مخلصین کی مختلف اقسام ہیں:(1) ایک وہ جو اللہ پاک کے خوف سے اس کی عبادت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔(2) ایک وہ جو جنت و ثواب کی حرص میں رب ذوالجلال کی ریاضت و عبادت کرتے ہیں۔ (3) ایک وہ جو اللہ پاک سے حیاء کرتے ہوئے اُس "وحدہ لا شریک" کی بندگی کرتے ہیں کہ وہ ذات ہے ہی اس لائق کہ اگر جنت، دوزخ نہ بھی ہوں پھر بھی اسی کی عبادت، ریاضت و فرمانبرداری کی جائے۔

آخری طبقہ اگر چہ افضل ہے! لیکن تینوں ہی طبقات رب العالمین کے نیک بندے، مخلصین اور مقربین ہوتے ہیں۔

انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسّلام تو أئمّۃ المخلصین ہیں، مگر اللہ پاک نے ہر نبی کو جدا جدا خصوصیات سے مزین فرمایا ہے۔کسی کو "کلیم اللہ" کسی کو "روح اللہ" تو کسی کو "خلیل اللہ" بنایا، اور سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے نبی، آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو "حبیب اللہ" بنایا جو کہ سب سے اعلی و ارفع مقام ہے۔

آئیے ان مبارک ہستیوں میں سے ایک ہستی جو کہ آخری طبقے کے مقتدا ہیں، اولو العزم انبیاء علیہم السّلام میں شامل ہیں "اللہ کے خلیل" تمام انبیاء علیہم السّلام میں "حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ" سب سے افضل ہیں، حضرت سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسّلام" کی چند صفات کا قراٰن کریم سے ذکر کرتے ہیں۔

آپ خلیل اللہ ہیں: ﴿وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست بنا لیا۔( پ 5 ، النساء : 125 )علامہ نسفی نے فرمایا: ایک حدیث میں ہے کہ اللہ پاک نے ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل اس وجہ سے بنایا، کہ آپ کھانا کھلاتے، سلام عام کرتے اور رات کو نماز پڑھتے تھے جب کہ لوگ سو رہے ہوتے تھے۔ (تفسیرمدارک(نسفی)پارہ5سورہ نسآء،تحت الآیۃ)

آپ کو رب نے لوگوں کا پیشوا بنایا: یوں تو سارے ہی انبیاء علیہم السّلام متوکلین ہوتے ہیں لیکن آپ کا اللہ پر توکل بے مثال تھا۔ آپ پر اللہ کی طرف سے کئی آزمائشیں آئیں "آپ کو آگ میں ڈالا گیا۔ "آپ کو حکم ہوا کہ زوجہ اور اپنے فرزند کو ریگستان ویرانے میں تنہا چھوڑ آئیں۔ پھر جب وہ فرزند آپ کے ساتھ کچھ کام کرنے کی عمر کو پہنچیں تو اللہ نے فرمایا کہ انہیں ہماری راہ میں ذبح کر دو۔

مگر! آپ ہر ہر آزمائش میں پورا اترے، رب فرماتا ہے: ﴿وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے ذریعے آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا (اللہ نے) فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ (پ1، البقرۃ: 124)اس کی تفسیر میں مفتی قاسم دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: یہاں امامت سے مراد نبوت نہیں۔ کیونکہ نبوت تو پہلے ہی مل چکی تھی۔ تب ہی تو آپ کا امتحان لیا گیا بلکہ اس امامت سے مراد دینی پیشوائی ہے۔(صراط الجنان)

اللہ کی راہ میں بیٹا قربان: آٹھ ذوالحجۃ کو ابراہیم علیہ السّلام نے خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے: ”بے شک اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنا بیٹا قربان کر دو !“ آپ ملک شام سے براق پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کے پاس مکہ مکرمہ پہنچے، حضرت ہاجرہ سے فرمایا ،کہ اسماعیل کو تیار کرو کہ "دعوۃ الی اللہ" میں جانا ہے، شیطان نے قسم کھائی کہ میں آل ابراہیم میں سے کسی نہ کسی ایک کو ضرور فتنے میں ڈالوں گا، چنانچہ شیطان انسانی شکل میں اولاً ہاجرہ رضی اللہ عنہا پھر اسماعیل علیہ السّلام پھر ابراہیم علیہ السّلام کے پاس آیا مگر ہر بارگاہ سے دھتکار دیا گیا اور ابراہیم علیہ السّلام نے اس کو پہچان کر فرمایا: مجھ سے دور ہو جا اے اللہ کے دشمن! اللہ کی قسم! میں ضرور اپنے رب کا حکم پورا کروں گا۔ (حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور سنت ابراہیمی، ص 65،66،67،ملخصاً)

اس واقعے کو اللہ پاک نے "سورۃُ الصّٰفّٰت " میں ان الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا: ﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۰۲) فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِۚ(۱۰۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر جب وہ اس کے ساتھ کوشش کرنے کے قابل عمر کو پہنچ گیا توابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں ۔اب تو دیکھ کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اِنْ شَاءَاللہ عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ تو جب ان دونوں نے (ہمارے حکم پر) گردن جھکادی اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا (اس وقت کا حال نہ پوچھ)۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 103،102 )

سبحان اللہ! اللہ پاک ہمیں بھی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے صدقے دین کی راہ میں اپنی جان و مال قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔ اٰمین۔

تمام اچھی خصلتوں کے مالک: آپ ہر اچھی خصلت کے مالک اور ہر باطن سے جدا تھے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم تمام اچھی خصلتوں کے مالک (یا) ایک پیشوا ، اللہ کے فرمانبردار اور ہر باطل سے جدا تھے ۔ (پ14 ،النحل:120)

اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات میں اللہ پاک نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے 9 اَوصافِ حمیدہ بیان فرمائے ہیں ۔ (1) حضرت ابراہیم علیہ السّلام تمام اچھی خصلتوں اور پسندیدہ اَخلاق کے مالک تھے۔ (2) اللہ پاک کے فرمانبردار تھے۔ (3) دین ِاسلام پر قائم تھے۔ (4) مشرک نہ تھے۔ کفارِ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ،اس میں ان کفار کے اس نظریے کا رد ہے ۔ (5) اللہ پاک کے احسانات پر شکر کرنے والے تھے۔ (6) اللہ پاک نے انہیں اپنی نبوت و خُلَّت کے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ (7) انہیں سیدھے راستے یعنی دین ِاسلام کی طرف ہدایت دی تھی۔ (8) دنیا میں بھی انہیں بھلائی دی گئی۔ اس سے مراد رسالت، اَموال، اولاد ،اچھی تعریف اور قبولیتِ عامہ ہے کہ تمام اَدیان والے مسلمان، یہودی ، عیسائی اور عرب کے مشرکین سب اُن کی عظمت بیان کرتے اور اُن سے محبت رکھتے ہیں ۔ (9) آخرت میں قرب والے بندوں میں سے ہوں گے۔(صراط الجنان،پارہ14،سورۃ النحل،آیۃ120)

آپ علیہ السّلام بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے ہیں: جب اللہ کی طرف سے آپ کو "بیت اللہ" کی تعمیر کا حکم ہوا تو آپ ملک شام سے مکہ مکرمہ کی طرف تشریف لائے تو آپ نے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو زمزم کے پاس ایک درخت کے نیچے تیر ٹھیک کرتے ہوئے پایا، اسماعیل علیہ السّلام نے اپنے والد کو دیکھا تو کھڑے ہو گئے اور جذبات سے بھرپور انداز میں اپنے والد سے ملاقات کی، کچھ گفتگو ہوئی، حال احوال پوچھے، پھر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا، کہ رب نے مجھے "بیت اللہ" کی تعمیر کا حکم ارشاد فرمایا ہے کیا آپ میری مدد کریں گے؟ آپ نے عرض کی جی ہاں! ضرور، پھر دونوں نے مل کر "بیت اللہ" تعمیر کیا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُؕ-رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب اٹھاتاتھا ابراہیم اس گھر کی نیویں (بنیادیں)اور اسمٰعیل یہ کہتے ہوئے کہ اے رب ہمارے ہم سے قبول فرما بےشک تو ہی ہے سنتا جانتا۔(پ 1، البقرۃ: 127)

اس سے پتا چلا کہ مسجدیں تعمیر کرنا انبیا علیہم السّلام کی سنت مبارکہ ہے خود ہمارے پیارے آقا، اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے "مسجد قباء" کی تعمیر کی اور کروائی۔ اللہ پاک توفیق دے، جس سے بن پڑے تو کم از کم ایک مسجد تو ہمیں تعمیر کرنے کی نیت کرنی چاہیے! ورنہ ہم عاشقانِ رسول کے ساتھ تعمیر میں حصہ تو لیں ہی سکتیں ہیں، اللہ پاک ہمیں صدقہ و خیرات کرنے والا دل عطا فرمائے اٰمین ۔

آپ کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مصلّٰی بنایا گیا: کعبہ مشرفہ کی تعمیر کرتے ہوئے آپ جس پتھر پر کھڑے ہوئے، اس پتھر کے قریب نماز پڑھنے کا اللہ پاک نے حکم ارشاد فرمایا، ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ترجمۂ کنزالعرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور (اے مسلمانو!)تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(پ1،البقرۃ:125)

اللہ پاک ہمیں ابراہیم علیہ السّلام کے اخلاص کے صدقے میں مخلصین میں شامل فرمائے، ہمیں صبر قناعت اور توکل کی دولت عطا فرمائے، یا اللہ ہم سے اپنے پیارے نبی ابراہیم علیہ السّلام کے صدقے بغیر کسی آزمائش و امتحان کے راضی ہو جا، کیونکہ ہم امتحان کے قابل نہیں۔

امتحاں کے کہاں قابِل ہوں میں پیارے اللہ

بے سبب بخش دے مولیٰ ترا کیا جاتا ہے۔(وسائلِ بخشش)