قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی کے 5آداب از
بنتِ محمد منیر، فیضان ام عطار
گلبہار سیالکوٹ
اللہ پاک نے اپنی تمام مخلوقات میں ہمارے نبی کریم ﷺ کو جو عزت و شرافت اور
مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے،اتنا کسی کو نہیں دیا گیا۔آپ کو دل سے مقصدِ تخلیقِ
کائنات،واجب الاتباع،خاتم الانبیا،محسن، ہادی اور رہبر جاننا اور ماننا ضروری
ہے۔آپ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنا بھی کفر ہے۔اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں
بارگاہِ نبوی کے آداب کو بیان فرمایا ہے:
(1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا
انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ
کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں
کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں راعنا کی بجائے انظرنا کہنے کا حکم دیا،جس کا معنی ہے:ہم پر نظر و شفقت فرمائیں۔
(2) اِنَّاۤ
اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور
خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے
لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ
26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ
سُنتا جانتا ہے۔
(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ
وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ9، الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو!
اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔
اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا رسول اللہ ﷺ کا بلانا اللہ پاک کا ہی بلانا ہے۔
(5) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ
بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو
آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو
پکارنے کی طرح آقا ﷺ کو نہ پکارو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ادبِ
ملاقات:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینے شریف کی
گلی میں رحمتِ عالم،نورِ مجسم ﷺ سے میرا سامنا ہوا اور اس وقت میں جنبی (ناپاکی کی)حالت
میں تھا، تو میں نے گوارا نہ کیا کہ اس حالت میں آقا ﷺ کے سامنے آؤں۔چنانچہ میں نے
آپ کو دیکھتے ہی راستہ بدل لیا اور غسل کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے
فرمایا:اے ابو ہریرہ!کہاں تھے؟ تو میں نے عرض کی:میں ناپاکی کی حالت میں تھا،اس
لئے آپ کے پاس بیٹھنا پسند نہ کرتا تھا۔ (ابو داؤد، 1/110، حدیث: 231)اللہ پاک
ہمیں آقا ﷺ کی تعظیم و توقیر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔