محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین بحریہ ٹاؤن
راولپنڈی ،پاکستان)
پچھلی مرتبہ ہم نے حضرت زکریا علیہ السّلام کی صفات کا
مطالعہ کیا تھا، جو قراٰن مجید میں مذکور ہیں۔ اس مرتبہ ہم ان صفاتِ ابراہیم علیہ السّلام
کا مطالعہ کریں گے جن کو اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰن مجید میں ذکر فرمایا ہے،
جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
(1تا9) تمام اچھی
خوبیوں کے مالک، تمام لوگوں کے رہنما، اللہ پاک کے مطیع و فرمانبردار، ہر باطل سے
جدا یعنی یہودی نہ نصرانی اور نہ ہی مشرک ، اللہ پاک کے بہت شکر گزار، اللہ پاک نے
نبوت و خلّت کے لیے منتخب فرمایا، صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت یافتہ ، دنیا میں بھلائی
والے اور آخرت میں بھی قربِ الٰہی پانے والوں میں سے ہونگے۔ جیسا کہ فرمانِ باری
ہے: ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ
حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ
الصّٰلِحِیْنَؕ (۱۲۲) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا
فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ
نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک
وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122)
(11، 12) خوب بارگاہِ الٰہی میں رونے والے اور برے سلوک پر برداشت کرنے والے۔ جیسا کہ
فرمانِ باری ہے:﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بہت آہ و زاری کرنے والا، بہت برداشت کرنے
والا تھا۔ (پ11، التوبۃ:114)
(13، 14) بہت صبر کرنے والے اور رجوع فرمانے والے: فرمانِ باری ہے : ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ابراہیم بڑے تحمل والا ، بہت آہیں بھرنے والا،
رجوع کرنے والا ہے۔ (پ12، ھود:75)
(15، 16) صدیق اور نبی: ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ
اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ بہت ہی سچے نبی
تھے۔ (پ16، مریم:41)
(17) اعلٰی
درجے کے ایمان والوں میں سے ہیں ، فرمانِ خداوندی ہے : ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا
الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان
والے بندوں میں سے ہیں ۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)
مذکورہ صفاتِ ابراہیمی امتِ مسلمہ کے لیے صراطِ مستقیم ہیں۔
ہر مؤمن کو چاہیے کہ وہ ان تمام صفات کو اپنانے کی کوشش کرے جو اسے اعلٰی درجے کے
ایمان والوں میں داخل کرے اور رب کریم کی بارگاہ میں سرخرو و سرفراز کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اچھی صفات اپنانے کی توفیق
مرحمت فرمائے۔ اٰمین