ہمسایہ کسے کہتے ہیں؟ چاروں طرف یعنی دائیں بائیں آگے پیچھے چالیس گھر انسان کے ہمسایہ شمار ہوتے ہیں۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس نے ہر ایک کے حقوق کو پورا کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے انہیں میں سے ہمسایوں کے حقوق بھی ہیں جن کا ذکر قرآن و احادیث میں آیا ہے، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ( کے ساتھ اچھا سلوک کرو)۔

پڑوسیوں کے حقوق: احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں پڑوسیوں کے حقوق ملاحظہ فرمائیں:

1۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے الله کے رسول ﷺ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کا گھر تمہارے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ (بخاری، 2/173، حدیث: 2595) چنانچہ وہ پڑوسی جس کا گھر آپ کے گھر سے متصل ہو یقیناً اس کا حق اس پڑوسی سے زیادہ ہے جس کا گھر آپ کے گھر سے کچھ دوری پر ہو۔

2۔ آقا ﷺ نے تین بار ارشاد فرمایا: الله پاک کی قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یا رسول الله وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔ (بخاری، 4/ 104، حدیث: 6016)

3۔ اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسول الله ﷺ نے کسی شخص کے کامل مومن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آقا ﷺ سے عرض کی: یا رسول الله! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں، تو آپ نے فرمایا: نیک بن جاؤ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نیک بن جانے کا علم کیسے ہوگا؟ ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسی سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہیں تو تم نیک ہو اور اگر وہ بُرا کہیں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان، 7/85، حدیث:9567)

3۔ آقا ﷺ نے پڑوسی کے حقوق بیان فرماتے ہوئے فرمایا: اگر وہ بیمار ہو تو اسکی عیادت کرو، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائے تو اسکی پردہ پوشی کرو۔ (معجم کبیر، 19/419، حدیث:1014)

4۔ آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے شر سے اسکا پڑوسی بے خوف نہ ہو وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص43، حدیث:73)

الغرض اسلام نے جہاں ہمیں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر رشتہ داروں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا درس دیا اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ایک ایسا مدنی معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں پر ہر کوئی ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ الله پاک ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین