ہمسائیگی کو عربی میں ”جوار“ کہا جاتا ہے اور پڑوس کو ”جار“ کہتے ہیں اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خوشگوار اور مطمئن معاشرہ پیدا کرنے کے لیے انسانی زندگی کو کوئی انفرادی اور اجتماعی پہلو ایسا نہ چھوڑا جس سے ہمیں واسطہ نہ پڑتا ہو چنانچہ رہائش اور سکونت کے لحاظ سے سب سے زیادہ واسطہ ہر ایک کو اپنے ہمسائے یعنی پڑوسی سے پڑتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ نے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ( کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ)۔

حدیث شریف میں ہے: جبرائیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے! یہاں تک کہ میں نے خیال کیا کہ وہ اسے وارث ہی بنا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

بہترین پڑوسی کون؟ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کریم کے نزدیک بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوستوں کے لیے اچھا ہو اور اللہ کریم کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے لیے اچھا ثابت ہو۔ (شعب الایمان، 7/83، حدیث: 9560 )

پڑوسی کو تکلیف نہ دیجیے: تاجدارِ رسالت ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو ہرگز تکلیف نہ دے۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 47) مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی اس کو تکلیف دینے کے لیے کوئی کام نہ کرے، کہا جاتا ہے: ہمسایہ اور ماں جایا برابر ہونے چاہئیں۔ افسوس مسلمان یہ باتیں بھول گئے قرآن مجید میں پڑوسی کے حقوق کا ذکر فرمایا، بہرحال پڑوسی کے حقوق بہت ہیں ان کے ادا کی توفیق رب تعالیٰ سے مانگیے۔ (مراۃ المناجیح، 6/53)

مزید پڑوسیوں کے حقوق ملاحظہ فرمائیں: اگر وہ محتاج ہوں تو اسے کچھ دے، بیمار ہو تو عیادت کرے، کوئی خوشی حاصل ہو تو مبارکباد دے، مصیبت پہنچے تو تعزیت کرے، مر جائے تو جنازے میں شریک ہو، بلا اجازت اس کے مکان سے اونچا مکان بنا کر اس کی ہوا نہ روکے، اگر کوئی پھل خرید کر لائے تو کچھ اسے بھی دے۔

ہمسائے کی بکری کو بھی تکلیف نہ دو! حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دن ہمسائے کی بکری گھر میں داخل ہوگئی جب اس نے روٹی اٹھائی تو میں اس کی طرف گئی اور روٹی کو اس کے جبڑے سے کھینچ لیا۔ یہ دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا: تجھے اس کو تکلیف دینا امان نہ دے گا کیونکہ یہ بھی ہمسائے کو تکلیف دینے سے کچھ کم نہیں۔ ( مکارم الاخلاق، ص 395، حدیث: 239)

اللہ کریم ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین