محمد جنید عطّاری (درجۂ خامسہ، جامعۃُ
المدینہ فیضانِ عطّار،اٹک، پاکستان)
اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہمُ
السّلام کو مبعوث فرمایا تو انہیں ایسی صفات سے ممتاز فرمایا کہ کوئی ان پر اعتراض
نہ کرسکے، انہیں اپنے قُربِ خاص سے نوازا، ان انبیا و رُسل میں سے پانچ اُولُو
الْعَزْم رسول ہیں جن کا مرتبہ دیگر انبیا اور رسولوں سے سب سے زیادہ ہے۔ ماہنامہ
فیضانِ مدینہ کے توسّط سے انبیائے کرام کی قراٰنِ پاک میں بیان کردہ صفات جاننے کا
سلسلہ جاری ہے۔اس بار ہم حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صفات کے بارے میں جانیں گے
جو اُولُو الْعَزْم رسولوں میں دوسرے نمبر پر ہیں بلکہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ذات ہے۔ آئیے!
آپ علیہ السّلام کی قراٰنِ پاک میں مذکور صفات کے بارے میں پڑھتے ہیں:
(1)اللہ کا خلیل: قراٰنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اللہ نے ابراہیم کو اپنا گہرا دوست
بنایا۔(پ5، النسآء:125) خُلَّت کے معنیٰ ہیں غیر سے مُنقطع ہوجانا، یہ اس گہری
دوستی کو کہا جاتا ہے جس میں دوست کے غیر سے اِنقِطاع ہو جائے۔ ایک معنیٰ یہ ہے کہ
خلیل اس مُحِب کو کہتے ہیں جس کی محبت کاملہ ہو اور اس میں کسی قسم کا خَلَل اور
نقصان نہ ہو۔ یہ معنیٰ حضرت ابراہیم علیہ السّلام میں پائے جاتے ہیں۔(صراط
الجنان،2/316)
(2)صدیق اور غیب کی خبریں بتانے والے: اللہ پاک حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد
فرماتا ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بے شک وہ صدیق تھا
غیب کی خبریں بتاتا۔(پ 16، مریم:41)آپ علیہ السّلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت
کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔(صراط الجنان، 6/107)
(3)فرشتوں کا سلام اور خوشخبری پانے والے: اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو فرشتوں کے ذریعے
دو شہزادوں کی خوشخبری دی اور فرشتوں نے آپ کو سلام بھی عرض کیا چنانچہ قراٰنِ پاک
میں ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور بے شک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مژدہ لے کر آئے
بولے سلام۔ (پ12، ھود:69) آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سادہ رُو، نوجوانوں کی حسین شکلوں
میں فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے پاس حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب علیہما
السّلام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے۔ فرشتوں نے سلام کہا تو حضرت ابراہیم علیہ
السّلام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا۔(صراط الجنان، 4/464)
(4)رجوع اِلیٰ اللہ، حلم اور خوفِ خدا رکھنے
والے: ان اوصاف کے متعلق قراٰن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: بےشک ابراہیم تحمل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے
والا ہے۔ (پ12، ھود: 75) اس آیت میں ابراہیم علیہ السّلام کی بہت مدح و تعریف کی
گئی ہے، جب آپ کو پتا چلا کہ فرشتے قومِ لوط کو ہلاک کرنے آئے ہیں تو بہت رنجیدہ
ہوئے اور اللہ سے ڈرے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی صفت میں ارشاد فرمایا کہ بیشک
ابراہیم ”حَلِیْمٌ“ یعنی بڑے تحمل والے اور ”اَوَّاهٌ“ یعنی اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے اور اس کے سامنے
بہت آہ و زاری کرنے والے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صفت میں ”مُنِیْبٌ“ اس لئے فرمایا کہ جو شخص دوسروں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب
کی بنا پراللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اپنے معاملے میں
اللہ تعالیٰ سے کس قدر ڈرنے والا اور اس کی طرف رجوع کرنے والا ہوگا۔(صراط الجنان،
4/470 ملخصاً)
(5)حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کی اتباع:اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام اور آپ کے رفقاء کی پیروی کرنے
کا حکم ارشاد فرمایا: چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنز الایمان:بےشک تمہارے لیے
اچھی پیروی تھی ابراہیم اور اس کے ساتھ والوں میں۔(پ28، الممتحنۃ: 4)
اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سیرت پڑھنے،
اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور ہمیں فیضانِ انبیا سے مالامال
فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم