اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب سے امن و
سلامتی محبت ہمدردی و اخوت، پیار اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا حکم
دیا ہے وہیں ہمارے آس پاس رہنے والے لوگوں کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے یعنی اپنے پڑوسیوں
کا خیال رکھنا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ہے
کیونکہ اگر ایک محلے یا سوسائٹی میں رہتے ہوئے اپنے پڑوسیوں سے نہ ملیں گے یا اچھا
سلوک نہ کریں گے تو اس سے معاشرہ میں خرابیاں پیدا ہوں گی اگر ہم پڑوسیوں سے مل جل
کر رہیں گے تو معاشرہ اچھار ہے گا۔ پڑوسیوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ
5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور
دور کے پڑوسی( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں احادیث مبارکہ
ملاحظہ ہوں۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔ اللہ تین طرح کے لوگوں سے محبت فرماتا ہے (ان
میں سےایک وہ ہے) جس کا برا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اس کے تکلیف دینے پر صبر کرے
یہاں تک کہ اللہ اس کی زندگی یا موت کے ذریعے کفایت فرمائے۔ (معجم کبیر، 2/ 152، حدیث:
1637)
2۔ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر فوت ہو
جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب
دار ہو جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔ ( معجم كبير، 19/ 419، حديث: 1014)
3۔ جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے
تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ایذا دی، نیز جس نے اپنے پڑوسی
سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک
سے لڑائی کی۔ (ترغیب و ترہيب، 3/286، حديث:3907)
4۔ جس کے شر سے اُس کا پڑوسی بےخوف نہ ہو وہ جنت
میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 43، حدیث: 73)
5۔ نبی کریم ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله کی
قسم! وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ! وہ کون ہے ؟ ارشاد
فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/104، حديث: 6016)
درس: پڑوسیوں کے
حقوق کے بارے میں ہم نے احادیث مبارکہ پڑھیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کا
خیال رکھیں ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں اور ان کو کسی قسم کی تکلیف یا پریشانی نہ
دیں۔ الله پاک ہمیں دوسروں کے حقوق پورا کرنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ بالخیر ایمان
پر ہو۔ آمین