اسلام نے جہاں ماں باپ، عزیز و اقارب، رشتہ داروں اور دوستوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ہمارے گھر کے ساتھ گھر یعنی ہمارے پڑوسیوں کے حقوق بھی ہمیں سکھاتا ہے۔ ہمارے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں سے ملنا تو کبھی کبھار ہوتا ہے مگر ہمارا واسطہ ہمارے پڑوسیوں سے ہر روز ہو ہی جاتا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں جانیں کہ حق پڑوس کیا ہے؟

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب احیاء العلوم جلد 2صفحہ 866پر لکھتے ہیں کہ یا درکھئے! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا، لہذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔

منقول ہے کہ قیامت کے دن فقیر پڑوسی اپنے امیر پڑوسی کا دامن پکڑ کر بارگاہ الہی میں عرض کرے گا: اے میرے رب! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے اپنے حسن سلوک سے کیوں محروم رکھا؟ اور میرے لئے اپنے گھر کا دروازہ کیوں بند کیا؟(مکاشفۃ القوب، ص 579)

پڑوسی کے گھرکی دیوار کے سائے کا حق: ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اس کا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا جب تو میں نے اس کے گھر کے سائے کا بھی حق ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کی قیمت ادا کی اور اس سے کہا گھر مت بیچو! (احیاء العلوم، 1/771)

حقِ پڑوسی کا احساس: کسی بزرگ نے اپنے دوستوں سے گھر میں چوہوں کی کثرت کی شکایت کی تو ان سے کہا گیا: آپ بلی کیوں نہیں لیتے؟ فرمایا: مجھے اس بات کا خوف ہے کہ بلی کی آواز سن کر چوہے پڑوسیوں کے گھروں میں چلے جائیں گے یوں ان کے لئے اس بات کو پسند کرنے والا ہو جاؤں گا جس بات کو اپنی ذات کے لیے پسند نہیں کرتا۔ (احیاء العلوم، 2/771)

سالن پکاؤ تو پڑوسی کو بھی کچھ دو: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: جب تم ہنڈیا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے کچھ پڑوسیوں کو دیکھ کر اس میں سے کچھ ان کو دو۔ (مسلم، ص 1313، حدیث: 2625)

گھر کے قریبی پڑوسی کا حق زیادہ ہے: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے ایک میرے دروازے کے سامنے رہتا ہے اور دوسرا دروازے سے کچھ دور اور بعض اوقات میرے پاس موجود چیز اتنی ہوتی ہے کہ دونوں کو دینے کی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا ان دونوں میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کا دروازہ تمہارے سامنے ہے۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595)

پڑوسی بھوکا نہ سوئے: فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔ (معجم کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عيب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، 19/419، حدیث: 1014)

اخوت و بھائی چارہ: جیسا کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)

ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنا چاہیے جب انہیں مدد کی ضرورت ہو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ان کے دکھ درد تکلیف میں ان کا ساتھ دینا چاہیئے، کیونکہ حقوق العباد تب ہی معاف ہوتے ہیں جب بندہ معاف کرے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقوق العباد اور حقوق اللہ کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین