مخلصین کی مختلف اقسام ہیں:(1) ایک وہ جو اللہ پاک کے خوف سے اس کی عبادت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔(2) ایک وہ جو جنت و ثواب کی حرص میں رب ذوالجلال کی ریاضت و عبادت کرتے ہیں۔ (3) ایک وہ جو اللہ پاک سے حیاء کرتے ہوئے اُس "وحدہ لا شریک" کی بندگی کرتے ہیں کہ وہ ذات ہے ہی اس لائق کہ اگر جنت، دوزخ نہ بھی ہوں پھر بھی اسی کی عبادت، ریاضت و فرمانبرداری کی جائے۔

آخری طبقہ اگر چہ افضل ہے! لیکن تینوں ہی طبقات رب العالمین کے نیک بندے، مخلصین اور مقربین ہوتے ہیں۔

انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسّلام تو أئمّۃ المخلصین ہیں، مگر اللہ پاک نے ہر نبی کو جدا جدا خصوصیات سے مزین فرمایا ہے۔کسی کو "کلیم اللہ" کسی کو "روح اللہ" تو کسی کو "خلیل اللہ" بنایا، اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی، آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو "حبیب اللہ" بنایا جو کہ سب سے اعلی و ارفع مقام ہے۔

آئیے ان مبارک ہستیوں میں سے ایک ہستی جو کہ آخری طبقے کے مقتدا ہیں، اولو العزم انبیاء علیہم السّلام میں شامل ہیں "اللہ کے خلیل" تمام انبیاء علیہم السّلام میں "حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ" سب سے افضل ہیں، حضرت سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسّلام" کی چند صفات کا قراٰن کریم سے ذکر کرتے ہیں۔

آپ خلیل اللہ ہیں: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النساء : 125 )علامہ نسفی نے فرمایا: ایک حدیث میں ہے کہ اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل اس وجہ سے بنایا، کہ آپ کھانا کھلاتے، سلام عام کرتے اور رات کو نماز پڑھتے تھے جب کہ لوگ سو رہے ہوتے تھے۔ (تفسیرمدارک(نسفی)پارہ5سورہ نسآء،تحت الآیۃ)

آپ کو رب نے لوگوں کا پیشوا بنایا: یوں تو سارے ہی انبیاء علیہم السّلام متوکلین ہوتے ہیں لیکن آپ کا اللہ پر توکل بے مثال تھا۔ آپ پر اللہ کی طرف سے کئی آزمائشیں آئیں "آپ کو آگ میں ڈالا گیا۔ "آپ کو حکم ہوا کہ زوجہ اور اپنے فرزند کو ریگستان ویرانے میں تنہا چھوڑ آئیں۔ پھر جب وہ فرزند آپ کے ساتھ کچھ کام کرنے کی عمر کو پہنچیں تو اللہ نے فرمایا کہ انہیں ہماری راہ میں ذبح کر دو۔

مگر! آپ ہر ہر آزمائش میں پورا اترے، رب فرماتا ہے: ﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ: 124)اس کی تفسیر میں مفتی قاسم دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: یہاں امامت سے مراد نبوت نہیں۔ کیونکہ نبوت تو پہلے ہی مل چکی تھی۔ تب ہی تو آپ کا امتحان لیا گیا بلکہ اس امامت سے مراد دینی پیشوائی ہے۔(صراط الجنان)

اللہ کی راہ میں بیٹا قربان: آٹھ ذوالحجۃ کو ابراہیم علیہ السّلام نے خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے: ”بے شک اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنا بیٹا قربان کر دو !“ آپ ملک شام سے براق پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے پاس مکہ مکرمہ پہنچے، حضرت ہاجرہ سے فرمایا ،کہ اسماعیل کو تیار کرو کہ "دعوۃ الی اللہ" میں جانا ہے، شیطان نے قسم کھائی کہ میں آل ابراہیم میں سے کسی نہ کسی ایک کو ضرور فتنے میں ڈالوں گا، چنانچہ شیطان انسانی شکل میں اولاً ہاجرہ رضی اللہ عنہا پھر اسماعیل علیہ السّلام پھر ابراہیم علیہ السّلام کے پاس آیا مگر ہر بارگاہ سے دھتکار دیا گیا اور ابراہیم علیہ السّلام نے اس کو پہچان کر فرمایا: مجھ سے دور ہو جا اے اللہ کے دشمن! اللہ کی قسم! میں ضرور اپنے رب کا حکم پورا کروں گا۔ (حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور سنت ابراہیمی، ص 65،66،67،ملخصاً)

اس واقعے کو اللہ پاک نے "سورۃُ الصّٰفّٰت " میں ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا: ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲) فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا توابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ تو جب ان دونوں نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اس وقت کا حال نہ پوچھ)۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 103،102 )

سبحان اللہ! اللہ پاک ہمیں بھی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے صدقے دین کی راہ میں اپنی جان و مال قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمین۔

تمام اچھی خصلتوں کے مالک: آپ ہر اچھی خصلت کے مالک اور ہر باطن سے جدا تھے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم تمام اچھی خصلتوں کے مالک (یا) ایک پیشوا ، اللہ کے فرمانبردار اور ہر باطل سے جدا تھے ۔ (پ14 ،النحل:120)

اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں اللہ پاک نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے 9 اَوصافِ حمیدہ بیان فرمائے ہیں ۔ (1) حضرت ابراہیم علیہ السّلام تمام اچھی خصلتوں اور پسندیدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ (2) اللہ پاک کے فرمانبردار تھے۔ (3) دین ِاسلام پر قائم تھے۔ (4) مشرک نہ تھے۔ کفارِ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ،اس میں ان کفار کے اس نظریے کا رد ہے ۔ (5) اللہ پاک کے احسانات پر شکر کرنے والے تھے۔ (6) اللہ پاک نے انہیں اپنی نبوت و خُلَّت کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ (7) انہیں سیدھے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف ہدایت دی تھی۔ (8) دنیا میں بھی انہیں بھلائی دی گئی۔ اس سے مراد رسالت، اَموال، اولاد ،اچھی تعریف اور قبولیتِ عامہ ہے کہ تمام اَدیان والے مسلمان، یہودی ، عیسائی اور عرب کے مشرکین سب اُن کی عظمت بیان کرتے اور اُن سے محبت رکھتے ہیں ۔ (9) آخرت میں قرب والے بندوں میں سے ہوں گے۔(صراط الجنان،پارہ14،سورۃ النحل،آیۃ120)

آپ علیہ السّلام بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے ہیں: جب اللہ کی طرف سے آپ کو "بیت اللہ" کی تعمیر کا حکم ہوا تو آپ ملک شام سے مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لائے تو آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے تیر ٹھیک کرتے ہوئے پایا، اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے والد کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور جذبات سے بھرپور انداز میں اپنے والد سے ملاقات کی، کچھ گفتگو ہوئی، حال احوال پوچھے، پھر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا، کہ رب نے مجھے "بیت اللہ" کی تعمیر کا حکم ارشاد فرمایا ہے کیا آپ میری مدد کریں گے؟ آپ نے عرض کی جی ہاں! ضرور، پھر دونوں نے مل کر "بیت اللہ" تعمیر کیا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب اٹھاتاتھا ابراہیم اس گھر کی نیویں (بنیادیں)اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بےشک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ 1، البقرۃ: 127)

اس سے پتا چلا کہ مسجدیں تعمیر کرنا انبیا علیہم السّلام کی سنت مبارکہ ہے خود ہمارے پیارے آقا، اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے "مسجد قباء" کی تعمیر کی اور کروائی۔ اللہ پاک توفیق دے، جس سے بن پڑے تو کم از کم ایک مسجد تو ہمیں تعمیر کرنے کی نیت کرنی چاہیے! ورنہ ہم عاشقانِ رسول کے ساتھ تعمیر میں حصہ تو لیں ہی سکتیں ہیں، اللہ پاک ہمیں صدقہ و خیرات کرنے والا دل عطا فرمائے اٰمین ۔

آپ کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مصلّٰی بنایا گیا: کعبہ مشرفہ کی تعمیر کرتے ہوئے آپ جس پتھر پر کھڑے ہوئے، اس پتھر کے قریب نماز پڑھنے کا اللہ پاک نے حکم ارشاد فرمایا، ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور (اے مسلمانو!)تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(پ1،البقرۃ:125)

اللہ پاک ہمیں ابراہیم علیہ السّلام کے اخلاص کے صدقے میں مخلصین میں شامل فرمائے، ہمیں صبر قناعت اور توکل کی دولت عطا فرمائے، یا اللہ ہم سے اپنے پیارے نبی ابراہیم علیہ السّلام کے صدقے بغیر کسی آزمائش و امتحان کے راضی ہو جا، کیونکہ ہم امتحان کے قابل نہیں۔

امتحاں کے کہاں قابِل ہوں میں پیارے اللہ

بے سبب بخش دے مولیٰ ترا کیا جاتا ہے۔(وسائلِ بخشش)


انبیائے کرام علیہمُ السّلام اللہ پاک کے چنے ہوئے اور معصوم بندے ہیں ،جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّاۤ اَخْلَصْنٰهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِۚ(۴۶) ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک ہم نے انہیں ایک کھری بات سے چن لیا وہ اس(آخرت کے) گھر کی یاد ہے۔(پ23،صٓ: 46)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جو اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے ہیں شیطان انہیں گمراہ نہیں کر سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیائےکرام علیہمُ السّلام پر شیطان کا وار نہیں چلتا کہ وہ ان سے گناہ یا کفر کرا دے۔ صراط الجنا ن میں ہے : انبیائے کرام علیہمُ السّلام فرشتوں سے افضل ہیں اور جب فرشتوں سے گناہ صادر نہیں ہوتا تو ضروری ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے بھی گناہ صادر نہ ہو کیونکہ اگر انبیائے کرام علیہمُ السّلام سے بھی گناہ صادر ہو تو وہ فرشتوں سے افضل نہیں رہیں گے۔ (صراط الجنان،1/107) انہیں انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے ایک بہت ہی اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہیں جن کے قراٰنی اوصاف کا تذکرہ کیا جائے گا۔ آپ علیہ السّلام بہت اعلی و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں اللہ پاک نے قراٰن میں کئی مقامات پر بیان کیا ہے ۔

(1)کامل ایمان والے : آپ علیہ السّلام اللہ پاک کے انتہائی کامل الایمان بندے تھے ۔ جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا ۔ پارہ نمبر 23 سورة الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 111 میں فرمایا: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(2)صدیق اور نبی: آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا ۔ پارہ نمبر 16 سورہ طہ کی آیت نمبر 41 میں فرمایا : ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(3)اپنے رب کا حکم پورا کرنے والے: آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے خود ارشاد فرمایا ۔ پارہ نمبر 27 سورۃُ النجم کی آیت نمبر 37 میں فرمایا: ﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ابراہیم کے جس نے (احکام کو) پوری طرح ادا کیا۔ (پ27،النجم: 37)

(4)عقل سلیم اور رشد و ہدایت والے: اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بچپن میں ہی عقل سلیم اور رشد و ہدایت سے نواز دیا۔ارشاد باری ہے: ﴿ وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے۔(پ17 ، الانبیآء : 51)

(5)خلیل اللہ: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل بنایا۔ ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النسآء : 125 )

اللہ پاک ہمیں اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہونے اور مبارک زندگی کے مختلف گوشوں سے علم عمل کے موتی چننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین


حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولو العزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں، آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا اس لیے آپ کو خلیل اللہ کہا جاتا ہے اور آپ کے بعد والے تمام انبیاء و رسل علیہ السّلام آپ ہی کی نسل سے ہوئے، اسی اعتبار سے آپ کا لقب " ابو الانبیاء " بھی ہے۔ آپ علیہ السّلام کی قوم ستاروں اور جنوں کی پجاری تھی، چچا آزر بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیو پاری تھا، دوسری طرف بادشاہِ وقت نمرود بھی خدائی کا دعوی کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔ آپ علیہ السّلام نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ خوبصورت اور آسان فہم دلائل سے سمجھایا کہ اللہ ہی معبود اور خالق و قادر ہے جبکہ بت بے بس و لاچار ہیں، ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے لئے ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام نے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی گئے۔ قراٰن و حدیث اور دیگر کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرت پاک کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔( سیرتِ انبیاء ، ص256)

آپ کا تعارف :نام مبارک : آپ علیہ السّلام کا مشہور نام ابراہیم ہے جو اَبٌ رَحِیمٌ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں ”مہربان باپ آپ علیہ السّلام چونکہ بہت مہربان تھے جیسا کہ آپ کی سیرت میں اس کی مثالیں بکثرت نظر آتی ہیں ، یو نہی آپ علیہ السّلام مہمان نوازی اور رحم و کرم میں مشہور ہیں اس لیے آپ کو " ابراہیم " کہا جاتا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں مختلف مقامات پر آپ علیہ السّلام کا نام ابرام ، ابراہم، ابرہم، بر اہم اور براہمہ مذکور ہے، یہ تمام الفاظ ابراہیم ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ (سیرتُ الانبیاء، ص257)

اوصاف: آپ علیہ السّلام بہت اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں بھی کئی مقامات پر کی جگہ ذکر کیا ہیں ہے یہاں آپ علیہ السّلام کے 14 اوصاف ذکر کی جائیں گے۔

(1) آپ علیہ السّلام رب کریم کے انتہائی کامل الایمان بندے تھے ۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(3،2) آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے۔ ارشاد باری ہے۔ ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

یہاں ایک اہم بات قابل توجہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص، بیان کرنے میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی تفہیم ہوجائے جنہیں چند واقعات کی بِنا پر شبہ ہوتا ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام ان مواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا ۔

امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سورت کا (بنیادی) مقصد توحید، رسالت اور حشر کو بیان کرنا ہے اور توحید کا انکار کرنے والے وہ لوگ تھے جو اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو(اپنا) معبود مانتے تھے، پھر ان لوگوں کے بھی دو گروہ تھے، ایک گروہ زندہ اور عقل و فہم رکھنے والے انسان کو معبود مانتا تھا اور یہ عیسائیوں کا گروہ ہے، اور ایک گروہ بے جان اور عقل و فہم نہ رکھنے والی جَمادات کو معبود مانتا تھا اور یہ بتوں کے پجاریوں کا گروہ ہے اور یہ دونوں گروہ اگرچہ گمراہی میں مُشترک تھے لیکن دوسرا گروہ (پہلے کے مقابلے میں) زیادہ گمراہ تھا، چنانچہ اس سے پہلی آیات میں اللہ پاک نے پہلے گروہ کی گمراہی بیان فرمائی اور اب یہاں سے دوسرے گروہ کی گمراہی بیان فرما رہا ہے۔ چنانچہ جب حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کے واقعے کا اختتام ہوا تو گویا کہ ارشاد فرمایا :

اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ نے حضرت زکریا علیہ السّلام کا حال ذکر کردیا اور اب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حال بیان کریں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حال بیان کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام لوگ اس بات سے واقف تھے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ کی قوم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کتابوں کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے لکھنے میں مشغول نہ تھے تو جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ واقعہ کسی کمی زیادتی کے بغیر جیسا واقع ہوا تھا ویسا ہی بیان کر دیا تو یہ غیب کی خبر ہوئی اور سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم(کاغیب کی خبر دینا آپ) کی نبوت کی دلیل اور آپ کا معجزہ ہوا۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 7 / 541)

یہاں بطورِ خاص حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا واقعہ بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب کے مشرکین اپنے آپ کو مِلّتِ ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے، اس میں انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ اگر تم ملت ابراہیمی کے پیروکار ہو تو بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام تو بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو اللہ پاک کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے۔ اگر تم ملت ابراہیمی پر قائم ہو تو ان کے دین کو اپناؤ اور بت پرستی چھوڑو۔

آیت کے اس حصے میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صِفات بیان کی جارہی ہیں کہ آپ علیہ السّلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔ بعض مفسرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں کثیرُ التَّصدیق یعنی جو اللہ پاک اور اس کی وحدانیت کی، اس کے انبیا اور اس کے رسولوں علیہم السّلام کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور اَحکامِ الٰہیہ بجالائے وہ صدّیق ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 3/ 236)

یاد رہے کہ آپ علیہ السّلام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے کی یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ بعض لوگوں کو چند واقعات کی وجہ سے شُبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا کلام ان مَواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا۔ ان کی تفہیم کیلئے بطورِ خاص آپ علیہ السّلام کو سچا فرمایا گیا۔

مقامِ صدّیق اور مقامِ نبوت میں فرق: یہاں آیت کی مناسبت سے صدیق اور نبی میں اور صدیق اور ولی میں فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ہر نبی صدیق ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر صدیق نبی نہیں ،اسی طرح) ہر صدیق ولی ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر ولی صدیق نہیں ) کیونکہ صِدِّیْقِیَّت کا مرتبہ نبوت کے مرتبے کے نیچے (اور ا س کے قریب ) ہے۔( صاوی، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 4/ 1237)

اس سے معلوم ہوا کہ اَنبیاء اور رُسُل علیہمُ السّلام کے بعد انسانوں میں سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کا ہے کیونکہ آپ رضی اللہُ عنہ اَنبیاء اور رُسُل علیہمُ السّلام کے بعد صدیقیت کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔

(4 تا 9) آپ علیہ السّلام بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، تمام لوگوں کے پیشوا ہیں، ہر حکم الہی پر سر ِتسلیم خم کرنے والے تھے ، ہر باطل سے جدا اور حق کی طرف یکسو تھے، شرک و باطل سے پاک اور دور تھے ، انعامات الٰہیہ پر شکر کرنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ(۱۲۲) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122) اور ارشاد فرمایا : ﴿ مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے اور مشرکوں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

(10) آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ(۳۶) وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا اُسے اس کی خبر نہ آئی جو صحیفوں میں ہے موسیٰ کے اور ابراہیم کے جو احکام پورے بجالایا۔(پ27،النجم: 37،36)

(11تا14) آپ علیہ السّلام بڑے تحمل والے ، اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے ، اس کی بارگاہ میں بہت آہ و زاری کرنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(15) اور ارشاد باری ہے : ﴿ وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ- اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کر چکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا بےشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمّل ہے۔ (پ11، التوبۃ:114)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص ذوالبجادین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ’’ اَوَّاہْ ‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قراٰنِ مجید کی تلاوت اور دعا کے ذریعے کثرت سے اللہ پاک کا ذکر کیا کرتے تھے۔ (معجم الکبیر، باب العین، علی بن رباح عن عقبۃ بن عامر، 17 / 295، حدیث: 813)

حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بے شک آدمی حِلم کے ذریعے روزہ دار عبادت گزار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، 4/ 369، حدیث: 6273)

حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حلیم شخص دنیا میں سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سردار ہو گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحلم والاناء، 2 / 55، حدیث: 5807، الجزء الثالث) اللہ پاک ہمیں بھی ان صِفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


پچھلی مرتبہ ہم نے حضرت زکریا علیہ السّلام کی صفات کا مطالعہ کیا تھا، جو قراٰن مجید میں مذکور ہیں۔ اس مرتبہ ہم ان صفاتِ ابراہیم علیہ السّلام کا مطالعہ کریں گے جن کو اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰن مجید میں ذکر فرمایا ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

(1تا9) تمام اچھی خوبیوں کے مالک، تمام لوگوں کے رہنما، اللہ پاک کے مطیع و فرمانبردار، ہر باطل سے جدا یعنی یہودی نہ نصرانی اور نہ ہی مشرک ، اللہ پاک کے بہت شکر گزار، اللہ پاک نے نبوت و خلّت کے لیے منتخب فرمایا، صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت یافتہ ، دنیا میں بھلائی والے اور آخرت میں بھی قربِ الٰہی پانے والوں میں سے ہونگے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ (۱۲۲) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122)

(11، 12) خوب بارگاہِ الٰہی میں رونے والے اور برے سلوک پر برداشت کرنے والے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے:﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)

(13، 14) بہت صبر کرنے والے اور رجوع فرمانے والے: فرمانِ باری ہے : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ، بہت آہیں بھرنے والا، رجوع کرنے والا ہے۔ (پ12، ھود:75)

(15، 16) صدیق اور نبی: ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔ (پ16، مریم:41)

(17) اعلٰی درجے کے ایمان والوں میں سے ہیں ، فرمانِ خداوندی ہے : ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

مذکورہ صفاتِ ابراہیمی امتِ مسلمہ کے لیے صراطِ مستقیم ہیں۔ ہر مؤمن کو چاہیے کہ وہ ان تمام صفات کو اپنانے کی کوشش کرے جو اسے اعلٰی درجے کے ایمان والوں میں داخل کرے اور رب کریم کی بارگاہ میں سرخرو و سرفراز کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اچھی صفات اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین


حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولوالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا ۔ اور آپ علیہ السّلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ کے بعد سب سے بڑا مرتبہ ملا جیسا کہ بہار شریعت ج 1 ص 52 پر ہے۔

نبیوں کے مختلف درجے ہیں بعض کو بعض پر فضیلت ہے اور سب میں افضل ہمارے آقا و مولیٰ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کا ہے ۔ اور آپ کے بعد والے تمام انبیا و رسل علیہم السّلام آپ ہی کی نسل سے ہوئے اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔ (پ20،العنکبوت:27) یہی وجہ ہے کہ آپ کا لقب ابو الانبیآ بھی ہے آپ علیہ السّلام کی قوم ستاروں اور بتوں کی پوجا کرتی خود آپ کے چچا آزر بھی بتوں کا پجاری اور بیوپار تھا دوسری طرف نمرود بھی خدائی کا دعوی کر رہا تھا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ و نصیحت کی اور بتایا کہ بت بے بس و لاچار ہیں ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے لئے ایک مرتبہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ قراٰن مقدس میں اللہ پاک نے بہت سے مقامات پر آپ کے اوصاف بیان فرمائے ہیں جس میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں:

(1) کامل ایمان والے: ﴿ ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰٓفّٰت :111)

(2، 3) آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

(4تا6)آپ علیہ السّلام تحمل، آہ و زاری ، اور رجوع کرنے والے تھے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(7) آپ علیہ السّلام کی عقل و ذہانت:﴿وَ لَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ رُشْدَهٗ مِنْ قَبْلُ وَ كُنَّا بِهٖ عٰلِمِیْنَۚ(۵۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی اس کی سمجھداری دیدی تھی اور ہم ا سے جانتے تھے۔(پ17 ، الانبیآ : 51)

(8، 9) آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے نبوت و ہدایت عطا فرمائی:﴿اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ ( پ 14،النحل: 121 )

(10)آپ علیہ السّلام کو اپنا خلیل بنایا: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النساء : 125 )

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرت مبارکہ کے کچھ اوصاف جیسے تحمل، اللہ کی بارگاہ میں آہ و زاری کرنے والے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم تحمل سے کام لیں زیادہ سے زیادہ اللہ کی بارگاہ میں گر یہ وزاری کریں۔ اور ہر معاملات میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا بنیں۔ اللہ پاک ہمیں ان اوصاف پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔


یوں تو سبھی انبیا و مرسلین علیہم السّلام راہِ حق کی طرف دعوت دینے والے اور تکالیف پر صبر و ہمت کا مظاہرہ کرنے والے تھے البتہ اس مقدس جماعت میں کچھ انبیا علیہم السّلام وہ بھی ہیں جو اس راہ میں دیگر انبیا علیہم السّلام سے زیادہ آزمائے گئے انہیں اولوا العزم رسول بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ہیں جن کے اوصاف و کمالات کے تذکرہ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں متعدد مقام پر کیا ہے۔ قراٰنِ پاک میں بیان ہوئے اوصاف میں سے گیارہ وصف پیش خدمت ہے ۔

(2،1)سچ گو اور نبوت والے : ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

(3) اللہ پاک کے خلیل : ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النساء : 125 )

(4) اللہ پاک نے آپ کو اپنا برگزیدہ بندہ بنایا:﴿ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَاۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک ضرور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا۔ ( پ 1 ، البقرۃ : 130 )

(5) اللہ پاک آخرت میں خاص قرب عطا فرما ئیگا:﴿ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک وہ آخرت میں ہمارے خاص قرب کی قابلیت والوں میں ہے۔ ( پ 1 ، البقرۃ : 130)

(6تا8) تحمل والے، بہت آہیں بھرنے والے اور رجوع لانے والے:﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ (۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(9تا 11)اچھی خصلتوں کے مالک، اللہ پاک کے فرمانبردار، ہر باطل سے جدا ،احسانات پر شکر کرنے والے۔ ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمان بردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ ( پ 14،النحل: 120، 121 )

پیارے اسلامی بھائیو! حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل نبی ہیں اور آپ کے بعد تمام انبیائے کرام علیہم السّلام آپ کی ہی اولاد سے ہے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔ (پ20، العنکبوت: 27) آپ کو اتنا بڑا شرف ملنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ نے اللہ پاک کی راہ میں مشقتوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ پاک کی راہ میں کام کرتے رہیں اور اس کی راہ میں پہنچنے والی مشقتوں سے ہمت نہ ہارے کہ بلند مرتبے آزمائشوں کے بعد ملتے ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کو دینِ متین کی خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں ترقی عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


رب كائنات نے لوگوں کے رشد و ہدايت کے لئے مختلف انبيا و رُسُل کو مبعوث فرمایا۔ يوں تو ہر نبی و رُ سُل كو الله رب العالمين نے اعلی صفات سے متصف فرمایا ہی ہے۔ انہی انبیا میں سے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا نام سر فہرست بھی ہے۔ آپ کا ذکرِ خیر قراٰن مقدس میں متعدد جگہوں پر آیا ہے جیسے سورہ بقرہ ،سورہ ہود، سورہ مریم، سورہ انبیآ، سورہ عنکبوت وغیرہ ۔ آپ کے القابات بے شمار جیسے ابو الانبیا، خلیلُ الله وغیرہ ہے۔

آپ اولوالعزم میں سے ہے: آپ کی پیاری پیاری اداؤں کو الله رب العلمين نے امتِ محمدیہ میں ایک فرض رکنیت قرار دیا ہے۔ جسے مناسک حج کے افعال، آپ کی اپنے بیٹے کی عظیم قربانی رب کی بارگاہ میں پیش کرنا، الله پاک اس کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ قیامت تک اہل ثروت پر واجب قرار دیا۔ اس کی تائید میں ایک حدیث پاک عرض کرتا ہوں۔ مشکو ۃ شریف کی حدیث ہے: وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا رَسُولَ اللهِ مَا هٰذِهِ الْأَضَاحِيُّ؟ قَالَ: سُنَّةُ أَبِيْكُمْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السّلام قَالُوا: فَمَا لَنَا فِيهَا يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ: بِكُلِّ شَعْرَةٍ حَسَنَةٌ . قَالُوا: فَالصُّوفُ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ: بِكُلِّ شَعْرَةٍ مِنَ الصُّوفِ حَسَنَةٌ رَوَاهُ أَحْمدُ وَابْنُ مَاجَه روایت ہے حضرت زید ابن ارقم سے فرماتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ نے عرض کیا یا رسول الله یہ قربانیاں کیا ہیں ؟فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السّلام کی سنت عرض کیا کہ ان میں ہمیں کیا ملے گا فرمایا ہر بال کے عوض نیکی۔ عرض کیا کہ اون یا رسول الله؟ تو فرمایا کہ اون کے ہر بال کے عوض نیکی ۔

آپ علیہ السّلام حسن اخلاق کے پیکر تھے اور آپ علیہ السّلام زہد و تقوی کی اعلی مثال تھے۔ آپ کے اندر توکل کا مادہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ آپ علیہ السّلام کی سخاوت بڑی بے مثالی ہے چنانچہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الله پاک نے جبریل علیہ السّلام کو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پاس بھیجا اور کہا اے ابراہیم علیہ السّلام ہم نے تم کو خلیل اس لئے نہیں بنایا کہ تم سب سے زیادہ عبادت گزار ہو بلکہ اس لئے خلیل بنایا کہ تمہارا دل مؤمنوں کے دلو ں میں زیادہ سخی ہے۔

آپ علیہ السّلام کی مہمان نوازی بہت مشہور ہے۔ جس کی وجہ سے آپ کا لقب" ابو ضیفان "بہت بڑامہمان نواز ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ قرار قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے سب سے پہلے لوگوں کی مہمان نوازی فرمائی وہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ذات اقدس ہے۔ آپ علیہ السّلام الله پاک کا کثرت سے ذکر فر ما یا کرتے۔ خالد بن معدان فرماتے ہیں آپ علیہ السّلام کے سامنے جب انگور کا برتن پیش کیا جاتا تو آپ علیہ السّلام ہر ہر دانہ کو کھاتے وقت الله پاک کا ذکر کیا کرتے۔

نوٹ: یہ ”سیرت انبیاء“ علیہم السّلام کی کتاب سے اخذ کیا ہے۔


قراٰن کریم میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بہت سارے صفات بیان ہوئے ہیں۔ جیسا کہ آپ علیہ السّلام تمام امتحانوں میں پورا اترے اور اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو لوگوں کا پیشوا بنا دیا، اللہ پاک نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل بنایا۔ چنانچہ پارہ پانچ سورۃ النساء کی اٰیَت نمبر 125 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔( پ 5 ، النساء : 125 ) آپ علیہ السّلام انبیائے کرام علیہم السّلام کے باپ ہوئے، تمام دینوں میں آپ علیہ السّلام کا تذکرہ ہوا، سب کے نزدیک محبوب ہوئے۔ اسی طرح قراٰن کریم میں آپ علیہ السّلام کے اور بھی کئی سارے صفات بیان ہوئے ہیں انہیں میں سے پانچ یہ ہیں۔

(1) آپ علیہ السّلام کا دین ہر باطل سے جدا ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا: ﴿ وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس سے بہتر کس کا دین جس نے اپنا منہ اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ نیکی والا ہے اور ابراہیم کے دین پر چلا جو ہر باطل سے جدا تھا ۔( پ 5 ، النسآء : 125 )

(2) آپ علیہ السّلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بنایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ ۔(پ1،البقرۃ:125) مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی اور اس میں آپ کے قدم مبارک کا نشان تھا، اسے نماز کا مقام بنانا مستحب ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس نماز سے‌‌ طواف کے بعد پڑھی جانے والی دو واجب رکعتیں مراد ہیں۔(بیضاوی، البقرہ، تحت الاٰيۃ: 125 ،1 /398-399)

(3) آپ علیہ السّلام پر آگ ٹھنڈی ہو گئی: اللہ پاک پارہ 21 سورۃ الانبیآ ءکی اٰیت نمبر 69 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَۙ(۶۹) ﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: ہم نے فرمایا اے آ گ ہو جا ٹھنڈی اور سلامتی ابراہیم پر۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ پاک نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔ چنانچہ آگ کی گرمی زائل ہو گئی اور روشنی باقی رہی اور اس نے ان رسیوں کے سوا اور کچھ نہ جلایا جن سے آپ علیہ السّلام کو باندھا گیا تھا۔(جلالین، الانبیآء، تحت الاٰيۃ:69، ص274)

(4) آپ علیہ السّلام ہمت والے رسولوں میں سے ہیں: یوں تو سبھی انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ و السّلام ہمّت والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف پر صبر و ہمت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے البتہ ان کی مقدس جماعت میں سے پانچ رسول ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر اور مجاہدہ دیگر انبیاء و مرسلین علیہم الصلوٰۃ والسّلام سے زیادہ ہے اس لئے انہیں بطور خاص " الوا العزم رسول" کہا جاتا ہے اور جب بھی "الوا العزم رسول" کہا جائے تو ان سے یہی پانچوں رسول مراد ہوتے ہیں اور وہ یہ ہیں:(1) حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم(2) حضرت ابراہیم علیہ السّلام(3) حضرت موسیٰ علیہ السّلام(4) حضرت عیسیٰ علیہ السّلام(5) حضرت نوح علیہ السّلام۔(صراط الجنان، پ 26، تحت الاٰيۃ:35)

(5) آپ علیہ السّلام نے بھی خانہ کعبہ کی تعمیر فرمائی: پہلی مرتبہ خانہ کعبہ کی بنیاد حضرت آدم علیہ السّلام نے رکھی اور طوفانِ نوح کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمایا۔ یہ تعمیر خاص آپ علیہ السّلام کے دستِ مبارک سے ہوئی، اس کے لئے پتھر اٹھا کر لانے کی خدمت و سعادت حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو میسر ہوئی، دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یارب! ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔ علامہ قسطلانی رحمۃُ اللہ علیہ نے بخاری کی شرح میں تحریر فرمایا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر دس مرتبہ کی گئی۔(ارشاد الساری، کتاب الحج، باب فضل مکۃوبنیانھا---الخ،4/103، تحت الحدیث:1582)

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو اٰمین بجاہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو مبعوث فرمایا تو انہیں ایسی صفات سے ممتاز فرمایا کہ کوئی ان پر اعتراض نہ کرسکے، انہیں اپنے قُربِ خاص سے نوازا، ان انبیا و رُسل میں سے پانچ اُولُو الْعَزْم رسول ہیں جن کا مرتبہ دیگر انبیا اور رسولوں سے سب سے زیادہ ہے۔ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے توسّط سے انبیائے کرام کی قراٰنِ پاک میں بیان کردہ صفات جاننے کا سلسلہ جاری ہے۔اس بار ہم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صفات کے بارے میں جانیں گے جو اُولُو الْعَزْم رسولوں میں دوسرے نمبر پر ہیں بلکہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ذات ہے۔ آئیے! آپ علیہ السّلام کی قراٰنِ پاک میں مذکور صفات کے بارے میں پڑھتے ہیں:

(1)اللہ کا خلیل: قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنایا۔(پ5، النسآء:125) خُلَّت کے معنیٰ ہیں غیر سے مُنقطع ہوجانا، یہ اس گہری دوستی کو کہا جاتا ہے جس میں دوست کے غیر سے اِنقِطاع ہو جائے۔ ایک معنیٰ یہ ہے کہ خلیل اس مُحِب کو کہتے ہیں جس کی محبت کاملہ ہو اور اس میں کسی قسم کا خَلَل اور نقصان نہ ہو۔ یہ معنیٰ حضرت ابراہیم علیہ السّلام میں پائے جاتے ہیں۔(صراط الجنان،2/316)

(2)صدیق اور غیب کی خبریں بتانے والے: اللہ پاک حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔(پ 16، مریم:41)آپ علیہ السّلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔(صراط الجنان، 6/107)

(3)فرشتوں کا سلام اور خوشخبری پانے والے: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو فرشتوں کے ذریعے دو شہزادوں کی خوشخبری دی اور فرشتوں نے آپ کو سلام بھی عرض کیا چنانچہ قراٰنِ پاک میں ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور بے شک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے بولے سلام۔ (پ12، ھود:69) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سادہ رُو، نوجوانوں کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پاس حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب علیہما السّلام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے۔ فرشتوں نے سلام کہا تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا۔(صراط الجنان، 4/464)

(4)رجوع اِلیٰ اللہ، حلم اور خوفِ خدا رکھنے والے: ان اوصاف کے متعلق قراٰن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: بےشک ابراہیم تحمل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔ (پ12، ھود: 75) اس آیت میں ابراہیم علیہ السّلام کی بہت مدح و تعریف کی گئی ہے، جب آپ کو پتا چلا کہ فرشتے قومِ لوط کو ہلاک کرنے آئے ہیں تو بہت رنجیدہ ہوئے اور اللہ سے ڈرے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی صفت میں ارشاد فرمایا کہ بیشک ابراہیم ”حَلِیْمٌ“ یعنی بڑے تحمل والے اور ”اَوَّاهٌ“ یعنی اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے اور اس کے سامنے بہت آہ و زاری کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صفت میں ”مُنِیْبٌ“ اس لئے فرمایا کہ جو شخص دوسروں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کی بنا پراللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اپنے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے کس قدر ڈرنے والا اور اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔(صراط الجنان، 4/470 ملخصاً)

(5)حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی اتباع:اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام اور آپ کے رفقاء کی پیروی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا: چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنز الایمان:بےشک تمہارے لیے اچھی پیروی تھی ابراہیم اور اس کے ساتھ والوں میں۔(پ28، الممتحنۃ: 4)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سیرت پڑھنے، اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمیں فیضانِ انبیا سے مالامال فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم