں ناشائستہ کلمہ منہ سے نکالا اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے فوراً اُن کے منہ پر طمانچہ کھینچ کر مارا، رسول اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا تو عرض کی: یارسول الله اس وقت میرے پاس تلوار نہ تھی ورنہ ایسی گستاخی پر اُن کی گردن اتار دیتا۔ اس وقت آپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی، ترجمہ: آپ ان لوگوں کو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتا ہے، خواہ وہ ان کے باپ اور دادا ہوں یا بیٹے اور پوتے ہوں، اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتے دار ہوں یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس اللہ نے ایمان ثبت فرمایا ہے اور اُنہیں اپنی روح (یعنی قبض خاص) سے تقویت بخشی ہے۔


پچھلے دنوں شاہدرہ چوک لاہور رحمٰن سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں واقع دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ مکہ مدینہ کے پاس شعبہ تحفظ اوراقِ مقدسہ کے کارخانے میں مدنی مشورہ ہوا جس میں شعبہ ذمہ دار حاجی محمد ارشد عطاری اور رکنِ مشاورت حاجی عبدالستار عطاری نے شرکت کی۔

مدنی مشورے میں تحصیل نگران محمد خرم عطاری اور ٹاؤن نگران محمد ارشد عطاری نے شہید اوراقِ مقدسہ کے تحفظ ، شعبہ خود کفالت ١ور 12 دینی کاموں کو مضبوط کرنے کے حوالے سے اسلامی بھائیوں کو مدنی پھول دیئے نیز کارخانے میں تیار ہونے والے تحفظ اوراقِ مقدسہ کے جدید ڈرم اور دیگر باکسز کے حوالے سے نکات بتائے۔

اس کے علاوہ دسمبر ماہِ مدنی قافلہ میں ایک ماہ اور 12 دن کے مدنی قافلوں میں سفر کرنے کا ذہن دیا جس پر ذمہ داران نے اسی ماہ میں مدنی قافلوں میں سفر کرنے کی اچھی اچھی نیتیں پیش کیں۔( رپورٹ : محمد ناصر عطاری شعبہ تحفظ اوراق مقدسہ ڈسٹرک شیخوپورہ، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


دنیا کے بادشاہوں کا قانون یہ ہے کہ جب وہ اپنی بادشاہت سنبھالتے تو وہ اپنی تعظیم اور دربار خاص میں اپنے آداب خود بتاتے ہیں مگر اس کائنات میں ایک ایسے بھی شہنشاہ آئے ہیں جن کااحترام اور بارگاہ میں حاضری کے آداب نہ انہوں نے خود بیان کیے اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے بلکہ ان کے احترام و توقیر کے آداب خود مالک مختار، رب ذوالجلال نے اپنے کلام میں بیان فرمایا جن میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیں۔

1:حضورِ اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فورا ًآپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو جاؤ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (الانفال: 24)ترجمہ کنزالعرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

2: اللہ تعالیٰ نے بارگاہ نبوی کا ادب بیان کرتے ہوئے پارہ 26 سورۃ الحجرات،آیت 2 میں ارشاد فرمایا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنزالعرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

3:ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبی کریم ﷺ کو نہ پکارو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز العرفان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

4: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ( البقرۃ: 104) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔اس آیت میں اللہ پاک نے تعظیم رسول کو واضح فرمایا دیا کہ ایسی بات جس میں ادب ترک ہونے کا شبہ بھی ہو تو اس کے ساتھ بھی آپ کو نہ پکارا جائے۔

5: وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-( الاحزاب: 36) ترجمہ کنز الایمان: اور کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرما دیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار ہے۔اس آیت میں بتادیا کہ نبی ﷺ کے حکم کے سامنے مومن کو اپنی جان کے معاملات کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ آیت حضرت زینب کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب وہ حضرت زید سے نکاح کے لیے تیار نہیں تھی مگر حکم رسول ﷺ ملتے ہی راضی ہو گئیں۔

ان آیات کے احکام صاف واضح ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے رسول ﷺ کا ادب انتہائی محبوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے۔

ترجمہ کنزُالعِرفان: تو وہ لوگ جو اس نبی پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ ( الاعراف: 157)

اس آیت میں تعظیم مصطفیٰ ﷺ بجا لانے والوں کو فلاح پانے کی بشارت دی گی کہ حقیقت میں کامیاب وہی ہے جو آقا ﷺ کی توقیر کرنے والا ہو۔


اسلام میں ادب کی بہت اہمیت ہے،قرآن و سنّت میں جگہ بہ جگہ ہمیں کھانے، پینے، سونے، اٹھنے، بات کرنے، سلام کرنے، قرآن پاک پڑھنے، نماز پڑھنے کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ اسی ضمن میں آج ہم ایک ایسی بارگاہ کے آداب سیکھیں گے،جس کے ادب کا حکم خود ہمارا ربّ ہمیں دیتا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26،الحجرات:1-2)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔ اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت(ضائع ) نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

ان آیات کریمہ میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کے تین آداب سکھائے ہیں:

سورۃ الحجرات کی آیت ایک میں پہلا ادب سکھایا کہ الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو یعنی اللہ اور اس کے رسول کے قول و فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو۔ کوئی کام رسول اللہ ﷺ سے پہلے نہ کرو۔ ان سے آگے نہ چلو ان کی اطاعت کرو۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ آیت مبارکہ میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور اللہ سے کوئی آگے کیسے بڑھ سکتا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ رسول الله ﷺ کی بے ادبی اللہ پاک کی بے ادبی ہے۔(شانِ حبیب الرحمٰن، ص 225)

سورة الحجرات کی آیت 2 میں نبی کریم ﷺ کا یہ دوسرا ادب سکھا یا گیا کہ جب نبی تم سے کلام فرمائیں اور جب تم کچھ ان کی بارگاہ میں عَرْض کرو تو اپنی آواز رسول اللہ کی آواز سے دھیمی اور آہستہ رکھو۔

آیت 2 میں ہی نبی کریم ﷺ کی بارگاہ کا تیسرا ادب بیان کیا گیا کہ جب ان کو ندا کرو تو ادب و تعظیم کا لحاظ رکھو۔ ان کو ایسے ندا نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو کرتے ہو بلکہ تعظیم واحسن القاب کے سا تھ ان سے عرض کرو، جیسے: یا رسول اللہ! یا حبیب اللہ۔(تفسیر قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ:2،8/ 220)

بارگاہِ رسالت کا جو ادب ان آیات میں بیان ہوا، وہ آپ ﷺ کی ظاہری حیات سے لے کر تا قیامت تک باقی ہے، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اب بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ جب روضۂ مبارک پر حاضری نصیب ہو تو سلام بہت آہستہ اور کچھ دورکھڑے ہو کر کریں۔ (شان حبیب الرحمن، ص 225)

سورۃ البقرۃ میں بھی ایمان والوں کو ان کا ربّ بارگاہِ نبوی کے آداب ارشاد فرماتاہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1،البقرۃ:104)ترجمہ کنزُ الایمان: اے ایمان والوراعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اس آیت مبارکہ میں حضور ﷺ کو راعنا کہنے کی ممانعت کی گئی ہے، جب حضور ﷺ صحابہ کرام کو تعلیم و تلقین فرماتے تو کبھی کبھی درمیان میں صحابہ کرام عَرْض کرتے:رَا عِنَا یَارَ سُوْلَ اللہ!(یعنی یَارَسُوْلَ اللہ ﷺ! ہمارے حال کی رعایت فرمائیں) یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا تھا، اس لئے اللہ پاک نے رَاعِنَا کے بجائے اُنْظُرْنَا بولنے کا حکم دیا، اس آیت مبارکہ میں ہمیں آداب نبوی کی تعلیم دی گئی ہے۔

ایسے الفاظ جن میں ہلکا سابھی ترکِ ادب ہو، نبی کریم کےلئے نہیں بولے جائیں گے۔ وَ اسْمَعُوْا بغور سنو: اس سے حکم دیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کا کلام غور سے سنو تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے کہ حضور ﷺ توجہ فرمائیں کیونکہ یہی ادب ہے۔(شانِ حبیب الرحمٰن، ص 363)

یہ مدنی پھول بھی حاصل ہوا کہ اب بھی جہاں کہیں حدیث مبارکہ سننے کی سَعادت حاصل ہو تو بھر پور توجہ اور ادب سے سننی چاہیے،صحابہ کرام علیہم الرضوان بارگاہِ رسالت کا ادب آپ ﷺ کی ظاہری حیات میں ہی نہیں بلکہ وصال ظاہری کے بعد بھی خوب خیال رکھتے اور احتیاط کرتے،چنانچہ ایک مرتبہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں دو شخصوں کی اونچی آواز سنی تو آپ نے فرمایا کہ تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو؟ پھر ارشاد فرمایا: تم کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عَرْض کیا: ہم طائف کے رہنے والے ہیں،فرمایا: اگر تم مدینۂ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں سزاد یتا۔ ( کیونکہ مدینے والے حضور ﷺ کی بارگاہ کا خوب ادب جانتے ہیں) (تفسیر ابن کثیر، الحجرات، تحت الآیۃ: 2، 7/343)

پیاری اِسْلَامی بہنو! دیکھا آپ نے صحابۂ کرام بارگاہِ رسالت کا کتنا ادب بجا لاتے کہ وصال ظاہری کے بعد بھی مسجد نبوی میں اونچا بولنے کی اجازت نہ تھی،ہمیں بھی چاہیئے کہ اس عظیم بارگاہ کے آداب سیکھیں اور ان پر عمل کریں کہ اسی میں دنیا جہاں کی اور آخرت کی کامیابی ہے۔ اللہ پاک ہمیں بارگاہِ رسالت کا ادب کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔