قرآنِ پاک میں بارگاہِ نبوی کے 5آداب از بنتِ ظہور الٰہی ، فیضان ام عطار
گلبہار سیالکوٹ
دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ وہ اپنی تعظیم کے اصول خود بناتے ہیں، اپنے
دربار کے آداب خود بناتے اور جب چلے جاتے ہیں تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی
ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے، جس کے دربار کا دستور
ہی نرالا ہے کہ اس نے اپنی بارگاہ کے ادب و احترام کے اصول و قوانین نہ خود بنائے
ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے ہیں۔بلکہ سب سے بڑے شہنشاہ،بادشاہ اور
ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے ربّ کریم نے نازل فرمائے ہیں۔ وہ ہستی عظیم،
شہنشاہ، مالک و مختار ہستی محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، جن کی تعظیم و توقیر
کرنے کا خود اللہ پاک نے حکم فرمایا۔ چنانچہ
(1)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ
وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ9، الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان
والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔ حضور ﷺ جب بھی بلائیں، حکم فرمائیں تو فوراً ان کی بارگاہ
میں حاضر ہوجاؤ۔
(2) اللہ پاک فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ
كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور:
63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں
ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبیِ کریم ﷺ کو پکارنے سے منع
فرمایا گیا ہے۔
(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ
عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1، البقرۃ: 104)ترجمہ کنز
العرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں
اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
آیتِ مبارکہ سے پتا چلا کہ جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو، وہ زبان
پر لانا ممنوع ہے۔ جیسا کہ لفظِ راعنا کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے۔
(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا
اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ26، الحجرات:2)ترجمہ کنز العرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔
آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں کچھ
عرض کرنا ہو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز اُن کی آواز سے بلند نہ ہو، بلکہ جو
بھی عرض کرنا ہو وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔
(5) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ
لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)(پ26، الحجرات: 4) ترجمہ کنز
العرفان: بےشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر بے عقل ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی جلالتِ شان کو بیان فرمایا گیا کہ سید المرسلین ﷺ کی بارگاہ
اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:
ثابت ہوا کہ جملہ
فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہُ
عنہم اور صحابیاتِ طیبات رضی اللہُ
عَنہُنَّ حضورِ اقدس ﷺ کا بےحد ادب و احترام کرتے اور
بارگاہِ رسالت کے آداب کا ہمیشہ خیال رکھتے۔
صحابیہ کا ادبِ رسول: بحیرہ بن فراس قشیری نامی شخص نے حضور
ﷺ کی اونٹنی کی کوکھ میں نیزہ چبھادیا،وہ اچھلی اور آپ زمین پر تشریف لے آئے۔حضرت
ضُباعہ بنتِ عامر رضی اللہُ عنہا یہ سن کر آپے
سے باہر ہوگئیں اور اپنے چچا زاد آلِ عامر کے ذریعے اس گستاخی کا بدلہ لیا۔آلِ
عامر نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ حضور پرنور ﷺ نے خوش ہوکر برکت کی دعا
دی۔انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔اپنے آقا پر جانیں قربان کردیں۔(صحابیات و صالحات کے
اوصاف،1/80) اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پیارے آقا ﷺ سے اور آپ سے نسبت و تعلق
رکھنے والی تمام چیزوں کا ادب و احترام بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔