حضور کی شان اتنی بلند ہے کہ اللہ پاک نے خود اپنے پیارے حبیب کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب بیان فرمائے اور لوگوں کو سکھائے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں آدابِ نبوی بیان کیے جاتے ہیں:

آیاتِ مبارکہ:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ 26، الحجرات:1) ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب واحترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے کہ لوگوں کو حضور ﷺ کی اجازت کے بغیر ان کے قول یا فعل میں اصلا ان سے آگے نہ بڑھنا لازم ہے۔ تم اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ یہ ہی ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا۔

شانِ نزول یہ ہے کہ چند لوگوں نے عید الضحیٰ کو حضور ﷺ سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم ہوا کہ دوبارہ قربانی کریں۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات:2) ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اوران کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

تفسیر:اس میں آداب سکھائے گئے ہیں کہ ایک یہ کہ تم جب نبی کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو یا وہ تم سے کلام فرمائیں تو تم پر لازم ہے کہ ان سے اپنی آواز بلند نہ کرو اور دوسرا یہ کہ نبی کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو ایسے نہ پکارو، بلکہ لقب سے ندا کرو کیونکہ ترکِ ادب سے اعمال برباد ہونے کا اندیشہ ہے اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (پ26،الحجرات: 4) ترجمہ: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

تفسیر: بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے آپ کو حجروں کے باہر سے پکارنا شروع کر دیا اور حضور باہر تشریف لائے تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور ان لوگوں کی ملامت کی گئی۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (پ26، الحجرات:5) اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کیلئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:اس آیت میں ادب کی تلقین کی گئی کہ اگر وہ نبی خودان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزد ہوئی اگر وہ اس سے توبہ کر لیں اور نبی کا ادب اپنے اوپر لازم کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-(پ 9، الانفال:24)ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کیلئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

تفسیر: اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدار رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے، چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو اگرچہ نماز میں ہو۔

آداب بجالانے کا درس:ان سب آیات سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ادب ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس ادب کو ترک کرنے والے کے اعمال برباد ہونے کا اندیشہ ہے تو اسی طرح ادب کی ترغیب دیتے ہوئے ایک قرآنی آیت پیش ِنظر رہے، ترجمہ: بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کیلئے پر کھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ادب کا درس دینے کے ساتھ ساتھ ادب والے کے لیے بخشش اور بڑے ثواب کی بشارت ہے تو کیوں نہ ہو کہ ہم بھی اس ثواب کو پانے کے حقدار بنیں۔ اس سے مراد یہ ہے نبی کے ہر قول و فعل حدیث پاک کا ادب کیا جائے اور علماء اور پیرو مرشد کا ادب کیا جائے جو صحیح العقیدہ عالم ہوں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: میں نے کبھی اپنے کسی استاد کے دروازے پر دستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتظار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے استفادہ کرتا۔

ایک صحابی کا واقعہ:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں درس دیا کر تے تھے جب ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی: آپ ایک آدمی مقرر کرلیں جو آپ سے حدیث سن کر لوگوں کو سنادے۔ امام مالک نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور رسول کریم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے اس لیے میں یہاں کسی شخص کو آواز بلند کرنے کیلئے ہر گز مقرر نہیں کر سکتا۔(صراط الجنان،9/403)