ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے، اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت امن وسلامتی کی تعلیم دی ہے۔ وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے اسلامی بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ انکی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر گھر ایک دوسرے کے جان ومال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ (پ 5، النساء: 36) ترجمہ کنز العرفان: قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی (کے ساتھ بھلائی کرو)۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل مجھ کو پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔ (بخاری، 4/104، حدیث: 6014)

پڑوسیوں کے حقوق: اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔

حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ پڑوسیوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب تمہارے پڑوسیوں پرکوئی مشکل وقت آئے تو ان کا ساتھ دو۔ خوشی میں ان کو مبارکباد دو۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کرو۔ دین ودنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو تو اس میں ان کی رہنمائی کرو۔ ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرو۔ مصیبت کے وقت ان کی غم خواری کرو۔ (احیاء العلوم، 2/772)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے پڑوسی کو ایذا دی بے شک اس نے مجھے ایذا دی جس نے اپنے پڑوسی سے جھگڑا کیا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بےشک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کى۔ ( کنزالعمال، 5/25، حدیث:24922)

ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! فلاں عورت کی بات اس کی نماز صدقہ روزوں کی کثرت کی وجہ سے کی جاتی ہے، مگر وہ اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے تو رسول ﷺ نے فرمایا: وہ عورت جہنمی ہے۔ پھرعرض کی گئی: یا رسول الله! فلاں عورت نماز روزے کی کمی اور پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرنے کے باعث پہنچانی جاتی ہے مگر وہ پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ عورت جنتی ہے۔ (مسند امام احمد، 3/441، رقم: 9681)

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھتے ان کی خبر گیری فرماتے اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہو جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہو کر اس کے حق میں مغفرت و نجات کی دعا کرتے اور ان کےگھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے اور ان کو تسلی دیا کرتے۔ (معین الارواح، ص 188)

پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے، کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری یہ ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے۔ (احیاء العلوم، 2/267)

پڑوسیوں کو تکلیف دینے کے سبب بندہ جنت سے محروم ہو کر جہنم کا حقدار قرار پاتا ہے۔ آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ جیسے ہمارے بزرگان دین کا انداز تھا پڑوسیوں کے حقوق کے معاملے میں ہمیں بھی ویسا ہی انداز اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین