حضور اقدس ﷺ کی بارگاہ اللہ پاک کی بارگاہ ہے اور ان کے ہاں حاضری اللہ کے حضور حاضری ہے۔ حضور کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور حضور کے حکم سے منہ موڑنا رب تعالیٰ کے حکم سے منہ موڑنا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور الله سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ:52، ص 787)

1۔مقدس قرآن پاک میں اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں۔ اس آیت مبارکہ میں حضور اکرم ﷺ کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺکی خدمت میں آواز بلند کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

آسکتا ہے کب ہم سے گنواروں کو ادب وه جیسا کہ ادب کرتے تھے یاران محمد

2۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم فرماؤ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم منہ پھیرو تو رسول کے ذمہ وہی تبلیغ ہے جس کی ذمے داری کا بوجھ ان پر رکھا گیا اور تم پر وہ (اطاعت) لازم ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا ہے اور اگر تم رسول کی فرمانبراری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کے ذمے صرف صاف صاف تبلیغ کر دینا لازم ہے۔(تفسیر طبری، النور،تحت الآیۃ:54، 9/346) اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب! تم ان سے فرما دو کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں گے تو ہدایت پائیں گے اگر وہ نافرمانی کریں گے تو اس میں ان کا اپنا ہی نقصان ہے، کیونکہ رسول پاک کی ذمہ داری صرف دین کی تبلیغ اور احکام الٰہی پہنچانا ہے اور انہوں نے اپنا یہ کام پورا کرلیا ہے اور آپ پر ان کی فرمانبرادی لازم ہے اگر رو گردانی کروگے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کاتمہیں سامنا کرنا پڑے گا۔

3۔قرآن پاک کی سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ 26، الحجرات:1) ترجمہ: اے ایمان والو!الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور الله سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵) (پ 26، الحجرات: 15) ترجمہ کنز الایمان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں۔اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ جو الله اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لائے اور ایمان لانے کے بعد اس میں شک نہ کرے اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جو جہاد کرے وہی سچا ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (پ26،الحجرات: 4) ترجمہ: بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیت میں اُن لوگوں کو بے عقل قرار دیا گیا ہے کہ جو آپ ﷺ کو حجرے سے باہر کسی کام کے لیے بلاتے تھے۔

ان آداب کو بجالانے کا درس: تمام مخلوقات میں الله کے نزدیک رسول کریم ﷺ سب سے زیادہ بزرگ و محترم مقرب و محبوب اور برگزیدہ ہیں، آپ کی بارگاہ عالی وہ ہے جہاں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے اور آواز بلند کرنے کا وبال یہ ہے کہ تمام اعمال و عبادتیں ضائع اور برباد ہو جاتی ہیں اور آدمی کو اس کا شعور و احساس بھی نہیں رہتا اس لیے لازم ہے کہ ہر مسلمان آپ کا ادب واحترام کرے اور بے ادبی سے بچتا رہے۔

ایک صحابی کا واقعہ: ایک دفعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ نے کفر کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں ناشائستہ کلمہ منہ سے نکالا اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے فوراً اُن کے منہ پر طمانچہ کھینچ کر مارا، رسول اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا تو عرض کی: یارسول الله اس وقت میرے پاس تلوار نہ تھی ورنہ ایسی گستاخی پر اُن کی گردن اتار دیتا۔ اس وقت آپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی، ترجمہ: آپ ان لوگوں کو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتا ہے، خواہ وہ ان کے باپ اور دادا ہوں یا بیٹے اور پوتے ہوں، اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتے دار ہوں یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس اللہ نے ایمان ثبت فرمایا ہے اور اُنہیں اپنی روح (یعنی قبض خاص) سے تقویت بخشی ہے۔