حضرت ابراہیم علیہ السّلام اولو العزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں، آپ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے اپنا خلیل بنایا اس لیے آپ کو خلیل اللہ کہا جاتا ہے اور آپ کے بعد والے تمام انبیاء و رسل علیہ السّلام آپ ہی کی نسل سے ہوئے، اسی اعتبار سے آپ کا لقب " ابو الانبیاء " بھی ہے۔ آپ علیہ السّلام کی قوم ستاروں اور جنوں کی پجاری تھی، چچا آزر بھی بتوں کا پجاری بلکہ بیو پاری تھا، دوسری طرف بادشاہِ وقت نمرود بھی خدائی کا دعوی کرتا اور لوگوں سے اپنی عبادت کرواتا تھا۔ آپ علیہ السّلام نے چچا اور قوم کو تبلیغ و نصیحت فرمائی۔ خوبصورت اور آسان فہم دلائل سے سمجھایا کہ اللہ ہی معبود اور خالق و قادر ہے جبکہ بت بے بس و لاچار ہیں، ان کی بے بسی ظاہر کرنے کے لئے ایک مرتبہ آپ علیہ السّلام نے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے بھی گئے۔ قراٰن و حدیث اور دیگر کتابوں میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرت پاک کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔( سیرتِ انبیاء ، ص256)

آپ کا تعارف :نام مبارک : آپ علیہ السّلام کا مشہور نام ابراہیم ہے جو اَبٌ رَحِیمٌ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں ”مہربان باپ آپ علیہ السّلام چونکہ بہت مہربان تھے جیسا کہ آپ کی سیرت میں اس کی مثالیں بکثرت نظر آتی ہیں ، یو نہی آپ علیہ السّلام مہمان نوازی اور رحم و کرم میں مشہور ہیں اس لیے آپ کو " ابراہیم " کہا جاتا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں مختلف مقامات پر آپ علیہ السّلام کا نام ابرام ، ابراہم، ابرہم، بر اہم اور براہمہ مذکور ہے، یہ تمام الفاظ ابراہیم ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ (سیرتُ الانبیاء، ص257)

اوصاف: آپ علیہ السّلام بہت اعلیٰ و عمدہ اوصاف کے مالک تھے جنہیں قراٰنِ پاک میں بھی کئی مقامات پر کی جگہ ذکر کیا ہیں ہے یہاں آپ علیہ السّلام کے 14 اوصاف ذکر کی جائیں گے۔

(1) آپ علیہ السّلام رب کریم کے انتہائی کامل الایمان بندے تھے ۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیں۔ (پ23، الصّٰفّٰت: 111)

(3،2) آپ علیہ السّلام صدیق اور نبی تھے۔ ارشاد باری ہے۔ ﴿وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق تھا غیب کی خبریں بتاتا۔( پ 16 ، مریم : 41 )

یہاں ایک اہم بات قابل توجہ ہے کہ آپ علیہ السّلام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص، بیان کرنے میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی تفہیم ہوجائے جنہیں چند واقعات کی بِنا پر شبہ ہوتا ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کلام ان مواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا ۔

امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سورت کا (بنیادی) مقصد توحید، رسالت اور حشر کو بیان کرنا ہے اور توحید کا انکار کرنے والے وہ لوگ تھے جو اللہ پاک کے علاوہ کسی اور کو(اپنا) معبود مانتے تھے، پھر ان لوگوں کے بھی دو گروہ تھے، ایک گروہ زندہ اور عقل و فہم رکھنے والے انسان کو معبود مانتا تھا اور یہ عیسائیوں کا گروہ ہے، اور ایک گروہ بے جان اور عقل و فہم نہ رکھنے والی جَمادات کو معبود مانتا تھا اور یہ بتوں کے پجاریوں کا گروہ ہے اور یہ دونوں گروہ اگرچہ گمراہی میں مُشترک تھے لیکن دوسرا گروہ (پہلے کے مقابلے میں) زیادہ گمراہ تھا، چنانچہ اس سے پہلی آیات میں اللہ پاک نے پہلے گروہ کی گمراہی بیان فرمائی اور اب یہاں سے دوسرے گروہ کی گمراہی بیان فرما رہا ہے۔ چنانچہ جب حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کے واقعے کا اختتام ہوا تو گویا کہ ارشاد فرمایا :

اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ نے حضرت زکریا علیہ السّلام کا حال ذکر کردیا اور اب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حال بیان کریں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا حال بیان کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام لوگ اس بات سے واقف تھے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ کی قوم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کتابوں کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے لکھنے میں مشغول نہ تھے تو جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ واقعہ کسی کمی زیادتی کے بغیر جیسا واقع ہوا تھا ویسا ہی بیان کر دیا تو یہ غیب کی خبر ہوئی اور سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم(کاغیب کی خبر دینا آپ) کی نبوت کی دلیل اور آپ کا معجزہ ہوا۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 7 / 541)

یہاں بطورِ خاص حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا واقعہ بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب کے مشرکین اپنے آپ کو مِلّتِ ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے، اس میں انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ اگر تم ملت ابراہیمی کے پیروکار ہو تو بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام تو بتوں کی پوجا نہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو اللہ پاک کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس میں کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے۔ اگر تم ملت ابراہیمی پر قائم ہو تو ان کے دین کو اپناؤ اور بت پرستی چھوڑو۔

آیت کے اس حصے میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی صِفات بیان کی جارہی ہیں کہ آپ علیہ السّلام ہمیشہ سچ بولتے تھے اور نبوت کے مرتبے پر بھی فائز تھے۔ بعض مفسرین نے کہا کہ صدیق کے معنی ہیں کثیرُ التَّصدیق یعنی جو اللہ پاک اور اس کی وحدانیت کی، اس کے انبیا اور اس کے رسولوں علیہم السّلام کی اور مرنے کے بعد اُٹھنے کی تصدیق کرے اور اَحکامِ الٰہیہ بجالائے وہ صدّیق ہے۔( خازن، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 3/ 236)

یاد رہے کہ آپ علیہ السّلام کے سچے ہونے کے وصف کو بطورِ خاص بیان کرنے کی یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ بعض لوگوں کو چند واقعات کی وجہ سے شُبہ ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا کلام ان مَواقع پر حقیقت کے مطابق نہیں تھا۔ ان کی تفہیم کیلئے بطورِ خاص آپ علیہ السّلام کو سچا فرمایا گیا۔

مقامِ صدّیق اور مقامِ نبوت میں فرق: یہاں آیت کی مناسبت سے صدیق اور نبی میں اور صدیق اور ولی میں فرق ملاحظہ ہو، چنانچہ علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ہر نبی صدیق ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر صدیق نبی نہیں ،اسی طرح) ہر صدیق ولی ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر ولی صدیق نہیں ) کیونکہ صِدِّیْقِیَّت کا مرتبہ نبوت کے مرتبے کے نیچے (اور ا س کے قریب ) ہے۔( صاوی، مریم، تحت الآیۃ: 41 ، 4/ 1237)

اس سے معلوم ہوا کہ اَنبیاء اور رُسُل علیہمُ السّلام کے بعد انسانوں میں سب سے بڑا مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کا ہے کیونکہ آپ رضی اللہُ عنہ اَنبیاء اور رُسُل علیہمُ السّلام کے بعد صدیقیت کے سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔

(4 تا 9) آپ علیہ السّلام بے شمار خوبیوں کے مالک تھے، تمام لوگوں کے پیشوا ہیں، ہر حکم الہی پر سر ِتسلیم خم کرنے والے تھے ، ہر باطل سے جدا اور حق کی طرف یکسو تھے، شرک و باطل سے پاک اور دور تھے ، انعامات الٰہیہ پر شکر کرنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰) شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ(۱۲۲) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ابراہیم ایک امام تھا اللہ کا فرمانبردار اور سب سے جدا اور مشرک نہ تھا۔ اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا اور اسے سیدھی راہ دکھائی۔ اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں شایان قرب ہے۔ (پ14، النحل:120تا 122) اور ارشاد فرمایا : ﴿ مَا كَانَ اِبْرٰهِیْمُ یَهُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰكِنْ كَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۶۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے اور مشرکوں سے نہ تھے۔( پ 3 ، اٰل عمرٰن : 67)

(10) آپ علیہ السّلام نے اللہ پاک کی طرف سے ملنے والے ہر حکم کو پوری طرح ادا کیا۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اَمْ لَمْ یُنَبَّاْ بِمَا فِیْ صُحُفِ مُوْسٰىۙ(۳۶) وَ اِبْرٰهِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰۤىۙ(۳۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: کیا اُسے اس کی خبر نہ آئی جو صحیفوں میں ہے موسیٰ کے اور ابراہیم کے جو احکام پورے بجالایا۔(پ27،النجم: 37،36)

(11تا14) آپ علیہ السّلام بڑے تحمل والے ، اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرنے ، اس کی بارگاہ میں بہت آہ و زاری کرنے اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ(۷۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ابراہیم تحمُّل والا بہت آہیں کرنے والا رجوع لانے والا ہے۔(پ 12 ، ھود : 75 )

(15) اور ارشاد باری ہے : ﴿ وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِیْمَ لِاَبِیْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِیَّاهُۚ-فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُؕ- اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِیْمٌ(۱۱۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کر چکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا بےشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمّل ہے۔ (پ11، التوبۃ:114)

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص ذوالبجادین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ’’ اَوَّاہْ ‘‘ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ قراٰنِ مجید کی تلاوت اور دعا کے ذریعے کثرت سے اللہ پاک کا ذکر کیا کرتے تھے۔ (معجم الکبیر، باب العین، علی بن رباح عن عقبۃ بن عامر، 17 / 295، حدیث: 813)

حضرت علی المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے ،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :بے شک آدمی حِلم کے ذریعے روزہ دار عبادت گزار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ (معجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، 4/ 369، حدیث: 6273)

حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : حلیم شخص دنیا میں سردار ہوتا ہے اور آخرت میں بھی سردار ہو گا۔ (کنز العمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الحلم والاناء، 2 / 55، حدیث: 5807، الجزء الثالث) اللہ پاک ہمیں بھی ان صِفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین