اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت عبدالمجید،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد
انسان کی زندگی کا سرمایہ ہوتی ہے اولاد کو سدھارنے کے لیے بہت سے اصولوں کو مدنظر
رکھنا ضروری ہے۔
1۔ حسن اخلاق: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو ہر
ایک سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی ترغیب دیں کہ اس میں بہت سی دینی اخروی سعادت
پوشیدہ ہیں جیسا کہ حضور ﷺ نے فرمایا: حسن اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتا ہے
جس طرح دھوپ برف کو پگھلا دیتی ہے۔ (شعب الایمان، 6/247، حدیث: 8036)
2۔ پاکیزگی: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو صاف
ستھرا رہنے کی تاکید کریں حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک ہے پاکیزگی پسند فرماتا ہے
ستھرا ہے ستھرا پن پسند فرماتا ہے۔ (ترمذی، 4/365، حدیث: 2808)
3۔توکل: اپنی اولاد کا توکل کے لیے ذہن بنائیں کہ ہماری نظر
اسباب پر نہیں خالق اسباب یعنی اللہ پر ہونی چاہیے رب تعالیٰ چاہے گا تو یہ روٹی
ہماری بھوک مٹائے گی وہ چاہے گا تو یہ دوا ہمارے مرض کو دور کرے گی۔
4۔صبر: اپنی اولاد کا ذہن بنائیے کہ جب بھی کوئی صدمہ
پہنچے تو بلا ضرورت شرعی کسی کے سامنے بیان نہ کیجیے اور صبر کیجیے اور صبر کا
ثواب کمائیے حضور ﷺ نے فرمایا: جس بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے اللہ
تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا۔ (ترمذی، 4/145، حدیث: 2332)
5۔وقت
کی اہمیت: اپنی اولاد کو وقت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے ان کا ذہن بنائیے کہ وقت
ضائع کرنا عقل مندوں کا شیوا نہیں۔
حضرت
داؤد طائی کے بارے میں منقول ہے کہ آپ روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے اس کی
وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں جتنا وقت لقمے بنانے میں صرف ہوتا ہے اتنی دیر میں
قرآن کریم کی 50 آیتیں پڑھ لیتا ہوں۔ (تذکرۃ الاولیاء، 1/201)
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت طاہر راحیلہ،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد
اللہ کریم کی طرف سے والدین کے لیے ایک نعمت ہے اور اس کی قدر ہر کوئی نہیں کرتا
حقیقی والدین وہی ہیں جو اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں بچپن سے ہی ان کی ہر
لحاظ سے شریعت کے مطابق تربیت کریں کیونکہ اولاد وہی کرتی ہے جو اپنے بڑوں کو کرتے
دیکھتی ہے اور اگر اولاد بگڑ جائے یا وہ برے افعال میں مبتلا ہوجائے تو پھر ان کو
سدھارنا انتہائی مشکل کام ہے اس لیے ہر آن اولاد پر نظر رکھیں وہ کن کاموں میں آج
کل مصروف ہے اگر برے کاموں میں مبتلا ہے تو فورا ان کو ان کاموں سے روکا جائے اور
اچھے کاموں کی ترغیب دلائی جائے آئیے ذیل میں چند اولاد کو سدھارنے کے طریقے
بتائیں جائیں گے ملاحظہ کیجیے۔
(1)تین باتیں سکھاؤ: آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو
تین(3)چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبّت، اہل بیت کی محبّت اور قرآن پاک پڑھنا۔ (الصواعق
المحرقہ، ص 172)
(2) تربیت کرنے میں سختی نہ کریں: بعض والدین
اپنی اولاد کی تربیت تو کرتے ہیں ہر لمحہ اپنی اولاد کی تربیت تو کرتے ہیں لیکن
اتنا سخت رویے اور انداز کے ساتھ کہ بچہ سدھرنے کی بجائے اور بگڑ جاتا ہے تو یاد
رکھیں جو کام نرمی سے ہوتا ہے وہ گرمی سے نہیں ہوتا تو ہر آن ہر لمحہ نرمی والا
انداز ہونا چاہئے اس سے آپ کی اولاد پر اچھا اثر پڑے گا۔
(3)دیکھ کر سیکھنا: یاد رکھیں اولاد جو دیکھے گی وہی کرے
گی لہذا والدین کو چاہئے کہ وہ خود نیک کام کریں نماز اور تمام احکام شرعیہ اچھے
انداز میں پورے کریں ان شاء اللہ الکریم اس کی برکت سے ان کی اولاد میں بھی مثبت
اثر پڑے گا اور ان کا نیک کاموں میں دل بھی لگے گا۔
(4)نظر رکھیں:والدین کو چاہیے وہ اپنی اولاد پر نظر
رکھیں کہ معاذ اللہ ان کی اولاد کہیں برے کاموں یا بری صحبتوں میں تو نہیں پڑ گئی
اگر والدین اپنی اولاد پر نظر رکھیں گے تو اولاد کو بھی ڈر ہو گا جس کی وجہ سے برے
کاموں سے بچ جائے گی۔
(5) بلا وجہ جھڑکنے سے بچیں: بعض اوقات والدین اپنی کسی
پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں ایسے میں اگر اولاد ان سے کچھ جائز خواہش کرے تو
والدین بغیر کسی وجہ سے جھڑک دیتے ہیں جس کا اولاد پر برا اثر پڑتا ہے اولاد
والدین سے متنفر ہو جاتی ہے اور پھر باغی ہو جاتی ہے کسی کی بات نہیں سنتی لہذا
والدین کو اگر کوئی پریشانی ہو تو کوشش کریں اس کا اظہار اگر اولاد پر کرنا تو اس
کے لیے جھڑکنے کی بجائے نرم انداز سے بتائیں تاکہ اولاد بری سوچ سے بچے اور متنفر
نہ ہو۔
وظیفہ کیجئے: نافرمان بچے کو فرماں بردار کرنے کے
لئے روحانی علاج پیش خدمت ہے: جو شخص یا شہید 21 بار صبح سورج نکلنے سے پہلے
نافرمان بچے ىا بچى کى پىشانى پر ہاتھ رکھ کر آسمان کى طرف منہ کرکے پڑھے ان شآء
اللہ اس کا وہ بچہ ىا بچى نىک بنے۔ یہ وظیفہ اس طرح نہیں پڑھنا کہ بچے کو بولیں:
ادھر آ! تو بہت شیطانی کرتا ہے، میں وظیفہ پڑھتا ہوں، تو صحیح ہوجائے گا۔اس طرح
اور زىادہ بگاڑ پىدا ہوجائے گا۔ وظیفہ اس طرح پڑھیں کہ بچے کو پتا نہ چلے۔ بچے کو
جھوٹ بھی نہیں بولنا اور حکمت عملی سے کام لے کر یہ وظیفہ پڑھنا ہے۔ شہید اللہ پاک
کا نام ہے، ان شاء اللہ آپ کو اس کی برکتیں حاصل ہوں گی۔
یاد
رکھیں کہ بچوں کی تربیت وقت، محبت اور مستقل محنت کا تقاضا کرتی ہے۔ اگر آپ ان
اصولوں پر عمل کریں گے تو ان شاء اللہ آپ کی اولاد ایک بہترین شخصیت کی حامل ہوگی۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت طارق نذیر،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

بچے
مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر انہیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے
ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت
سے ایک مثالی معاشرہ اور قوم وجود میں آتی ہے، اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل
میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش کالحجر ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر
بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبلوغت کے بعد بھی وہ ان پر
عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت
کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے
اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں
نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت
دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ
نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبال جان ہو گی اور آخرت میں
بھی رسوائی کا سبب بنے
گی۔
اولاد
کو ﷲ ربّ العزت نے دنیاوی زندگی میں رونق سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ رونق اسی وقت ہے
جب والدین کی جانب سے اپنی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے بچوں کی صحیح نشو و نما،
دینی و اخلاقی تربیت کی جائے اور بچپن ہی سے انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔
لہذا
والدین کو اپنی اولاد کے حوالے سے بہت محتاط اور ذمہ دار ہونا چاہیے ان کو وقت
دینا چاہیے اور اچھی عادات اپنانے کا ذہن بنانا چاہیے اور بری عادات سے بچنے کی
تلقین کرنی چاہیے۔
ذیل
میں اولاد کو سدھارنے کی چند ہدایات پیش کی جاتی ہیں ان کو اپنانے سے ان شاءاللہ
بہتر نتائج اخذ ہوں گے۔
1۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال: سوشل میڈیا دو
دھاری تلوار ہے یعنی اس کے فوائد بہت ہیں تونقصانات بھی بہت۔ بات کریں فوائد کی تو
دور حاضرمیں سوشل میڈیا سیکھنے کا آسان ترین، سستا ترین اور سب سے بڑا ذریعہ بن
چکا ہے۔ ہر شعبے کی معلومات ہمارے ایک کلک کے فاصلے پر دستیاب ہیں۔ تاہم اس کا حد
سے زیادہ یا بے مقصد استعمال نہ صرف وقت کا ضیاع ہے بلکہ جسم و ذہن پر بھی خطرناک
اثرات ڈالتا ہے۔ اس ضمن میں والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ایسی
ذہنی تربیت کریں کہ وہ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں اور اس کے منفی اثرات سے
بچیں۔
2۔اصول بنائیں: ماؤں کوچاہئے کہ اپنے گھرکے کچھ مخصوص
اصول بنائیں جس پر تمام لوگوں کو عمل کرناضروری ہو، اور ماؤں کو چاہئے کہ ان
اصولوں پر سختی سے عمل پیرا رہیں۔ اپنی سہولت یا بچوں کی ضد کی وجہ سے ان اصولوں
میں پھیربدل نہ کریں ورنہ بچہ آپ کی باتوں کو اہمیت نہیں دے گا اور ہمیشہ ان
اصولوں سے انحراف کی کوشش کرے گا۔
3۔ مقصددیجئے: بچوں کی ضداور غلط حرکتیں کرنے کی عادت
اگر بڑھتی جارہی ہے تو آپ کو انہیں اپنے پاس بٹھا کر سمجھانا چاہئے کہ غلط طریقے
سے برتاؤ کرنے کے برے نتائج ہوسکتے ہیں۔ انہیں آپ مقصد دیجئے کہ آپ کو اچھا اور
کامیاب انسان بنناہے تو آپ کو اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔
یہ بات
تو طے ہے کہ بچے اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اس لئے مائیں بچوں کے سامنے
اچھی عادات کا مظاہرہ کریں، تاکہ بچے بھی ایسی ہی عادات اپنائیں۔
4۔ بہتر ماحول دیجئے: بچے وہ نہیں کرتے جو انہیں کہا جاتا ہے،
بلکہ وہ کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس لئے ماؤں کو
چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترماحول دیں۔ اگرمائیں خود گھر کے بزرگوں یا لوگوں
پرغصہ کررہی ہو یاچلارہی ہو توبچہ بھی یہی سیکھے گا۔ ایسے میں ماؤں کو چاہئے کہ
گھر کا ماحول اور بچوں کی تربیت اس طرح کرے کہ بچہ سمجھ جائے کہ بڑوں کی باتوں کو
مانناضروری ہوتاہے۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت شمس پرویز،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

بگڑی
اولاد کو اگر پیار و محبت سے سمجھایا جائے ان کی طرف توجہ کی جائے تو یقینا وہ
اپنے والدین کے فرمانبردار بن جائیں گے لیکن ہمارے معاشرے میں بچہ ابھی چھوٹا ہے
کہہ کر لاپرواہی کی جاتی ہے اور پھر جب وہ بگڑ جائے تو پیار سے سمجھانے کی بجائے
اسے ہر بات پر ڈانٹا جاتا ہے جس سے وہ ضدی ہو جاتا ہے اور اکثر ہمارے زیادہ پیار
اور محبت کی وجہ سے بچہ ہر بات پر ضد کرتا ہے ہر بچہ ضد کرتا ہے ایسا نہیں کہ بچے
کا ضد کرنا غلط ہے لیکن بات بات پر اور حد سے زیادہ ضد کرنا غلط ہے اور اس کا اثر
بچے کے مستقبل پڑھتا ہے اس لیے ماؤں کو درج ذیل باتوں پر عمل کرتے ہوئے بچوں کی
تربیت کرنی چاہیے ماں کو چاہیے کہ بچے کی بات بغور سنے اور اگر اس کی بات میں
اچھائی ہے تو اس بار اس کی حوصلہ افزائی کرے۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت شکیل،فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد
کے بگڑنے میں سب سے اہم کردار ماں باپ کا ہوتا ہے۔ جب ماں نے بچے کو کسی غلط کام
سے روکنا نہیں تو بچے نے کس طرح سیدھا ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اور بگڑے گا۔ جب
والدین کا مقصد حیات حصول دولت عیش و آرام بن جائے تو وہ اولاد کی ترتیب کیا کرئے
گے اور پھر جب اولاد کی طرف سے ایسا بگڑا پن دیکھتے ہیں تو ہر ایک سے اسکے بگڑنے
کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔
ایسے
والدین کو غور کرنا چاہئے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کا کتنا ہاتھ ہے
کیونکہ انہوں نے اپنے بچے کو ABC تو سکھا یا مگر قرآن پڑھنا نہ سکھایا مغربی
تہذیب کے طور طریقے بتائے مگر سنتیں نہ سکھائیں، انہیں جنرل سائیں وغیرہ کا بتایا
مگر ان کو فرض علوم نہ سکھائے اسکے دل میں مال کی محبت ڈالی مگر عشق رسول ﷺ کی شمع
نہ روشن کی اسے دنیاوی ناکامیوں کے بارے میں بتایا مگر یہ نہ بتایا کہ اگر آخرت
میں ناکام ہو گئے تو کیا ہوگا اس کی ناکامی کا خوف نہ دلایا تو ایسی صورت میں جب
بچے کو کچھ سیکھانا ہی نہیں اسکی دین کی طرف رہنمائی ہی نہیں کرنی تو اسطرح
اولادنے تو بگڑنا ہی ہے۔
اس
لیے اپنی اولاد کو سیدھے راستے پر چلائیے ان کو دین کی طرف راغب کرے انہیں قرآن سیکھنے
کے لیے بھیجے۔ ان کو حضور ﷺ کی سنتوں کے بارے میں بتائے ایسے میں ہمارا شعبہ دعوت
اسلامی ہمیں بہت سی آسائش فراہم کر رہا ہے۔ بہت سے بچے قرآن کی تعلیم حاصل کر ر ہے
ہیں اور طرح طرح کے کورس کر رہے ہیں اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کر رہے ہیں اور
سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔ ماشاء اللہ
اللہ
پاک سبکی اولاد کو فرمانبردار بنائے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین
اولاد
کو سدھارنے کے بہت سے روحانی علاج بھی ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
1۔
نافرمان اولاد کو فرمانبردار بنانے کے لئے تاحصول مراد نماز فجر کے بعد آسمان کی
طرف رخ کر کے کا يا شہيد 21 بار پڑھیں ( اول و آخر ایک بار درود پاک)۔
2۔ ہر
نماز کے بعد ذیل میں دی ہوئی دعا اول و آخر درود شریف کے ساتھ ایک بار پڑھ لیں۔
انشاء اللہ عزوجل بال بچے سنتوں کے پابندیں گے۔ اور گھر میں مدنی ماحول قائم ہوگا:
رَبَّنَا هَبْ لَنَا
مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا
لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴) (پ 9، الفرقان: 74)
اولاد کو سدھارنےکے طریقے از بنت دلاور حسین،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

والدین
کی ذمہ داریوں میں سے سب سے اہم ذمہ داری اولاد کی اچھی تربیت کرنا ہے ان کو اچھے
برے کام کی تمیز سکھانا ہے تاکہ گھر اور معاشرہ پرامن ہو سکے اور بچوں کو بھی صحیح
غلط کی تمیز آ سکے۔ اولاد کو سدھارنےکے چند اسباب بیان کیے گئے ہیں جن کو مدنظر
رکھتے ہوئے ان کی بہترین تربیت کی جا سکتی ہے اس میں سب سے پہلا
اخلاق و کردار: بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود
ہوتی ہے یعنی اس کی ماں ہوتی ہے اور پھر باقی گھر والے ہوتے ہیں بچہ جو اپنی ماں
یا اپنے گھر والوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے وہی طریقہ اپناتا ہے تو بہتر ہے کہ بچوں
کی ماں اپنے اخلاق کو کردار مثبت رکھے تاکہ اولاد کے لیے اخلاق اور کردار بھی بہتر
ہو سکے۔
مثبت گفتگو: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے
سامنے اپنے بزرگوں کی عزت کریں اپنے بزرگوں سے کبھی اونچی آواز میں بات نہ کرے ان
کا ادب و احترام کرے تاکہ ان کی اولاد بھی اپنے بڑوں کی عزت کرے اور ان کے ساتھ
حسن اخلاق سے پیش ائے۔
محبت اور توجہ: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے
ساتھ محبت سے پیش آئے ان کی ہر بات کو اہمیت دے اور توجہ سے سنیں تاکہ بچوں میں
خود اعتمادی پیدا ہو اور والدین کو ان کی تربیت کرنے میں آسانی ہوگی۔
تعلیم و تربیت: والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت
پر توجہ دینی چاہیے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی علوم پر بھی توجہ دینی چاہیے
بالخصوص فرائض علوم پر تاکہ بچوں میں دنیا کے ساتھ آخرت کی فکر کرنے کی کہ بھی کڑھن
پیدا ہو۔
حوصلہ افزائی کرنا: والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کہ اچھے
کاموں پر ان کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ ان میں کام کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور اپنے
کام کو خوش اسلوبی سے انجام دے۔
دوست بنائیں: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے
ساتھ گل مل کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کو اپنا دوست بنائیں تاکہ ان کے بچے ان کے
ساتھ کوئی بھی بات کرنے میں جھجک محسوس نہ کریں۔
ایکٹیوٹیز: والدین کو چاہیے کہ اپنے اولاد کی ایکٹیوٹیز پر نظر
رکھے وہ کب کیا کرتے ہیں یہ کیا کرنا چاہتے ہیں ان کی ایکٹیویٹیز کیا ہے۔
مثالی کردار: والدین کو چاہیے کہ مثالی کردار کے لیے
اپنے بچوں کو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگی کی مثال دے کر ان کی زندگیوں کو
بھی بہتر بنایا جائے۔
اور
اپنی اولاد کے لیے دعا کریں کہ اللہ پاک آپ کی اولاد کو نیک صالح اور والدین کا
فرمانبردار بنائے۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت بشیر باجوہ، فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

بچے
معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں اگر یہی بگڑ جائیں تو معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجاتا
ہے۔ فتنہ و فسادات عام ہو جاتے ہیں۔ بچوں میں ضد اور غلط حرکتیں کرنے کی عادت ہوتی
ہے اگر یہ بڑھ جائے تو انہیں شفقت کے ساتھ سمجھانا چاہیے ورنہ غلط طریقے سے برتاؤ
کرنے کے برے نتائج ہوسکتے ہیں۔
تربیت
میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے، چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی
چاہیے: 1:سمجھانا۔2:ڈانٹ
ڈپٹ کرنا۔3:مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔4:مارنا۔5: قطع
تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، اگر پہلی
مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحۃً برائی کا
ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات
بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ
ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اسے غلطی کا احساس دلایاجائے۔ بچہ کی
پیارومحبت سے تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے،
فرماتے
ہیں کہ میں بچپن میں رسول اللہ ﷺ کی زیرتربیت اور زیرکفالت بچہ تھا، میرا ہاتھ
کھانے کے برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے
فرمایا: اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور
اپنی طرف سے کھاؤ۔ (بخاری، 3/521، حدیث: 5376) اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے
بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی
جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا کہا جائے۔
ہمارے
پیارے آقاﷺ ہر کام میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اس لیے بچوں کی تربیت کے معاملے میں
حضور پاک ﷺ کا انداز تربیت پیش نظر ہونا چاہیے۔
رسول
پاک ﷺ کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک ﷺ کی
خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ
عنہ خود دیتے ہیں۔ (مسلم، ص 972، حدیث 2309)
نبی
کریم ﷺ اچھی باتو ں کی تر غیب دلاتے،ایک بار حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے
میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام ایسے رہو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے
کینہ نہ ہو، اے میرے بیٹے! یہ میری سنّت ہے اور جس نے میری سنّت سےمحبّت کی اس نے
مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنّت میں ہوگا۔
اگر
اولاد میں گستاخی اور نافرمانی کا رویہ دیکھیں تو فوری اللہ سے رجوع کریں اور یہ
عمل شروع کردیں۔بعد از نماز عشا اول آخر اسم ربی یا نافع اکتالیس سو بار اکیس دن
تک پڑھیں اور اللہ کے حضور اسکے راہ راست پر آنے کی دعا کریں،انشا ء اللہ بگڑے
ہوئے بچوں کی اصلاح ہوگی۔
تربیت
کی دو قسمیں: تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: 1:ظاہری
تربیت،2:باطنی تربیت۔ظاہری اعتبار سے تربیت میں
اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول،اس کے دوست
واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور
بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش وغیرہ کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور
اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد ان کے عقیدہ اور اخلاق
کی اصلاح ودرستگی ہے۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ
فرض ہے۔
ماں
باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا
جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت
اور ان کی ضروریات کی کفالت پر انہیں ابھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ
ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ
داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ
میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت انعام اللہ بٹ،فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

قرآن
مجید میں اولاد کی تربیت کے لیے کچھ احکامات اور طریقے بیان کیے گئے ہیں:
حدیث
کے چند احکامات ہیں جو اولاد کی تربیت کے لیے ہدایت فراہم کرتے ہیں۔
نبی
کریم ﷺ نے اولاد کی تربیت کے لیے کچھ احکامات اور طریقے بیان فرمائے ہیں:
1۔
اپنی اولاد کو اچھے راستے پر چلاؤ، اور انہیں برے کاموں سے روکو۔
2۔
بچوں کی تربیت کرو، اور انہیں اچھےراستے پر چلاؤ۔
3۔
بچوں کو نماز کی تربیت دو جب وہ سات سال کے ہوں۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)
4۔
بچوں کو محبت کرو، اور انہیں اچھے راستے پر چلاؤ۔
5۔
اپنی اولاد کو شکر گزار بناؤ، اور انہیں اللہ کا فرمان مانیں۔
6۔
بچوں کو صبر اور حوصلہ افزائی کی تربیت دو۔
7۔
بچوں کو حلم اور عفو کی تربیت دو۔
8۔
اپنی اولاد کو اچھےراستے پر چلاؤ، تاکہ وہ اچھے انسان بن جائیں۔
9۔
بچوں کو اچھی صحبت میں رکھو، اور برے لوگوں سے انہیں دور رکھو۔
10۔
اپنی اولاد کی تربیت میں سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں اللہ کا فرمان ماننا
سکھاؤ۔
یہ
نبی کریم ﷺ کے کچھ فرمان ہیں جو اولاد کی تربیت کے لیے ہدایت فراہم کرتے ہیں۔
اولاد
کی تربیت میں والدین کی کردار اہم ہے یہاں کچھ طریقے ہیں جو آپ اپنے بچوں کو
سدھارنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں:
1۔ مثال قائم کریں: بچوں کو اپنے والدین کی مثال پر چلنا
پسند ہوتا ہے۔ لہذا آپ کو اپنے بچوں کے سامنے اچھا مثال قائم کرنا چاہیے۔
2۔ ہمدردی اور سمجھ: بچوں کو سمجھنے اور ان کی feelings
کو تسلی دینے کی کوشش کریں۔
3۔ سخت اور نرم دونوں رویے: بچوں کو سمجھانے کے لیے سخت اور
نرم دونوں رویے اپنائیں۔
4۔ اعتماد اور حوصلہ افزائی: بچوں کے اندر اعتماد اور حوصلہ
افزائی کریں تاکہ وہ زندگی کی تلخیوں کا سامنا کر سکیں۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت امجد فاروق،فیضان ام
عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

آج کے دور میں بہت سے والدین اپنی اولاد کے
بگڑتے ہوئے رویوں سے بہت پریشان ہیں لہذا اولاد کو سدھارنے اور انہیں راہ راست پر
لانے کے بہت سے طریقے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
اسلامی تربیت: اولاد کی اسلامی تربیت کی جائے ہر
معاملے میں انہیں پیار و محبت سے سمجھایا جائے کیونکہ جو کام نرمی سے ہو سکتا ہو
اسے گرمی سے مت کیا جائے اس طرح اولاد مزید بگڑ سکتی ہے اسکے علاوہ بڑوں کا ادب
سکھایا جائے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا سکھایا جائے
دوستانہ ماحول: گھر میں دوستانہ اور خوشگوار ماحول
بنائیں۔ بچوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں محفوظ ہیں اور ان کی رائے اہم ہے۔
مشکلات کا سامنا: اگر بچے کسی مسئلے کا سامنا کر رہے
ہیں تو انہیں سمجھائیں کہ مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی انسان مضبوط ہوتا ہے۔ ان کی
مدد کریں کہ وہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
مساوی رویہ: اگر دو یا تین بچے ہوں تو کسی کے ساتھ زیادہ
پیار اورکسی کے ساتھ کم ایسا رویہ نہ رکھا جائے بلکہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کیا
جائے اس طرح انکے درمیان پیار و محبت بڑھے گا۔
تعلیم کی اہمیت:بچوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھائیں۔
انہیں کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں۔
حدود کا تعین: بچوں کے لیے واضح حدود مقرر کریں۔
انہیں بتائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اور ان حدود کی پاسداری کریں۔
رول ماڈل بنیں: والدین کو چاہیے کہ وہ خود اچھے کام
کریں اور اپنے بچوں کے لیے بہترین رول ماڈل بنیں کیوں کہ عموما اولاد وہی کرتی ہے
جو وہ اپنے والدین کو کرتے دیکھتی ہے اس لیے والدین نمازوں کی پابندی کریں اور
اپنے رویے درست رکھیں۔
اچھے انداز میں سمجھانا: اگر بچے کوئی غلطی کریں تو انہیں پیار
سے سمجھایا جائے نا کہ ڈانٹ ڈپٹ اور غصے سے اگر پیار سے سمجھائیں گے تو بچہ سمجھے
گا بھی اور اپنی غلطی جا اعتراف بھی کرے گا اور آئندہ ایسا نا کرنے کا عہد بھی کرے
گا۔
محبت اور توجہ: بچوں کو محبت اور توجہ دینا بہت ضروری
ہے۔ یہ ان کی خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے اور انہیں محفوظ محسوس کراتا ہے۔ جب بچے
محسوس کرتے ہیں کہ ان کے والدین ان کی پرواہ کرتے ہیں، تو وہ بہتر رویے کی طرف
مائل ہوتے ہیں۔
قواعد و ضوابط: بچوں کے لیے واضح قواعد و ضوابط بنائیں
اور ان پر عمل درآمد کروائیں۔ یہ ان کو سکھاتا ہے کہ کس طرح صحیح اور غلط میں فرق
کرنا ہے۔
سماجی مہارتیں: بچوں کو دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے
کی تربیت دیں۔ انہیں سکھائیں کہ کس طرح دوستانہ رویہ اپنایا جائے، دوسروں کا
احترام کیا جائے، اور مسائل کو حل کیا جائے۔
مثبت حوصلہ افزائی: بچوں کی اچھی عادات اور کارکردگی کی
تعریف کریں۔ جب وہ کچھ اچھا کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ ان کے اعتماد
کو بڑھاتا ہے اور انہیں بہتر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
وقت گزارنا: اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، چاہے وہ
کھیلنے کا وقت ہو یا کوئی مشترکہ سرگرمی۔ اس سے آپ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے
اور بچے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت اشرف، فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

بگڑی
اولاد کو اگر پیار و محبت سے سمجھایا جائے انکی طرف توجہ دی جائے تو یقیناً وہ
اپنے والدین کی تابعدار بن جائے گی لیکن ہمارے معاشرے میں بچپن میں چھوٹا ہے چھوٹا
ہے کہہ کر اسکی طرف سے لاپرواہی کی جاتی ہے اور پھر جب وہ بگڑ جائے تو پیار سے
سمجھانے کی بجائے اسے ہر بات پر ڈانٹا جاتا ہے جس سے وہ ضدی ہوجاتا ہے۔
اس
بات کو حلیۃ الاولیاء میں وارد شدہ اس حکایت سے سمجھنے کی کوشش کیجئے چنانچہ حضرت
مالک بن دینار علیہ رحمۃ اللہ الغفّار فرماتے ہیں: منقول ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک
عالم صاحب گھر میں اجتماع کر کے اس میں بیان فرمایا کرتے تھے، ایک دن ان کے جوان
لڑکے نے ایک خوبصورت لڑکی کی طرف آنکھ سے اشارہ کیا، جو کہ ان عالم صاحب نے دیکھ
لیا اور کہا: اے بیٹے صبر کر۔ یہ کہتے ہی عالم صاحب اپنے منچ سے منہ کے بل گر پڑے
یہاں تک کہ ان کی ہڈّیوں کے بعض جوڑ ٹوٹ گئے، ان کی بیوی کاحمل ساقط ہو گیا اور ان
کے لڑکے جنگ میں مارے گئے۔ اللہ نے اس وقت کے نبی کو وحی فرمائی کہ فلاں عالم کو
خبر کردو کہ میں اس کی نسل سے کبھی صدّیق پیدا نہیں کروں گا، کیا میرے لیے صرف
اتنا ہی ناراض ہونا تھا کہ وہ بیٹے کو کہہ دی اے بیٹے صبر کر؟ (حلیۃ الاولیاء، 2/422، رقم:
2823)
مطلب
یہ کہ اپنے بیٹے پر سختی کیوں نہیں کی اور اسے اس بری حرکت سے اچّھی طرح باز کیوں نہ
رکھا؟اس روایت میں صدّیق کا ذکر ہے، اولیا ئے کرام کی سب سے افضل قسم صدیق کہلاتی
ہے۔ الحمد للہ ہمارے غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم صدّیق تھے۔
جو
والدین بچپن سے ہی اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ اسکا پھل بھی پاتے
ہیں۔
پیارے
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچوں کو تین(3) چیزیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبّت، اہلِ
بیت کی محبّت اور قرآن پاک پڑھنا۔ (الصواعق المحرقہ، ص 172)
صدرالشّریعہ
مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: سب سے مقدّم یہ ہے کہ
بچّوں کو قرآ ن مجید پڑھائیں اور دین کی ضروری باتیں سکھائی جائیں، روزہ و نماز و
طہارت اوربیع واجارہ (یعنی خریدو فروخت اور اجرت وغیرہ کے لین دین) و دیگر معاملات
کے مسائل جن کی روز مرّہ حاجت پڑتی ہے اور ناواقفی سے خلاف شرع عمل کرنے کے جرم
میں مبتلا ہوتے ہیں ا ن کی تعلیم ہو۔ اگر دیکھیں کہ بچّے کوعلم کی طرف رجحان ہے
اور سمجھ دار ہے تو علم دین کی خدمت سے بڑھ کر کیا کام ہے اور اگر استطاعت نہ ہو
تو تصحیح و تعلیم عقائد اور ضروری مسائل کی تعلیم کے بعد جس جائز کام میں لگائیں اختیار
ہے۔ (بہار شریعت، 2/256)
لڑکی
کو بھی عقائد و ضروری مسائل سکھانے کے بعد کسی عورت سے سلائی اور نقش و نگار وغیرہ
ایسے کام سکھائیں جن کی عورتوں کو اکثر ضرورت پڑتی ہے اور کھانا پکانے اور دیگر
امور خانہ داری میں اسکو سلیقے ہونے کی کوشش کریں کہ سلیقے والی عورت جس خوبی سے
زندگی بسر کرسکتی ہے بدسلیقہ نہیں کرسکتی۔ (ردّ المحتار، 5/279)
بہار
شریعت جلد3 صفحہ68 پر ہے: امام ابو منصور ما تریدی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مؤمن
پر اپنی اولاد کو جود(یعنی سخاوت) و احسان کی تعلیم ویسی ہی واجب ہے جس طرح توحید
و ایمان کی تعلیم واجب ہے کیونکہ جود و احسان سے دنیا کی محبّت دور ہوتی ہے
اورمحبّت دنیا ہی ہر گناہ کی جڑ ہے۔
والدین
اپنی تمام اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کریں۔ انکی جائز خواہشات کو قبول کریں۔ ان پر
بے جا غصہ کرنے کی بجائے ہر بات کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں۔ ان کو دوسروں کے
سامنے ذلیل نہ کریں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق انکی پرورش کریں۔ اسکے علاوہ ہر طرح
سے انہیں بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ ہر کام میں انکا حوصلہ ابھاریں۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت ارشد،فیضان ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

اولاد
کی تربیت اور سدھار ایک اہم ذمہ داری ہے۔ والدین کی محبت، رہنمائی اور کردار بچوں
کے رویے پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ ذیل میں اولاد کو سدھارنے کے مؤثر طریقے درج
ہیں:
1۔
محبت اور شفقت کا اظہار کریں۔ اولاد کے ساتھ محبت بھرا رویہ اختیار کریں تاکہ وہ
آپ سے کھل کر بات کر سکیں۔
2۔
اچھی مثال قائم کریں۔ والدین کا کردار اور عمل بچوں کے لیے سب سے بڑا سبق ہے، اس
لیے خود اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
3۔
دعا کریں۔ اولاد کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، کیونکہ دلوں کا بدلنا
اسی کے ہاتھ میں ہے۔
4۔
تعلیم کو اہمیت دیں۔ دینی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم پر زور دیں تاکہ بچے
متوازن شخصیت کے مالک بن سکیں۔
5۔
اچھی صحبت کا اہتمام کریں۔ بچوں کے دوستوں اور ماحول پر نظر رکھیں تاکہ وہ غلط صحبت
سے بچ سکیں۔
6۔
عمر کے مطابق تربیت کریں۔ ہر بچے کی عمر، سمجھ، اور ضروریات کے مطابق تربیت کا
طریقہ اپنائیں۔
7۔
ذمہ داری سکھائیں۔ بچوں کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دیں تاکہ ان میں احساس ذمہ داری
پیدا ہو۔
8۔
وقت دیں۔ اولاد کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی باتیں سنیں اور ان کی دلچسپیوں میں شامل
ہوں۔
9۔
نرمی اور سختی میں توازن رکھیں۔ زیادہ سختی بچوں کو باغی بنا سکتی ہے، جبکہ ضرورت
سے زیادہ نرمی انہیں لاپرواہ کر سکتی ہے۔
10۔
سزا اور انعام کا اصول اپنائیں۔ اچھے کاموں پر انعام دیں اور غلطیوں پر مناسب
انداز میں سمجھائیں۔
11۔
اخلاقی تربیت دیں۔ بچوں کو سچائی، ایمانداری، صبر، اور احسان جیسی صفات اپنانے کی
ترغیب دیں۔
12۔
موبائل اور انٹرنیٹ کا استعمال محدود کریں۔ بچوں کے لیے موبائل اور انٹرنیٹ کے
استعمال کے لیے اصول بنائیں اور اس پر عمل کروائیں۔
13۔
مثبت گفتگو کریں۔ اولاد سے ہمیشہ مثبت اور حوصلہ افزا گفتگو کریں تاکہ ان میں خود
اعتمادی پیدا ہو۔
14۔
غلطیوں پر فوری ردعمل نہ دیں۔ اگر بچہ کوئی غلطی کرے تو فوری غصے کا اظہار نہ کریں
بلکہ مناسب وقت پر اسے سمجھائیں۔
15۔
عبادت کی عادت ڈالیں۔ بچوں کو نماز، قرآن کی تلاوت، اور دعا کی اہمیت سکھائیں اور
ان کے ساتھ عبادت کریں۔
16۔
صبر کا مظاہرہ کریں۔ بچوں کی تربیت میں صبر کریں، کیونکہ اصلاح کا عمل وقت لیتا
ہے۔
17۔
روایات اور اقدار سے روشناس کرائیں۔ بچوں کو اپنی تہذیب، دین، اور خاندان کی اقدار
سے آگاہ کریں۔
18۔
حوصلہ افزائی کریں۔ بچوں کے اچھے کاموں کو سراہیں تاکہ ان میں مزید بہتر کرنے کا
جذبہ پیدا ہو۔
19۔
غلط صحبت سے بچائیں۔ اولاد کو برے دوستوں اور بری عادات سے دور رکھنے کے لیے ان پر
نظر رکھیں۔
20۔
خود اعتمادی پیدا کریں۔ بچوں کو اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت دیں تاکہ وہ خودمختار
اور مضبوط شخصیت بن سکیں۔
اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت محمد انور، جامعۃ
المدینہ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ

والدین
کے رتبے پر فائز ہونے والے ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین
تعلیم وتربیت کریں جس کے لیے وہ اپنی محنت صرف کرتے ہیں اور انکی خواہش ہوتی ہے کہ
ہماری اولاد نیک اچھی کامیاب بنے۔
اولاد
کو سدھارنے اور اچھی تربیت کرنے کے لیے انہیں ترغیب دلانے یا صرف نصیحت کرنے پر
اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اولاد کے لیے ہمیں پہلے اپنے اندر عملی تبدیلی لانی
ہوگی جیسے کہ تجربہ شدہ بات ہے کہ اکثر والدین جو کہتے ہیں بچہ وہ نہیں کرتا بلکہ
جو والدین کرتے ہیں وہ دیکھ کر عمل کرتا ہے۔بڑے کتاب پکڑیں گے تو یقینا بچہ بھی
کتاب پکڑے گا۔ آئیے اس حوالے سے کچھ مشوروں کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اپنی
اولاد کی اصلاح کیجیے: اگر بچہ آگ کی طرف بڑھ رہا ہو تو والدین جب تک دوڑ کر آپنے
بچے کو پکڑ نہ لیں انہیں چین نہیں آتا۔مگر افسوس یہی اولاد اگر رب کریم کی
نافرمانی میں لگ جائے جہنم کی آگ کی طرف بڑھنے لگے تو والدین توجہ ہی نہیں دیتے۔ بچہ
اسکول سے چھٹی کر لے تو اسے اچھا خاصا ڈانٹا جاتا ہے لیکن نماز فجر کے لیے سرزنش
نہیں کی جاتی۔ (تربیت اولاد، ص 170)
اولاد
کو سدرھانے کے لیے انکی اصلاح کا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ ان کی اصلاح بھی ہوجائے
اور وہ والدین سے باغی بھی نہ ہوں،بچوں کے جذبات بہت نازک ہوتے ہیں ان کو ابھی
تجربات حاصل نہیں ہوتے۔
مومنوں
کی امی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: نرمی جس
چیز میں ہوتی ہے اسے زنیت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب
دار کر دیتی ہے۔ (تربیت اولاد، ص 171)
بچوں
کو دھمکیاں نہ دیں اور نہ ہی غصے میں سزا دیں۔بچے کی غلطی پر مختلف القابات مثلاً
چور مکار جھوٹا وغیرہ ہر گز نہ کہیں کہ بچہ یہ سن سن کر ہی یہ نہ سوچے کہ میں کیوں
نہ ایسا بن جاؤں تو اسکا بہت منفی اثر پڑے گا لہذا یہ سخت غلطی نہ کریں۔
اگر
بچہ بار بار ایک ہی غلطی کو دہراتا ہے تو حکمت سے سمجھایا جائے پھر بھی باز نہ آئے
تو ہلکی سزا دینے میں حرج نہیں۔
دین
کی جانب مائل کریں: والدین کو چاہیے کہ بچوں کو دین کی جانب مائل کریں تبھی وہ
سیدھی راہ پر رہیں گے۔
اس کے
لیے والدین مستقل مزاجی اپنائیں، نماز کی معلومات فراہم کرنے کے ساتھ نماز کے لیے
چستی کا اظہار کریں گھر میں سنتوں کا ماحول رکھیں نیک لوگوں کے واقعات سنائے تاکہ
بچپن سے ہی انکے ذہن میں عبادت گزار اسلاف کے عمل سے ذوق عبادت پیدا ہو۔ نیز تفریح
کے لیے دینی سرگرمیاں رکھیں انہیں ڈرائنگ میں مسجد کتاب تسبیح وغیرہ کی تصاویر
بنانا سکھائیں،اچھے کاموں پر ہمیشہ انکی حوصلہ افزائی کریں، خاص طور پر بچوں کے
دوستوں پر نظر رکھیں کہ صحبت اپنا کافی اثر چھوڑتی ہے۔ گھر میں بچوں کی اصلاح کا
سب سے بہترین ذریعہ مدنی چینل اور اس پر لگنے والے کڈز پروگرامز بھی ہیں اس کے
علاوہ دینی محافل اجتماعات میں بچوں کو ساتھ لے کر جائیں تا کہ وہ دینی تقربیات کو
دیکھیں اور اس کو قبول کریں اور انکی مثبت تربیت ہو۔