ادب اخلاقیات کا حصہ اور ہمارے دین اسلام کا اہم جز ہے۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ با ادب با مراد۔ اسلام میں ادب و احترام کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں ملحوظ رکھا گیا ہے، یہ ہماری بنیادی تربیت کا حصہ بھی ہے۔ فرمان سید الانبیاء ﷺہے کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھا ادب سکھانے سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا۔ (ترمذی،‏3/ 383، حدیث: 1959) اس حدیث پاک سے ادب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن کریم میں بارگاہ نبوی ﷺکے آداب کی بات کر رہے ہیں۔ رب کریم نے اپنے پیارے محبوب ﷺکی بارگاہ کے آداب خود قرآن کریم میں بیان فرما دئیے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں سے خطاب ہے اور حضور کو پکارنے کے ادب کو بیان کیا جا رہا ہے کہ راعنا نہ کہو، جس کے معنی ہیں (ہمارے حال کی رعایت فرمائیے) اور یہود کی لغت میں (خطا کار کے )ہیں۔ تو یہودی مذاق کے طور پر راعنا کہتے اور صحابہ کرام کلام کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے عرض کرتے۔ تو آیت میں راعنا کی جگہ انظرنا کہنے کا حکم دیا گیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر، ان کی جناب میں ادب کا لحاظ رکھنا فرض ہے، جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی بھی اندیشہ ہو زبان پر لانا ممنوع ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔

چند لوگوں نے عیدالاضحیٰ کے دن حضور ﷺسے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ وہ دوبارہ قربانی کریں۔(تفسیر صراط الجنان)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

ان آیات میں مطلقاً دو آداب بیان ہوئے، پہلا کہ جب حضور ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم کچھ عرض کرو تو تمہاری آوازیں ان سے بلند نہ ہوں۔ اور دوسرا یہ ہےکہ حضور ﷺکو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو نام لے کر نہ پکارو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ ادب و تعظیم و توصیف و تکریم کے کلمات کے ساتھ ہو۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

اس آیت میں بارگاہِ رسالت میں حاضری کا ادب بیان ہوا کہ جب حضور ﷺ حجروں میں ہوں تو باہر سے پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء:64) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

حضور ﷺکی تعظیم و توقیر جس طرح آپ کی حیات ظاہری میں کی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح ہماری نظروں سے پردہ فرمانے کے بعد بھی واجب و لازم ہے۔

محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی شگفتہ مزاجی کے باوجود جب بھی حدیث سنتے تو سراپا انکساری و عاجزی ہو جاتے۔

اسی طرح خود حضور ﷺکی زبان پاک سے سنتے وقت خاموش رہنا واجب ہے۔ (الشفاء،2/ 92)

جب یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ والی آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺاللہ کی قسم آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔ (کنزالعمال، 1/214)

مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ حضور ﷺکی بارگاہ میں حاضری کے وقت آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔

اللہ پاک ان حضرات کے طفیل حضور کی بارگاہ کے آداب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

آئیے ترغیب کے لیے ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے چنانچہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ حاضرین مجلس کے ساتھ حضور اقدس کی سیرت پاک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس وقت آپ ﷺ کلام فرماتے تھے تو آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے صحابہ کرام اس طرح سر جھکا کر خاموش اور سکون سے بیٹھ رہا کرتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس وقت آپ خاموش ہو جاتے تو صحابہ کرام گفتگو کرتے اور کبھی آپ کے سامنے کلام میں تنازع نہیں کرتے، اور جو آپ کے سامنے کلام کرتا آپ توجہ کے ساتھ اس کا کلام سنتے رہتے یہاں تک کہ وہ خاموش ہوجاتا۔(شمائل ترمذی، ص 125)