
ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا
ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر
سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے،
اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و
محبت امن وسلامتی کی تعلیم دی ہے۔ وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے
اسلامی بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ انکی جان و مال اور اہل و عیال کی
حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو
سکتے ہیں اور ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر گھر ایک دوسرے کے جان ومال،
عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ
5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی (کے ساتھ
بھلائی کرو)۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھ کو پڑوسیوں کے
حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب
پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)
پڑوسیوں کے حقوق: اپنے
پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر
قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔
حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے
حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب تمہارے پڑوسیوں پرکوئی مشکل وقت آئے تو ان کا
ساتھ دو۔ خوشی میں ان کو مبارکباد دو۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت
کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرو۔ دین ودنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی
ضرورت ہو تو اس میں ان کی رہنمائی کرو۔ ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرو۔ مصیبت
کے وقت ان کی غم خواری کرو۔ (احیاء العلوم، 2/772)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو
ایذا دی بے شک اس نے مجھے ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے
جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بےشک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کى۔ (
کنزالعمال، 5/25، حدیث:24922)
ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! فلاں عورت کی بات
اس کی نماز صدقہ روزوں کی کثرت کی وجہ سے کی جاتی ہے، مگر وہ اپنی زبان سے پڑوسیوں
کو تکلیف دیتی ہے تو رسول ﷺ نے فرمایا: وہ عورت جہنمی ہے۔ پھرعرض کی گئی: یا رسول
الله! فلاں عورت نماز روزے کی کمی اور پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرنے کے باعث پہنچانی
جاتی ہے مگر وہ پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ
عورت جنتی ہے۔ (مسند امام احمد، 3/441،
رقم: 9681)
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوسیوں
کا بہت خیال رکھتے ان کی خبر گیری فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے
جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہو جاتے تو آپ
تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر اس کے حق میں مغفرت و نجات کی دعا کرتے
اور ان کےگھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے اور ان کو تسلی دیا کرتے۔ (معین الارواح،
ص 188)
پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ
پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی
تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک
شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا
حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا
نہ کرے بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔
(احیاء العلوم، 2/267)
پڑوسیوں کو تکلیف دینے کے سبب بندہ جنت سے محروم ہو
کر جہنم کا حقدار قرار پاتا ہے۔ آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ جیسے ہمارے بزرگان
دین کا انداز تھا پڑوسیوں کے حقوق کے معاملے میں ہمیں بھی ویسا ہی انداز اپنانے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ہمسایہ کسے کہتے ہیں؟ چاروں
طرف یعنی دائیں بائیں آگے پیچھے چالیس گھر انسان کے ہمسایہ شمار ہوتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہر ایک کے حقوق
کو پورا کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے انہیں میں سے ہمسایوں کے حقوق بھی ہیں جن کا ذکر قرآن
و احادیث میں آیا ہے، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ
الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء:
36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔
پڑوسیوں کے حقوق: احادیثِ
مبارکہ کی روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق ملاحظہ فرمائیں:
1۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے
کہا: اے الله کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ
بھیجوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کا گھر تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری،
2/173، حدیث: 2595) چنانچہ وہ پڑوسی جس کا گھر آپ کے گھر سے متصل ہو یقیناً اس کا
حق اس پڑوسی سے زیادہ ہے جس کا گھر آپ کے گھر سے کچھ دوری پر ہو۔
2۔ آقا ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله پاک کی
قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول الله وہ کون ہے؟ آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/ 104،
حدیث: 6016)
3۔ اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ
رسول الله ﷺ نے کسی شخص کے کامل مومن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی
کو مقرر فرمایا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آقا ﷺ سے عرض کی: یا رسول
الله! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں، تو آپ نے فرمایا:
نیک بن جاؤ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نیک بن جانے کا علم کیسے ہوگا؟ ارشاد فرمایا: اپنے
پڑوسی سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہیں تو تم نیک ہو اور اگر وہ بُرا کہیں تو تم
بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان، 7/85، حدیث:9567)
3۔ آقا ﷺ نے پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے
فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو اسکی عیادت کرو، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں
شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائے تو اسکی پردہ
پوشی کرو۔ (معجم کبیر، 19/419، حدیث:1014)
4۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے شر سے اسکا پڑوسی
بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص43، حدیث:73)
الغرض اسلام نے جہاں ہمیں ماں باپ اور عزیز و اقارب
کے ساتھ حسنِ سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں
مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر رشتہ داروں کو بھی محروم نہیں رکھا
بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا درس دیا اگر اس پر عمل کیا جائے
تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا
ہے جہاں پر ہر کوئی ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ
ہوگا۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ الله پاک ہمیں ایسا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

اسلام نے جہاں ماں باپ، عزیز و اقارب، رشتہ داروں
اور دوستوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر کے ساتھ گھر یعنی ہمارے پڑوسیوں کے
حقوق بھی ہمیں سکھاتا ہے۔ ہمارے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں سے ملنا تو کبھی
کبھار ہوتا ہے مگر ہمارا واسطہ ہمارے پڑوسیوں سے ہر روز ہو ہی جاتا ہے اس لیے ہمیں
چاہیے کہ ہم پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں جانیں کہ حق پڑوس کیا ہے؟
امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء
العلوم جلد 2صفحہ 866پر لکھتے ہیں کہ یا درکھئے! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو
تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو
برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی
کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس
کا حق ادا نہیں ہوتا، لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ
ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔
منقول ہے کہ قیامت کے دن فقیر پڑوسی اپنے امیر
پڑوسی کا دامن پکڑ کر بارگاہ الہی میں عرض کرے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس
نے مجھے اپنے حسن سلوک سے کیوں محروم رکھا؟ اور میرے لئے اپنے گھر کا دروازہ کیوں
بند کیا؟(مکاشفۃ القوب، ص 579)
پڑوسی کے گھرکی دیوار کے سائے کا حق:
ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اس کا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا
ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے
مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا جب تو میں نے اس کے گھر کے سائے کا بھی حق
ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کی قیمت ادا کی اور اس سے کہا گھر مت
بیچو! (احیاء العلوم، 1/771)
حقِ پڑوسی کا احساس: کسی
بزرگ نے اپنے دوستوں سے گھر میں چوہوں کی کثرت کی شکایت کی تو ان سے کہا گیا: آپ
بلی کیوں نہیں لیتے؟ فرمایا: مجھے اس بات کا خوف ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے
پڑوسیوں کے گھروں میں چلے جائیں گے یوں ان کے لئے اس بات کو پسند کرنے والا ہو
جاؤں گا جس بات کو اپنی ذات کے لیے پسند نہیں کرتا۔ (احیاء العلوم، 2/771)
سالن پکاؤ تو پڑوسی کو بھی کچھ دو: حضرت
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے وصیت کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا: جب تم ہنڈیا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے کچھ پڑوسیوں
کو دیکھ کر اس میں سے کچھ ان کو دو۔ (مسلم، ص 1313، حدیث: 2625)
گھر کے قریبی پڑوسی کا حق زیادہ ہے: ام
المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت
میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور
دوسرا دروازے سے کچھ دور اور بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں
کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595)
پڑوسی بھوکا نہ سوئے: فرمانِ
مصطفےٰ ﷺ ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔ (معجم
کبیر، 12/119، حدیث: 12741)
پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم ﷺ نے
فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں
شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی
پَردہ پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)
اخوت و بھائی چارہ:
جیسا کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت
میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)
ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنا چاہیے جب انہیں
مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کے دکھ درد تکلیف میں ان کا ساتھ دینا
چاہیئے، کیونکہ حقوق العباد تب ہی معاف ہوتے ہیں جب بندہ معاف کرے۔ اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقوق العباد اور حقوق اللہ کو ادا کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین

ہمسایہ کا حق صرف یہ نہیں کہ آپ اس سے اس کی
تکلیفیں دور کریں بلکہ ایسی چیزیں بھی اس سے دور کرنی چاہئے کہ جن سے اسے دکھ
پہنچنے کا احتمال ہو، ہمسائے سے دکھ دور کرنا، اسے دکھ دینے والی چیزوں سے دور
رکھنے کے علاوہ کچھ اور بھی حقوق ہیں، اس سے نرمی اور حسن سلوک سے پیش آئے، اس سے
نیکی اور بھلائی کرتا رہے۔ ہمسایوں کے حقوق حدیث پاک کی روشنی میں ملا حظہ فرمائیں۔
اپنے ہمسائے سے اچھا برتاؤ کرو: فرمان
رسول ﷺ ہے: اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کر تب تو مسلمان ہوگا۔ (شعب الایمان،
5/53، حدیث: 575)
اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دیجیئے: ایک
شخص آقا ﷺ کی خدمت میں اپنے ہمسایہ کا شکوہ کیا حضور ﷺ نے اس سے فرمایا صبر کر، تیسری
یا چوتھی بار آپ نے فرمایا اپنا سامان راستہ میں پھینک دے، راوی کہتے ہیں کہ لوگوں
نے جب اس کے سامان کو باہر راستہ پر پڑا دیکھا تو پو چھا کیا بات ہے؟ اس نے کہا
مجھے ہمسایا ستاتا ہے، لوگ وہاں سے گزرتے رہے، پوچھتے رہے اور کہتے رہے اللہ پاک
اس ہمسایہ پر لعنت کرے، جب اس ہمسایہ نے یہ بات سنی تو آیا، اسے کہا اپنا سامان
واپس لے آؤ، بخدا میں پھر تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔ (صحیح ابن حبان، 1/368، حدیث:
521)
ہمسائے کو دکھ دینے والا جہنم میں
جائے گا: مروی
ہے کہ ایک عورت نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا میرا ہمسایہ ہے جو
مجھے تکلیف دیتا ہے، گالیاں دیتا ہے اور تنگ کرتا ہے، آپ نے یہ سن کر فرمایا جاؤ
اگر وہ تمہارے متعلق اللہ کی نافرمانی کرتا ہے تو تم اس کے بارے میں اللہ کی اطاعت
کرو، حضور ﷺ سے عرض کی گئی، یارسول اللہ فلاں عورت دن کو روزہ رکھتی ہے،رات کو
عبادت کرتی ہے مگر اپنے ہمسایوں کو دکھ دیتی ہے آپ نے یہ سن کر فرمایا: وہ جہنم
میں جائے گی۔ (مستدرک للحاکم، 5/231، حدیث: 7384)
جب کوئی چیز لائے تو اپنے ہمسایہ کو بھی کھانے کے
لیے دے، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ کے پاس بیٹھا تھا اور آپ کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا آپ نے کہا: اے
غلام جب بکری کی کھال اتار لے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی ہمسایہ کو گوشت دینا،آپ
نے یہی بات متعدد بار کہی تو غلام نے کہا اب اور کتنی مرتبہ کہیں گے؟ تب آپ نے
فرمایا: حضور ﷺ ہمیں ہمسائیوں کے متعلق وصیت فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں
اندیشہ ہوا کہ کہیں ہمسایوں کو وارث نہ بنا دیا جائے۔ (ترمذی، 3/379، حدیث: 1949)
اپنے ہمسائے کی عزت کیجیے: حضور
ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آ خرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے۔
(بخاری، 4/105، حدیث: 6019)
آقا ﷺ کا فرمان ہے: ہمسائے تین ہیں، ایک ہمسایہ کا
ایک حق، دوسرے کے دو حق اور تیسرے کے تین حقوق ہیں، جس ہمسائے کے تین حقوق ہیں وہ
رشتہ دار مسلمان ہمسایہ ہے، اس کا ہمسائیگی کا حق، اسلام کا حق اور رشتہ داری کا
حق ہے۔ جس ہمسایہ کے دو حقوق ہیں وہ مسلمان ہمسایہ ہے اس کے لیے ہمسائیگی کا حق ہے
اور اسلام کا حق ہے اور جس ہمسائے کا ایک حق ہے وہ مشرک ہمسایہ ہے۔ غور کیجئے کہ
اسلام نے مشرک ہمسایہ کا بھی حق ہمسائیگی رکھا ہے۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560
)
اللہ پاک ہم سب کو اخلاص کے ساتھ ہمسائیوں کے حقوق
ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ہمسائیگی کو عربی میں ”جوار“ کہا جاتا ہے اور پڑوس
کو ”جار“ کہتے ہیں اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا
کرنے کے لیے انسانی زندگی کو کوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے
ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر
ایک کو اپنے ہمسائے یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ نے
ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ارشاد فرمایا: وَ
الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء:
36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ( کے ساتھ حسنِ سلوک سے
پیش آؤ)۔
حدیث شریف میں ہے: جبرائیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے
حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے! یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے وارث ہی
بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)
بہترین پڑوسی کون؟ حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کریم
کے نزدیک بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوستوں کے لیے اچھا ہو اور اللہ کریم کے نزدیک
بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے لیے اچھا ثابت ہو۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث:
9560 )
پڑوسی کو تکلیف نہ دیجیے: تاجدارِ
رسالت ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی
کو ہرگز تکلیف نہ دے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 47) مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد
یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی اس کو تکلیف دینے کے
لیے کوئی کام نہ کرے، کہا جاتا ہے: ہمسایہ اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔ افسوس
مسلمان یہ باتیں بھول گئے قرآن مجید میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا، بہرحال
پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگیے۔ (مراۃ المناجیح،
6/53)
مزید پڑوسیوں کے حقوق ملاحظہ فرمائیں: اگر وہ محتاج
ہوں تو اسے کچھ دے، بیمار ہو تو عیادت کرے، کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دے،
مصیبت پہنچے تو تعزیت کرے، مر جائے تو جنازے میں شریک ہو، بلا اجازت اس کے مکان سے
اونچا مکان بنا کر اس کی ہوا نہ روکے، اگر کوئی پھل خرید کر لائے تو کچھ اسے بھی
دے۔
ہمسائے کی بکری کو بھی تکلیف نہ دو! حضرت
ام سلمہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دن ہمسائے کی بکری گھر میں داخل ہوگئی
جب اس نے روٹی اٹھائی تو میں اس کی طرف گئی اور روٹی کو اس کے جبڑے سے کھینچ لیا۔
یہ دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا: تجھے اس کو تکلیف دینا امان نہ دے گا کیونکہ یہ بھی ہمسائے
کو تکلیف دینے سے کچھ کم نہیں۔ ( مکارم الاخلاق، ص 395، حدیث: 239)
اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے
ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین

ہمسایہ دو الفاظ کا مجموعہ ہے ”ہم“ اور ”سایہ“ ہمسایہ
کے لئے عربی زبان میں ”جار“ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد وہ لوگ جو ایک دوسرے
کے قرب و جوار اور پڑوس میں رہتے ہیں۔ عام اصطلاح میں ہمسایہ سے مراد ہم رہائش
یعنی ساتھ ساتھ رہنے والے ہی ہوتے ہیں۔ الله پاک نے قرآن کریم میں ہمسایوں کے حقوق
ادا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ
5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا
سلوک کرو)۔
پڑوسی کے حقوق سے متعلق 5 فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ جبرئیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے،
یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث:
6014)
2️۔ الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہترین پڑوسی وہ ہے
جو اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/379، حدیث:1951)
3۔ الله تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا
ہے اسے شیریں بنا دیتا ہے۔ عرض کی گئی: شیریں بنانے سے کیا مراد ہے؟ تو ارشاد
فرمایا: ہمسایوں کے نزدیک اسے محبوب بنا دیتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/658، حدیث:
1298)
4۔ کوئی شخص اپنے پڑوسی کو اس بات سے منع نہ کرے کہ
وہ اس کی دیوار میں شہتیر گاڑھ لے۔ (مسند امام احمد، 3/105، حدیث: 7706 )
5۔ جو شخص الله اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ
اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 48 )
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا پڑوسی کے حقوق ادا
کرنا ہم پر لازم ہے پڑوسی کا حق یہ ہے کہ اس کے ساتھ اچھا اور نیک سلوک کیا جائے
ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں، پڑوسی
کی عزت و تکریم کی جائے اس کی مالی و جسمانی ہر طرح سے مدد کی جائے اس کو تکلیف
دینے سے گریز کیا جائے، پڑوسی کو تحائف سے نوازے کہ ”تحفہ دینے سے آپس میں محبت
بڑھتی ہے“ اگر پڑوسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کیا جائے پڑوسی کو
برے افعال سے روکا جائے اور نیکی کی تلقین کی جائے، دین و دنیا کے جس معاملے میں
انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں ان کی رہنمائی کرے پڑوسی کی خوشی میں شریک ہونے
سے اس کی خوشی دوبالا ہو جاتی ہے اور غمی میں شریک ہونے سے اس کا غم ہلکا ہو جاتا
ہے، پڑوسی کے ساتھ سلام میں پہل کرے، اس کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔
الله سے دعا ہے کہ ہمیں دوسروں کو تکلیف دینے سے
بچائے اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین
ﷺ

اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب سے امن و
سلامتی محبت ہمدردی و اخوت، پیار اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حکم
دیا ہے وہیں ہمارے آس پاس رہنے والے لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے یعنی اپنے پڑوسیوں
کا خیال رکھنا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ہے
کیونکہ اگر ایک محلے یا سوسائٹی میں رہتے ہوئے اپنے پڑوسیوں سے نہ ملیں گے یا اچھا
سلوک نہ کریں گے تو اس سے معاشرہ میں خرابیاں پیدا ہوں گی اگر ہم پڑوسیوں سے مل جل
کر رہیں گے تو معاشرہ اچھار ہے گا۔ پڑوسیوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ
5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور
دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں احادیث مبارکہ
ملاحظہ ہوں۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ اللہ تین طرح کے لوگوں سے محبت فرماتا ہے (ان
میں سےایک وہ ہے) جس کا برا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اس کے تکلیف دینے پر صبر کرے
یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی یا موت کے ذریعے کفایت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/ 152، حدیث:
1637)
2۔ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر فوت ہو
جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب
دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ ( معجم كبير، 19/ 419، حديث: 1014)
3۔ جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے
تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ایذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی
سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک
سے لڑائی کی۔ (ترغیب و ترہيب، 3/286، حديث:3907)
4۔ جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بےخوف نہ ہو وہ جنت
میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)
5۔ نبی کریم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله کی
قسم! وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! وہ کون ہے ؟ ارشاد
فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/104، حديث: 6016)
درس: پڑوسیوں کے
حقوق کے بارے میں ہم نے احادیث مبارکہ پڑھیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کا
خیال رکھیں ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور ان کو کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی نہ
دیں۔ الله پاک ہمیں دوسروں کے حقوق پورا کرنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ بالخیر ایمان
پر ہو۔ آمین

اسلام نےجس طرح والدین عزیز و اقارب اور دیگر رشتہ
داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح قرب و جوار میں رہنے والے
ہمسایوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے اور بھلائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ پاک قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی
الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز
العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ قریب کے ہمسائے
سےمراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے
جومحلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو
اوررشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور
کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی
ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 275)
پڑوسیوں کے حقوق:
1۔ ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت
ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے متعلق
برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔
(بخاری،4/ 104،حدیث 6014)
2۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے: اللہ کے نزدیک بہتر ین پڑوسی
وہ ہے جواپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (مشکاۃ، 1/55، حدیث: 175)
3۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے: جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی
اس نے مجھے ایذادی جس نے مجھے دی اس نےاللہ پاک کو ایذادی۔ ( کنزالعمال، 5/25، حدیث:24922)
4۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں
نے اپنی امی جان خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ رات
کو مسجد بیت میں صبح صادق تک نوافل پڑھتی رہتیں میں نے آپ کو اپنے بجائے دوسرے
مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرتے سنا،میں نے عرض کی امی جان! کیا وجہ ہے کہ
آپ اپنے لئے کوئی دعا نہیں کرتیں؟ فرمایا: پہلے پڑوس ہے پھر گھر۔ (مدارج نبوت، 2/461)
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: پڑوسی
کےحقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے سلام کرنے میں پہل کرے، اس سےطویل گفتگو نہ کرے،اس
کے حالات کے بارے میں زیادہ پوچھ گچھ نہ کرے، وہ بیمارہو تو اس کی مزاج پرسی کرے،
مصیبت کے وقت اس کی غم خواری کرے اور اس کا ساتھ دے، خوشی کے موقع پر اسے مبارک
باد دے اور اس کے ساتھ خوشی میں شرکت کرے، اس کی لغزشوں سے در گزر کرے چھت سے اس
کے گھر میں نہ جھا نکے، اس کے گھر کا راستہ تنگ نہ کرے، اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے،
اگر وہ کسی حادثے کا شکار ہو تو فوری طور پر اس کی مدد کرے، اسے جن دینی یا دنیوی
امور کا علم نہ ہو ان کے بارے میں اس کی رہنمائی کرے۔
سینہ تری سنت کا مدینہ بنے آقا جنت میں پڑوسی مجھے تم
اپنا بنانا
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمسایوں کےحقوق ادا
کرنے کا توفیق عطا فرمائے اور اپنا خوف دے۔

جیسے دنیا میں ماں باپ، بہن بھائی وغیرہ کے حقوق
ہوتے ہیں ویسے ہی پڑوسیوں کے حقوق ہوتے ہیں جیسے ہم اپنے رشتے داروں اور والدین کے
حقوق کا خیال رکھتے ہیں ویسے ہی ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے پڑوسی
چاہے دور کا ہو یا قریب کا۔ قرآن پاک میں بھی پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، جیسا
کہ الله پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء:
36) ترجمہ کنز
العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ احادیثِ مبارکہ
میں بھی پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا، چند ایک احادیث ملاحظہ
ہوں۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن
نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں۔ عرض کی گئی، کون یا رسول الله؟ فرمایا: وہ شخص کہ
اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیفیں دیتا
ہے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)
2۔ جبرائیل مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے
رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں۔ (بخاری، 4/104، حدیث:
6014)
3۔ وہ جنت میں نہیں جائے گا، جس کا پڑوسی اس کی
آفتوں سے امن میں نہیں ہے۔ (مسلم، ص43، حدیث: 46)
4۔ وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کھائے اور اس کا
پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث:3389)
5۔ جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو شوربا زیادہ کرے اور
پڑوسی کو بھی اس میں سے کچھ دے۔ (معجم اوسط، 2/379، حدیث: 3591)
الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی پڑوسیوں کے حقوق
ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہر ایک کے حقوق کو پورا کرنے کا
ہمیں حکم دیا ہے۔ حقوق العباد میں ہمسایوں کے بے شمار حقوق کا قرآن و حدیث میں بار
بار ذکر آیا ہے خود مالک کائنات اللہ کریم ہمسایوں کے بارے میں اپنے لافانی کلام
قرآن مجید میں ارشادفرماتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی
الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز
العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ( کے ساتھ حسن سلوک کرو )۔ مفسرین نے
فرمایا کہ قریب کے پڑوسی سے مراد وہ پڑوسی ہے جو تمہارے مکان کے متصل رہتا ہے اور دورسے
وہ پڑوسی مراد ہے جو تمھارے مکان سے کچھ فاصلہ پر رہتا ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ہمسائے کے حقوق کی ادائیگی کو ایمان
کا حصہ قرار دیا، آئیے ہمسائے کے حقوق کے بارے میں حضور کے ارشادات ملاحظہ
فرمائیے۔
فرامینِ نبوی:
1۔ ہمسائے کو کھانا کھلانا: حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ
وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا جو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں
بھوکا ہو۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث:3389)
2۔ ہمسائے کے شر پر سخت وعید:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا:
اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ہو سکتا! عرض کی گئی: کون یار سول اللہ؟ فرمایا: جس کا پڑوسی
اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)
3۔ ہمسائے کی طرف سے دی گئی چیز کو حقیر
نہ جاننا: فرمایا:
اے مومن خواتین! تم میں سے کوئی ایک بھی اپنی پڑوسن سے آنے والی کسی چیز کو حقیر
نہ سمجھو خواہ وہ بکری کا ایک پایہ ہو۔ (بخاری، 2/165، حدیث: 2566)
4۔ پڑوسی کو تکلیف دینا: جس
نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے
اللہ پاک کو ایذا دی۔(ترغیب و ترہيب، 3/286، حديث:3907)
5۔ پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے: رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی
کو اذیت نہ پہنچائے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث میں پیارے آقا ﷺ نے
پڑوسیوں کے حقوق کو بیان فرمایا، چنانچہ ارشاد فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو اس کی
عیادت کرو اگر موت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو اگر قرض مانگے تو اسے قرض دو
اور اگر عیب دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ (معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)
اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق احسن طریقے سے ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

یادرکھئے! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو
ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی تقاضا کرتی ہے۔ ایک مسلمان جن باتوں کا
مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے۔
پڑوسی کی اقسام: سرکار
دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں: (1) وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے۔
(2) وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں اور (3) وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں۔
مسلمان رشتہ دار پڑوسی کے تین حق ہیں: حقِ پڑوس، حقِ اسلام اور رشتہ داری کا حق۔
مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں: حقِ پڑوس اور حقِ اسلام۔ مشرک پڑوسی کا صرف ایک حق ہے:
حق پڑوس۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560) اس حدیث پاک میں غور کریں تو معلوم ہوتا
ہے کہ حضور ﷺ نے مشرک کے لئے بھی صرف پڑوس کے باعث حق ثابت فرمایا۔ رسول پاک ﷺ نے
پڑوسی کے بہت سارے حقوق بیان فرمائے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
پڑوسیوں کے حقوق:
1۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کر تو (کامل)
مسلمان ہو جائے گا۔(ابن ماجہ، 4/475، حدیث:
4217)
2۔ محبوب رب ذوالجلال ﷺ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو
پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھرارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرو،
اگر تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو، اگر محتاج ہو تو اس کی حاجت پوری کرو، اگر اسے
کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو، اس کی
اجازت کے بغیر اس کے گھرسے اونچا گھر نہ بناؤ کہ اسے ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ
پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کو بھی کچھ بھیجو، اگر
ایسا نہ کر سکو تو چھپا کر لے جاؤ اور اپنے بچوں کو بھی وہ پھل گھر سے باہر نہ
لانے دو کہ پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہنڈیا کی خوشبو
سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے
کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اس ذات کی قسم جس کے
قبضہ قدرت میں میری جان ہے! پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ رحم
فرمائے۔ (شعب الایمان، 7/83،حدیث:9560)
3۔ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا
جائے: حضرت
امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما
کی خدمت میں حاضر تھا، ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ نے فرمایا: اے
غلام! جب تو کھال اتار لے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے
یہ جملہ کئی بار فرمایا۔ غلام نے کہا: آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا: رَسُولُ
الله ﷺ ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں
پڑوسی کو وارث نہ بنادیں۔ (ترمذى، 3/379، حدیث: 1949)
4۔ سالن پکاؤ تو پڑوسی کو بھی کچھ
دو: حضرت
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے وصیت کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا: جب تم ہنڈیا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے کچھ پڑوسیوں
کو دیکھ کر اس میں سے کچھ ان کو دو۔ (مسلم،ص2595، حدیث: 2625)
5۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے
ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا دروازے سے کچھ دور اور بعض اوقات میرے
پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا ان دونوں
میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے
ہے۔ (بخاری، 2/174، حدیث: 2595)
6۔ پڑوسی سے جھگڑا نہ کرو: خلیفہ
اول امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبد الرحمٰن
رضی الله عنہ کو دیکھا کہ وہ اپنے پڑوسی سے جھگڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا: اپنے
پڑوسی سے مت جھگڑو کیونکہ لوگ چلے جاتے ہیں جبکہ یہ بات باقی رہ جاتی ہے۔(کنز العمال،
5/79، حدیث:25599)
7۔ پڑوسی کے گھر کی دیوار کے سائے کا
حق: ابن
مقفع کو یہ خبر ملی کہ اس کا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے
چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے
مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا جب تو میں نے اس کے گھر کے سائے کا بھی حق
ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کا ثمن ادا کیا اور اس سے کہا: گھر
مت بیچو۔(احیاء العلوم، 1/771)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسی کے
ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پڑوسی کے حقوق پورے کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین

اسلام ہمارا کتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں
والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا درس دیتا ہے بلکہ اسلام ہمیں ہمسایوں کے
ساتھ بھی بھلائی اور حسن سلو ک کرنے کا درس دیتا ہے معاشرے میں سب سے پہلا حسن سلوک
کا حق دار پڑوسی ہو تا ہے۔ قرآن کریم میں بھی پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں تاکید
فرمائی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی
الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز
العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ قریب کے پڑوسی
سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے پڑوسی سے مراد وہ ہے
جو محلے دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر کے ساتھ ملا ہوا نہ ہو۔
اب پڑوسیوں
کے چند حقوق ملاحظہ فرمائیں: سلام میں پہل کرے، جب مدد طلب کرے اس کی مدد کرے، جب
قرض مانگے تو قرض دے، اس کی محتاجی کو دور کرے، اس کی خوشی میں شرکت کرے، جو کچھ
وہ اپنے گھر میں لے جارہا ہو اس پر نظر نہ گاڑے، اپنے گھر کی چھت پر سے اس کے گھر
میں مت جھانکے، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جائے، اس کے عیوب پر پردہ ڈالے، جب
اسے مصیبت پہنچے تو اس کی تعزیت کو جائے، جب خوشی پہنچے تو اسے مبارکباد دے، جب
غمی پہنچے تو اس کی غمی میں شریک ہو۔ (احیاء العلوم، 2/ 772)
حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے ان کی خبر گیری
فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور جاتے، اس کی
تدفین کے بعد جب لوگ واپس لوٹ جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر
اس کے حق میں مغفرت کی دعا فرماتے اس کے اہل خانہ کو صبر کی تلقین فرماتے اور ان کو
تسلی دیا کرتے۔ (معین الا رواح، ص 88 )
پڑوسیو ں کے حقو ق کے معاملے میں ہمارے بزرگان دین
کا انداز کس قدر شاندار ہوا کرتا تھا۔ اللہ کریم ہمیں پڑوسیو ں کے حقوق کو احسن
انداز میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کو تکلیف دینے سے بچنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین