نافرمان اولاد ساری زندگی کا روگ ہوتی ہے والدین کے حکم کی تعمیل نہ کرنے والی اولاد کی رنج سے اچھا بلا انسان پریشان ہو کر بہت سے غلط عقدمات اٹھاتا ہے نافرمان اولاد گمراہ ہوتی ہے بہت سے والدین ایسی اولاد کے ہاتھوں مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ اولاد جرم میں ملوث ہو جاتی ہیں اور نشہ بھی کرتی ہیں انہیں عدالتوں میں بھی خوار ہونا پڑتا ہے ایسی اولاد تعلیم سے بھی محروم ہو جاتی ہیں لیکن کئی صورتوں میں پڑھی لکھی اولاد کے ہاتھوں بھی والدین کو تکلیف اٹھانی پڑتی ہے یہ کتنی ظلم اور شرم کی بات ہے کہ والدین جنہوں نے پال پوس کر اپنے منہ کا لقمہ اولاد کے منہ میں ڈال کر اس سے پالا ہوتا ہے وہی ان کے برابر کا سہارا نہیں بن پاتی۔

والدین کو چاہیے کہ وہ خود ایسے حالات پیدا نہ کریں اگر اولاد میں گستاخی اور نافرمانی کا رویہ دیکھیں تو فوری اللہ سے رجوع کریں بعد ازاں نماز عشاء اول آخر اسم ربی یا نافع 41 سو بار 21 دن تک پڑھیں ان شاء اللہ بچوں کی غلط عادتیں چھوٹ جائیں گی۔

جو لوگ ذمہ دار ہوتے ہیں ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اگر انہیں کوئی کام دیا جائے اور وہ اس سے اچھی طرح سے اور اچھے وقت پر پورا کرتے ہیں۔

بچوں کی پرورش کے لیے ماہرین کہتے ہیں کہ جب بچہ 15 مہینے کے ہوتے ہیں تو وہ تب سے ہی ماں باپ کی بات ماننے کے قابل ہوتے ہیں اور جب بچے 18 مہینے کے ہوتے ہیں تو ان میں وہی کام کرنے کی خواہش ہوتی ہے جو ان کے ماں باپ ان کے سامنے کرتے ہیں، کئی ملکوں میں یہ دستور ہے کہ جب بچے پانچ سے سات سال کے ہو جاتے ہیں تو ان کے ماں باپ انہیں گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کرنا سکھانے لگتے ہیں حالانکہ بچے چھوٹے ہوتے ہیں پھر بھی وہ اچھی طرح سے کر پاتے ہیں۔

ذمہ دار شخص بننا کیوں ضروری ہے مغرب میں یہ رجحان بہت عام ہے کہ کئی نوجوان اپنے بل بوتے پر زندگی گزارنے کے لیے اپنے گھر سے الگ رہنے لگتے ہیں مگر پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے پاس لوٹ آتے ہیں بچوں کی ابھی سے تربیت کریں جن بچوں کو ذمہ دار شخص بنانا سکھایا جاتا ہے وہ بڑے ہو کر اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھا پاتے ہیں اپنی مثال سے بچوں کو سکھائیں کیا میں محنتی ہوں کیا میں سارے کام اچھے طریقے سے کرتی ہوں کیا میں اپنی غلطی مانتی ہوں۔

ایک والدہ کہتی ہیں: میرے بچے بچپن سے ہی گھر کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹاتے تھے کہ جب میں کھانا بناتی تو وہ میری مدد کرتے انہیں میرے ساتھ کام کرنا بہت اچھا لگتا تھا انہیں اس میں بہت مزہ آتا تھا اسی لیے انہوں نے ایک ذمہ دار بننا سیکھ لیا محنت مشقت کرنے میں بہت فائدے ہیں چھوٹے بچوں کو اپنے والدین کے ساتھ کام کرنا اچھا لگتا ہے لہذا اس بات کا فائدہ اٹھائیں اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے کام کرنے کا کہیں لیکن کچھ ماں باپ ایسا نہیں کرتے کہ بچوں میں تو ویسے ہی پڑھائی کا بوجھ ہے مگر دیکھا جائے جو بچے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں وہ پڑھائی بھی کر لیتے ہیں گھر کے کام سے بچے یہ سیکھتے ہیں انہیں جو کام دیا گیا ہے انہیں پورا کرنا چاہیے۔

پھر یہ ماں باپ کی بات ماننا سیکھ جاتے ہیں انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کے ماں باپ کے ساتھ وقت گزارنا کتنا اچھا ہوتا ہے۔

اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے فائدے: بچوں سے غلطی تو ضرور ہوگی مگر ماں باپ کو یاد رکھنا چاہیے کہ بچے غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں۔

ماں باپ کو بھی چاہیے اپنے بچوں سے نرمی سے پیش آئیں اولاد کو بھی چاہیے کی ماں باپ کی ہر بات مانے اس سےگھر میں بھی خوشحالی آئے گی لہذا اپنے بچوں کو دین سکھائیں۔

والدین شریعت کے پابند اور علم دین حاصل کرنے کےشوقین ہوں تو ان کی نسلیں بھی نیکیوں کے راستے پر چلتی ہیں اور والدین کی نجات و بخشش اور نیک نامی کا سبب بنتی ہیں اوراگر والدین خودبری عادتوں کے شکار ہوں تو اولادمیں بھی وہی برائیاں منتقل ہوجاتی ہیں اور ایسی اولاد سبب نجات نہیں بلکہ سبب ہلاکت بن جاتی ہے۔یاد رکھئے!اولادکی درست تربیت کرنا ماں باپ دونوں ہی کی ذمہ داری ہے مگر باپ کمانے کا بہانہ بنا کر تربیت اولاد کی ذمّہ داری بچوں کی ماں پر ڈال کر خود کو اس ذمہ داری سے بچانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ بچوں کی ماں گھر کےکام کاج کا عذر پیش کرکے تربیت اولاد کا اصل ذمّہ دار اپنے شوہر کو قرار دیتی ہے،پھر ہوتا یہ ہے کہ ایسی اولادہاتھوں سے نکل کر گھر والوں کیلئے باعث زحمت بن جاتی ہے۔لہٰذا والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئےاولاد کوبچپن ہی سے نیک اور معاشرے کا باکردار فرد بنانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بچپن میں جوچیزسیکھی جاتی ہے،اس کے اثرات مضبوط ہوتے ہیں۔

آئیے! تربیت اولاد کے بارے میں مدنی مصطفٰےﷺ کےمہکے مہکے 4فرامین سنئے:

1۔ رسول انور ﷺ نے(جب) یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔توصحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ! ہم اپنے گھر والوں کو کس طرح آگ سے بچائیں؟تونبیّ کریم ﷺنے فرمایا:انہیں ان کاموں کا حکم دو جو اللہ پاک کوپسند ہیں اوران کاموں سے منع کرو جو اللہ پاک کو ناپسند ہیں۔

2۔ ارشادفرمایا:اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو(1)اپنے نبی(ﷺ) کی محبّت (2)اہل بیت کی محبّت اور(3)قرآن پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

3۔ ارشادفرمایا:اولادکا والدپر یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث:8658)

4۔ ارشاد فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا انعام نہیں دیا،جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/383،حدیث: 1959) حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار، متّقی، پرہیزگار بنانا ہے۔ اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیّہ (انعام)کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں کام آتی ہے۔ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں، انہیں دیندار بنا کر جائیں، جو خود انہیں بھی قبر میں کام آوے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مردہ کوقبر میں ملتا ہے۔ (مرآۃ المناجیح،6/565ملتقطاً)

بچوں کی اسلامی تعلیم و مدنی تربیت کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی کیونکہ آج ہر طرف شیطانی کاموں اورگناہوں کے آلات کی بھرمار ہے اور اولاد کو صرف دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنے کا رجحان زور پكڑتا جارہا ہے،جبکہ پہلے کے دور میں اولاد کے لئے دینی تعلیم کوزیادہ حیثیّت دی جاتی تھی،شاید یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں والدین کے ساتھ ساتھ ان کی اولاد بھی پرہیزگار اورفرمانبردارہوتی تھی مگر اب دنیوی تعلیم کو ترجیح دی جانے لگی ہے، یہی وجہ ہےکہ اسکولوں میں بھاری فیسوں کی ادائیگی اورہرآسائش وسہولیات کی فراہمی اس لیے کی جاتی ہے کہ بچوں کادنیوی مستقبل روشن ہوجائے،اچھی نوکری(Job) لگ جائے،خوب بینک بیلنس جمع ہوجائے حتّٰی کہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے والدین اپنی اولادکوبیرون ملک پڑھنے کیلئےبھی بھیج دیتے ہیں۔یوں دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچہ پکا دنیا دار،اچھا بزنس مین اور ماڈرن تو بن جاتاہے مگر نیک،عاشق رسول اور باعمل مسلمان نہیں بن پاتا۔والدین ان فضائل کواسی صورت میں پاسکتے ہیں جب خود علم و عمل اور سنّتوں کے پیکر،خوف خدا رکھنے والے اورعلم دین سے محبّت رکھنے والے ہوں گے۔اگرہم بھی ان خوبیوں سے آراستہ ہونا چاہتے ہیں تو عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیں، ان شآء اللہ ہماری آنے والی نسلیں سنور جائیں گی۔ ان شاءاللہ

اولاد کو سدھارنے اور ان کی بہترین تربیت کرنا والدین کی بنیادی اور اہم ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری نہ صرف دنیاوی اعتبار سے اہم ہے بلکہ دینی اعتبار سے بھی بہت بڑی نیکی اور عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث میں اس کی اہمیت کو بار بار واضح فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔اس آیت میں واضح طور پر والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اعمال کو درست کریں بلکہ اپنے گھر والوں، خاص طور پر بچوں کی بھی تربیت کریں تاکہ وہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہ سکیں۔ امام طبری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیں جو انہیں گناہوں سے بچائے اور اطاعت الٰہی پر قائم رکھے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ایک آدمی اپنے اہل خانہ کا نگران ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

یہ حدیث والدین کی ذمہ داری کو مزید واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔

اولاد کو سدھارنے کے عملی طریقے:

1۔ دینی تربیت: بچوں کو بچپن سے دین کے بنیادی اصول سکھائیں، جیسے نماز، قرآن کی تلاوت، اور اخلاقی اقدار۔

2۔ اچھے اخلاق کی تعلیم: انہیں سچ بولنے، احترام کرنے، اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی عادت ڈالیں۔

3۔ اچھی صحبت: بچوں کو نیک لوگوں اور اچھے ماحول میں رکھیں تاکہ وہ مثبت اثرات لے سکیں۔

4۔ عملی نمونہ بنیں: والدین خود اپنے عمل سے بچوں کے لیے مثال بنیں، کیونکہ بچے باتوں سے زیادہ عمل سے سیکھتے ہیں۔

5۔ تعلیم و تربیت میں توازن: دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم میں بھی ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکیں۔

والدین کی حقیقی ذمہ داری صرف دنیاوی آسائشیں فراہم کرنا نہیں، بلکہ اپنی اولاد کو دین کی سمجھ دینا اور انہیں اللہ کی ناراضگی سے بچانے کی کوشش کرنا ہے۔ کیونکہ دنیاوی مال و دولت عارضی ہے، لیکن آخرت کی کامیابی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

6۔ دعائیں کریں: اللہ سے ہمیشہ اپنے بچوں کی بھلائی اور ہدایت کی دعا مانگتے رہیں۔

اولاد کی تربیت میں محنت اور وقت صرف کرنا والدین کے لیے ایک آزمائش بھی ہے اور انعام بھی۔ اگر والدین اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں تو نہ صرف بچے نیک اور صالح بنیں گے بلکہ والدین کے لیے بھی صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے۔

رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور اسلامی تربیت کے اصول بچوں کی اخلاقی، دینی، اور سماجی زندگی کی بنیاد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس بات کی طرف واضح رہنمائی دیتی ہے۔

اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں (نرمی کے ساتھ) مارو اور ان کے بستروں کو الگ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)

بچوں کی تربیت کے اصول:

1۔ عمر کے مطابق ہدایات: سات سال کی عمر: اس عمر میں بچوں کو نرمی، محبت اور اچھے رویے کے ذریعے نماز کی عادت ڈالیں۔ انہیں نماز کے فضائل، اور اس کے اجر و ثواب کے بارے میں بتائیں۔ دس سال کی عمر: اس عمر تک بچے شعور اور ذمہ داری کا فہم رکھتے ہیں۔ اگر وہ نماز میں سستی کریں تو مناسب حد تک سختی کی اجازت ہے، لیکن یہ سختی صرف تربیت کے لیے ہو، نہ کہ ظلم یا زیادتی کے لیے۔

2۔ نرمی اور سختی کا توازن: بچوں کو پہلے نرمی اور محبت سے سمجھانا چاہیے۔ اگر وہ غلطی کریں تو ان پر سختی تب کی جائے جب وہ بدنی اور عقلی طور پر اس کو سمجھ سکیں اور برداشت کر سکیں۔

3۔ بری صحبت سے دوری: بچوں کو خراب صحبت سے بچائیں کیونکہ بری صحبت اکثر ان کے اخلاق اور کردار پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ ان کی صحبت کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

4۔ مثالی شخصیات کو رول ماڈل بنانا: سلف صالحین کے اقوال اور طرز زندگی کو بچوں کے سامنے پیش کریں۔ انہیں صحابہ، تابعین اور نیک لوگوں کے واقعات سنائیں تاکہ ان میں اچھے اخلاق اور نیک اعمال کا جذبہ پیدا ہو۔

5۔ تعلیم و ادب کی اہمیت: بچوں کو قرآن، دین کے ضروری احکام، ادب اور زبان سکھائیں۔ ان کی زبان اور کردار کو بہتر بنانے پر خاص توجہ دیں۔

6۔ انعام و سزا کی حکمت عملی: انعام: بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر وہ اچھا کام کریں یا اپنی ذمہ داری نبھائیں تو انہیں انعام، تحفے یا تعریف سے نوازیں۔ سزا: غلط کام کرنے پر پہلے سمجھائیں، پھر دھمکائیں، اور آخر میں ہلکی جسمانی سزا دیں، لیکن یہ صرف اس صورت میں ہو جب ضروری ہو۔

7۔ ہر بچے کا انفرادی مزاج: بچوں کے مزاج کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہر بچے کو ایک جیسی تربیت نہیں دی جا سکتی۔ جو بچے نرم مزاج ہوں، ان کے ساتھ زیادہ نرمی اور محبت سے پیش آئیں، اور جو ضدی ہوں، ان کے ساتھ حکمت اور مناسب سختی اختیار کریں۔

اسلامی تعلیمات والدین کو بچوں کی تربیت کے لیے ایک واضح اور متوازن رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ نرمی، محبت، سختی، اور حکمت کے ذریعے بچوں کو دین، اخلاق اور کردار کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کے لیے تیار کریں۔

آج کل تقریباً ہر والدین کا ہی یہ مسئلہ ہے کہ اولاد کو سدھاریں کیسے؟ اس میں کچھ غلطیاں والدین کی بھی ہے اگر والدین اپنی اور بچوں کی یہ غلطیاں دور کر دے تو ممکن ہے کہ اولاد سدھر جائے اور فرمانبرداری کرنے والی بن جائے۔

مندرجہ ذیل میں دیئے گئے یہ چند طریقے ملاحظہ فرمائیں:

1: والدین اپنے بچوں پر غور کرے کہ کہیں وہ کسی غلط صحبت میں تو نہیں رہ رہے اس کے دوست کیسے ہے کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انسان اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر شخص کو دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کا دوست نیک اور صالح متقی ہو تو وہ اس سے نیکی کا وصف حاصل کرے گا۔

اگر اولاد کسی غلط صحبت میں رہ رہی ہیں تو انہیں اس غلط صحبت سے دور کر ئے اور اور اچھی صحبت کا عادی بنا ئے جیسے علماء کرام،مفتیان کرام کی صحبت۔

2: گھر کا ماحول بچے پر بہت اثر کرتا ہے اگر گھر میں لڑائی جھگڑے والا ماحول ہو گا تو بچے کی ذہنیت پر برا اثر پڑے گا جبکہ اس کے برعکس گھر کا ماحول سکون اور پیارو محبت والاہو گا تو بچہ بھی پیارو محبت سیکھے گا اگر بڑے اپنے بڑوں کا ادب واحترام کرے گے تو بچے بھی ایسا ہی کرے گے اگر اولاد کو سدھارنا ہے تو گھر کا ماحول صحیح کرنا پڑے گا۔

3: آج کل والدین اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم دلوانے میں لگے رہتے ہیں اور دینی تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے جب ان کو والدین،رشتےداروں کے حقوق معلوم ہی نہیں ہوں گے دین کا پتہ نہیں ہو گا اچھے برے کی تمیز نہیں ہو گی تو وہ کیسے سدھرے گئی دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کو دینی تعلیم بھی دلوائے اس طریقے سے بھی بہت سے نافرمان سدھر گئے ہیں۔

4: والدین اپنی کاروباری،گھریلوں زندگی میں اتنے مصروف ہو جا تے ہیں کہ انہیں اپنی اولاد کو وقت دینے کا وقت ہی نہیں ملتا جب اولاد کو وقت نہیں دیں گے اچھی بری بات نہیں سکھائیں گے تو وہ کیسے اچھے بن سکیں گے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو وقت دے اچھی تربیت کرے اچھی بری بات بتائے ہر چیز میں رہنمائی فرمائیں اولاد سے دوستی کرے تاکہ وہ کوئی بات نہ چھپائے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار اور سچا عاشق رسول بنائے۔

انسان کو دنیا میں مختلف طرح سے آزمایا جاتا ہے کبھی کسی چیز کی کثرت سے کبھی کمی سے کبھی غم سے تو کبھی خوشی سے یونہی اولاد بھی والدین کے لیے آزمائش ہے کیونکہ نعمت ہے اور نعمت بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے کہ بندہ شکر ادا کرتا ہے یا نہیں۔جن کو اللہ پاک نے اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے اولاد کی درست تربیت والدین کی ذمہ داری ہے والدین کو چاہیئے کہ اپنی اس نعمت کی حفاظت کریں اگر بچے بگڑ جائیں تو انکی اصلاح کی طرف اپنی توجہ ملحوظ رکھے۔

فرمان آخری نبی ﷺ: کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے اور وہ اس کے لیے ایک صاع صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ (ترمذی، 3/382، حدیث: 1958)

بگڑی اولاد کو سدھارنے کے چند طریقے:

نرمی اپنائی جائے: اولاد کے ساتھ جارحانہ رویہ اختیار نہ کیا جائے ورنہ بچے مزید بگڑجاتے ہیں بلکہ نرمی کے ساتھ انکو سمجھانے کی کوشش کی جائے۔

احساس ذمہ داری پیدا کیجیے: بچے اگر اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں مثلا اسباق جو گھر کے پڑھنے کیلیے ملے ہیں وہ نہ پڑھیں یا ویسے ہی پڑھائی کی طرف دھیان نہ دیں تو انکو ناکام لوگوں کی زندگیوں کے متعلق بتائیے کہ انکی ناکامی کی وجوہات کیا بنی امید ہے یوں احساس ذمہ داری کا ذہن بنے گا۔

وقت دیجیے: اولاد کے بگڑنے کا ایک اہم سبب والدین کا توجہ نا دینا باقاعدہ وقت نا دینا بھی ہے، یوں اولاد غیروں کے ہاتھ لگ کر بربادی کا شکار ہو جاتی ہے اپنی مصروفیات کا ایسا جدول بنایا جائے جس میں بچوں کے لیے خاص طور پر وقت ہو۔

دینی ماحول سے وابستگی: دعوت اسلامی کا اسلامی کا دینی ماحول بگڑوں کو سنوارنے نافرمانوں کو فرمانبردار بنانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے جس کا معاشرہ پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔اولاد کو اس پیاری تحریک کے ساتھ وابستہ کیجیے۔

ان شاءاللہ الکریم دنیا میں آپکی فرمانبردار ہو جائے گی اور آپ مربھی جائیں گے تو بھی آپکو نہیں بھولے گی۔

سرگرمیاں بدلیے: انکی سرگرمیوں پر توجہ دیجیئے کہ کونسے کام ہیں جو بچے کی بگاڑ کا سبب بن رہے اور انکی صحبتوں پر بھی خاص توجہ دی جائے کہیں ایسوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ ہو جو بری عادات میں پڑے ہوئے ہوں۔

پیاری اسلامی بہنو! بروں کی صحبت برا اور اچھوں کی صحبت اچھا پھل لاتی ہے لہذا انکی مشغولیات و صحبتوں کو درست کیجیے۔

سوشل میڈیا سے دور کیجیئے: سوشل میڈیا کے برے و غیر فائدہ استعمال سے بچوں کو روکئے ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو دیکھتا ہو جو بگڑے ہوئے ہو اور یہ بھی انکا ہی طریقہ اپنا رہا ہو۔

سوشل میڈیا کے جہاں فوائد ہیں وہی نقصانات بھی بہت ہیں اپنے بچوں کو صرف اور صرف اچھے استعمال کی اجازت دی جائے۔

اے اسلامی بہنو! اولاد کو سدھارنے کے چندمذکورہ بالا طریقوں پر اگر عمل رہا تو اچھے نتائج ملیں گے۔

اللہ پاک سے مدد مانگیئے اور بہت ضروری بات کہ دیکھا جائے کہ گھر کا ماحول درست ہے کہ نہیں کہیں گھر کا ماحول کی تو بچے کے سدھار میں رکاوٹ نہیں ہے ان سب پر توجہ دی جائے گی تو ان شاءاللہ الکریم کامیابی ملے گی۔

اللہ پاک سب کے بچوں کو اپنے والدین کا فرمانبردار بنائے۔ آمین

ماں باپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ بچپن میں جو اچھی یا بری عادتیں بچوں میں پختہ ہو جاتی ہیں وہ عمر بھر نہیں چھوٹتی ہیں اس لیے ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو بچپن ہی میں اچھی عادتیں سکھائیں اور بری عادتوں سے بچائیں۔

بعض لوگ یہ کہہ کر کہ ابھی بچہ ہے بڑا ہو گا تو ٹھیک ہو جائے گا بچوں کو شرارتوں اور غلط عادتوں سے نہیں روکتے وہ لوگ درحقیقت بچوں کے مستقبل کو خراب کرتے ہیں اور بڑے ہونے کے بعد بچوں کےبرے اخلاق اور گندی عادتوں پر روتے ہیں اس لیے نہایت ضروری ہے کہ بچپن ہی میں اگر بچوں کی کوئی شرارت یا بری عادت دیکھیں تو اس پر روک ٹوک کرتے رہیں بلکہ سختی کے ساتھ ڈانٹتے رہیں۔اور طرح طرح سے بری عادتوں کی برائیوں کو بچوں کے سامنے ظاہر کر کے بچوں کو ان خراب عادتوں سے نفرت دلاتے رہیں اور بچوں کی خو بیوں اوراچھی اچھی عادتوں پر خوب شاباش کہہ کر ان کا دل بڑھائیں۔بلکہ کچھ انعام دے کر ان کا حوصلہ بلند رکھیں۔

ماں باپ پر لازم ہے کہ ان باتوں کا خاص طور پر دھیان رکھیں تاکہ بچوں اور بچیوں کا مستقبل روشن بن جائے۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں اولاد کو کیا کیا سکھانا چا ہیے ملاحظہ فرمائیے:

ہر شخص نگران ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ایک آدمی اپنے اہل خانہ کا نگران ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

یہ حدیث والدین کی ذمہ داری کو مزید واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔

اپنی اولاد کو نماز سکھائیں: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں(نرمی کے ساتھ )مارو اور ان کے بستروں کو الگ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)

اولاد کے لیے والدین کی طرف سے سب سے بہتر عطاء: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی باپ اپنے بیٹے کو نیک ادب اور صحیح تربیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دیتا۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

مطلب یہ ہے کہ ایک باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ قیمتی اور سب سے زیادہ مفید ہو سکتی ہے وہ صحیح تعلیم و تربیت ہے۔

اپنی اولاد کو تین باتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی ﷺ کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن کریم کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

ہر ماں باپ کا فرض ہے کہ بچوں اور بچیوں کو ہر برےکاموں سے بچائیں اور ان کو اچھے کاموں کی رغبت دلائیں تاکہ بچے اور بچیاں اسلامی آداب واخلاق کے پابند اور ایمان داری و دینداری کے جوہر سے آراستہ ہو جائیں اور صحیح معنوں می مسلمان بن کر اسلامی زندگی بسر کرے۔

بچوں کو بچپن ہی سے اس بات کی عادت ڈالو کہ وہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں۔وہ اپنا بچھونا خود اپنے ہاتھ سے بچھائیں اور صبح کو خود اپنے ہاتھ سے اپنا بستر لپیٹ کر اس کی جگہ پر رکھیں اپنے کپڑوں کو خود سبنھال کر رکھیں۔

بچے اور بچیاں کوئی کام چھپ چھپا کر کریں تو ان کی روک ٹوک کرو کہ یہ اچھی عادت نہیں۔

بچوں اور بچیوں کو کھانے،پہننے،اور لوگوں سے ملنے ملانے اور محفلوں میں اٹھنےبیٹھنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھاناماں باپ کے لیے ضروری ہے۔

چلنے میں تاکید کرو کہ بچے جلدی جلدی اور دوڑتے ہوے نہ چلیں اور نظر اوپر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوے نہ چلیں اور نہ بیچ سڑک پر چلیں بلکہ ہمیشہ سڑک کےکنارے کنارے چلیں۔

بچے غصہ میں اگر کوئی چیز توڑ پھوڑ دیں یاکسی کو مار بیٹھیں تو بہت زیادہ ڈانٹو بلکہ مناسب سزا دو تاکہ بچے پھر ایسا نہ کریں اس موقع پر لاڈ پیار نہ کرو۔

بچوں کی ہر ضد پوری مت کرو کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ضدی ہو جاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نہیں چھوٹتی۔

بچوں کے ہاتھ فقیروں کو کھانا اور پیسہ دلایا کرواسی طرح کھانے پینے کی اشیاء بچوں کے ہاتھ سے اسکے بھائی بہنوں کو یا دوسرےبچوں کو دلایا کرو تاکہ سخاوت کی عادت ہو جائے اور خود غرضی اور نفس پروری کی عادت پیدا نہ ہو اور بچہ کنجوس نہ ہو جائے۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنی اولاد کی تربیت قرآن و حدیث کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اولاد کو سدھارنے کے کئی طریقے ہیں جو والدین کی رہنمائی اور محبت پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم طریقے دیئے جا رہے ہیں:

1۔ محبت اور توجہ: بچوں کو محبت اور توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ یہ ان کی خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے اور انہیں محفوظ محسوس کراتا ہے۔ جب بچے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے والدین ان کی پرواہ کرتے ہیں، تو وہ بہتر رویے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

2۔ مثالی کردار بنیں: والدین کو خود ایک اچھا کردار بننا چاہیے۔ بچے اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں، لہذا اگر آپ اچھے اخلاق اور رویے کا مظاہرہ کریں گے تو بچے بھی آپ کی پیروی کریں گے۔

3۔ قواعد و ضوابط: بچوں کے لیے واضح قواعد و ضوابط بنائیں اور ان پر عمل درآمد کروائیں۔ یہ ان کو سکھاتا ہے کہ کس طرح صحیح اور غلط میں فرق کرنا ہے۔

4۔ تعلیم و تربیت: بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں۔ انہیں مختلف موضوعات میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کریں اور ان کی ذہنی نشوونما میں مدد کریں۔

5۔ مثبت تنقید: بچوں کی غلطیوں پر تنقید کرتے وقت مثبت انداز میں بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ وہ کیا بہتر کر سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ صرف ان کی غلطیوں پر توجہ دیں۔

6۔ سماجی مہارتیں: بچوں کو دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی تربیت دیں۔ انہیں سکھائیں کہ کس طرح دوستانہ رویہ اپنایا جائے، دوسروں کا احترام کیا جائے، اور مسائل کو حل کیا جائے۔

7۔ وقت گزاریں: اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ان کے ساتھ کھیلیں، باتیں کریں، اور ان کی دلچسپیوں میں شامل ہوں۔ یہ ان کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔

8۔ مثبت ماحول: گھر میں ایک مثبت اور خوشگوار ماحول بنائیں۔ یہ ان کی ذہنی صحت کے لیے بہت اہم ہے اور انہیں بہتر رویے کی طرف مائل کرتا ہے۔

یہ طریقے بچوں کی تربیت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور انہیں بہتر انسان بنانے میں مدد کریں گے۔بیشک، بچوں کی تربیت میں احادیث کا بہت بڑا مقام ہے۔ یہاں کچھ احادیث ہیں جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتی ہیں:

1۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری، 1/457، حدیث: 1358) اس حدیث سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور یہ ان کی فطرت کے مطابق ہونی چاہیے۔

2۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے: تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کی تربیت میں ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔

3۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انسان کا اپنے بچے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذی، 3/382، حدیث: 1958)

یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بچوں کو صحیح ادب اور اخلاق سکھانا بہت اہم ہے۔

یہ احادیث ہمیں بتاتی ہیں کہ بچوں کی تربیت میں محبت، توجہ، اور صحیح اخلاق سکھانا کتنا ضروری ہے۔ جہاں تک اولادکو سکھانے کی بات ہے تو قرآن پاک سکھائے، سات برس کی عمر میں نماز کا حکم دینے کے ساتھ ہی نماز اور طہارت کے ضروری مسائل بھی سکھائے کہ سات سے نو برس کی عمر بچوں کی تربیت کے تعلق سے بالخصوص بچیوں کے لیے بےحد اہم ہے کہ بچیاں اس کے بعد کبھی بھی بالغہ ہو سکتی ہے۔ ان علوم کے سکھانے کے ساتھ ساتھ شرعی تقاضوں کے مطابق دنیوی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔ والدین پر اولاد کے جو حقوق اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے سیکھنے سیکھانے کے چند حقوق یہ ہیں:

زبان کھلتے ہی اللہ،اللہ پھر لا الٰہ الّا اﷲ پھر پورا کلمۂ طیبہ سکھائے۔ جب تمیزآئے ادب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے،چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ، بزرگوں کی تعظیم، ماں باپ، استاذ وغیرہ کا ادب سکھائےاور دختر (یعنی بیٹی) کوشوہرکی اطاعت کے طرق (یعنی طریقے) و آداب بتائے۔ قرآن مجید پڑھائے۔ استاذ نیک، صالح، متقی، صحیح العقیدہ، سنّ رسیدہ (یعنی بڑی عمر)کے سپرد کردے اور دختر کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے۔ بعد ختم قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔ عقائد اسلام و سنّت سکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی وقبول حق پرمخلوق ہے (یعنی چھوٹے بچے دین فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں یہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا) اس وقت کابتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔ حضور اقدس، رحمت عالم ﷺ کی محبت وتعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان وعین ایمان ہے۔ حضورپرنور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علما کی محبت و عظمت تعلیم کرے کہ اصل سنّت و زیور ایمان بلکہ باعث بقائے ایمان ہے(یعنی یہ محبت ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے)۔

سات برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔ علم دین خصوصاً وضو،غسل، نماز و روزہ کے مسائل توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامت صدور و لسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل،حرص وطمع، حب دنیا، حب جاہ، ریا، عجب، تکبّر، خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل(یعنی بری صفات) پڑھائے۔ خاص پسر (یعنی بیٹے)کے حقوق سے یہ ہے کہ اسے لکھناسکھائے۔ سورۂ مائدہ کی تعلیم دے۔ اعلان کے ساتھ اس کاختنہ کرے۔ خاص دختر (یعنی بیٹی) کے حقوق سے یہ ہے کہ اس کے پیدا ہونے پر ناخوشی نہ کرے بلکہ نعمت الٰہیہ جانے، اسے سینا،پرونا، کاتنا،کھانا پکانا سکھائے اورسورۂ نور کی تعلیم دے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/455 ملخصا)

اولاد کو سدھارنے کے لیے مختلف منفرد طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں جو ان کی شخصیت، عمر، اور ضروریات کے مطابق ہوں۔ یہاں کچھ مؤثر طریقے دیئے جا رہے ہیں:

1۔ مثالی رویہ: والدین کو خود ایک اچھا نمونہ بننا چاہیے۔ بچے والدین کے رویے سے سیکھتے ہیں، اس لیے اگر آپ ان سے محبت، احترام، اور ایمانداری کا سلوک کریں گے تو وہ بھی آپ کے نقش قدم پر چلیں گے۔

2۔ مثبت حوصلہ افزائی: بچوں کی اچھی عادات اور کارکردگی کی تعریف کریں۔ جب وہ کچھ اچھا کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ ان کے اعتماد کو بڑھاتا ہے اور انہیں بہتر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

3۔ کھلی بات چیت: بچوں کے ساتھ کھل کر بات کرنے کی عادت ڈالیں۔ ان کی باتوں کو غور سے سنیں اور ان کے خیالات کا احترام کریں۔ اس سے انہیں احساس ہوگا کہ آپ ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔

4۔ نظم و ضبط: بچوں کے لیے واضح اصول اور حدود مقرر کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ ان اصولوں کی پیروی کیوں ضروری ہے۔ نظم و ضبط سے انہیں ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔

5۔ تعلیمی سرگرمیاں: بچوں کو تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول کریں جیسے کہ کتابیں پڑھنا، سائنسی تجربات کرنا، یا فنون لطیفہ میں حصہ لینا۔ یہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے اور انہیں سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔

6۔ وقت گزارنا: اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، چاہے وہ کھیلنے کا وقت ہو یا کوئی مشترکہ سرگرمی۔ اس سے آپ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے اور بچے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

7۔ مشکلات کا سامنا: بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کی تربیت دیں۔ انہیں سکھائیں کہ ناکامی بھی سیکھنے کا حصہ ہے اور اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

8۔ جذباتی حمایت: بچوں کو یہ سمجھائیں کہ ان کے جذبات اہم ہیں۔ اگر وہ پریشان یا غمگین ہیں تو ان کی بات سنیں اور انہیں تسلی دیں۔

یہ طریقے آپ کی اولاد کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ ان کی ضروریات اور حالات کے مطابق طریقے اپنائیں۔اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین


اولاد کی تربیت والدین کی سب سے اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ بچوں کو درست راہ پر گامزن کرنے کے لیے محبت، حکمت، اور صبر کے ساتھ ایک متوازن رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ یہاں اولاد کو سدھارنے کے چند مفید طریقے دیے گئے ہیں:

1۔ محبت اور توجہ دیں: بچوں کے لیے والدین کی محبت اور توجہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ان کے جذبات کو سمجھیں اور انہیں اپنی اہمیت کا احساس دلائیں۔ محبت سے بات کریں اور ان کے مسائل سننے کے لیے وقت نکالیں۔

2۔ مثالی کردار پیش کریں: بچے وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ اچھے اخلاق اپنائیں، تو خود بھی مثالی کردار کا مظاہرہ کریں۔ سچ بولیں، وعدے نبھائیں، اور اچھے رویے کا مظاہرہ کریں۔

3۔ مثبت بات چیت کریں: ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کی بجائے بچوں سے محبت بھرے اور مثبت انداز میں بات کریں۔ اگر وہ کوئی غلطی کریں تو تحمل کے ساتھ انہیں سمجھائیں اور ان کی رہنمائی کریں۔

4۔ صحیح عادات سکھائیں: بچوں کو نماز، قرآن، اور اچھے اخلاق کی عادت ڈالیں۔ وقت پر کام کرنا، صفائی رکھنا، اور دوسروں کی مدد کرنا ان کی شخصیت کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

5۔ حوصلہ افزائی کریں: بچوں کی کامیابیوں کو سراہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر وہ ناکام ہوں تو ان کا ساتھ دیں اور دوبارہ کوشش کرنے کا درس دیں۔

6۔ دوست بنیں: بچوں کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق قائم کریں تاکہ وہ اپنے مسائل اور خیالات آپ سے بلا جھجک شیئر کرسکیں۔ اس سے آپ انہیں بہتر سمجھ سکیں گے۔

7۔ دعاؤں کا سہارا لیں: اولاد کی کامیابی اور اصلاح کے لیے دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور مدد طلب کریں، کیونکہ دعا والدین کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔

اولاد کو سدھارنا ایک مسلسل عمل ہے اگر والدین صحیح رہنمائی اور عملی نمونہ پیش کریں تو بچے خود بخود ایک بہترین شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے۔ آمین

بچوں کی تعلیم کے لیے کئی خاص طریقے ہیں جو ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں اور دلچسپیوں کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم طریقے دیئے گئے ہیں:

1۔ تفریحی سیکھنے کا طریقہ: بچوں کے لیے سیکھنے کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے گیمز، کہانیاں، اور تخلیقی سرگرمیاں شامل کی جا سکتی ہیں۔ اس سے بچوں کی توجہ برقرار رہتی ہے اور وہ بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں۔

2۔ عملی تجربات: بچوں کو عملی تجربات فراہم کرنا، جیسے کہ سائنس کے تجربات یا کھانا پکانے کے طریقے، ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی سیکھنے کی معلومات کو عملی زندگی میں استعمال کر سکتے ہیں۔

3۔ مشترکہ سیکھنا: گروپ میں سیکھنے سے بچے ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور اپنی سماجی مہارتوں کو بہتر بناتے ہیں۔ یہ انہیں اپنی رائے کا اظہار کرنے اور دوسروں کی رائے کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

4۔ مثبت حوصلہ افزائی: بچوں کی کامیابیوں پر تعریف اور حوصلہ افزائی انہیں مزید سیکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ یہ انہیں خود اعتمادی فراہم کرتی ہے اور سیکھنے کے عمل میں دلچسپی بڑھاتی ہے۔

5۔ وقت کی منصوبہ بندی: بچوں کے لیے ایک منظم شیڈول بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل اور آرام کا وقت بھی رکھ سکیں۔

اولاد کو نماز کی طرف لانے کے لیے آپ درج ذیل طریقے اپنا سکتے ہیں:

1۔ مثال بنیں: سب سے پہلے، خود نماز قائم کریں۔ جب اولاد آپ کو نماز پڑھتے دیکھے گی تو ان کی دلچسپی بڑھے گی۔

2۔ محبت سے بات کریں: اولاد سے محبت اور احترام کے ساتھ بات کریں۔ انہیں نماز کے فوائد، جیسے کہ روحانی سکون، اللہ کی رضا، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے بارے میں بتائیں۔

3۔ آہستہ آہستہ شروع کریں: اگر اولاد نماز نہیں پڑھتے تو انہیں آہستہ آہستہ نماز کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں۔ مثلاً، انہیں فجر کی نماز کے لیے اٹھانے کی کوشش کریں۔

4۔ نماز کی اہمیت سمجھائیں: اولاد کو یہ سمجھائیں کہ نماز روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ اللہ سے تعلق مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔

5۔ نماز کے اوقات بتائیں: انہیں نماز کے اوقات بتائیں اور ان کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے کی کوشش کریں۔

6۔ دعاؤں کا سہارا لیں: اللہ سے دعا کریں کہ وہ اولاد کے دل میں نماز کی محبت ڈالے اور انہیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

7۔ اجتماعی نماز کا اہتمام: اگر ممکن ہو تو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر باجماعت نماز پڑھنے کا اہتمام کریں۔

یاد رکھیں کہ صبر اور محبت سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ اللہ آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے۔

اولاد اللہ پاک کی طرف سے بہت ہی انمول تحفہ اور نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت ہے۔ بڑھاپے میں ہمارا سہارا ہے۔ اولاد ہی وہ نعمت ہے جس کی وجہ ہمارے نام و نسل باقی رہتی ہے۔ ہماری موت کے بعد ہمیں ایصال ثواب کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ہر انسان کی یہی تمنا ہوتی ہے کہ ہماری اولاد نیک ہو، فرماں بردار ہو جو دنیا میں بھی ہماری راحت و سکوں کا باعث بنے اور آخرت میں نجات کا ذریعہ بنے۔

اولاد کو نیک بنانے میں والدین کا بہت دخل ہوتا ہے۔ جو کوئی اولاد کی تربیت اچھی کرے اسکو اسکا صلہ ضرور ملتا ہے۔ اور جو کوئی تھوڑی سی کوتاہی کر دے اس کے لیے وہ اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ تو اس کے لیے والدین کو چاہئے کہ اولاد کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں۔ یہ والدین کی اول ذمہ داری ہے اس بارے میں معمولی سی کوتاہی بھی نہیں کرنی چاہئے۔ کیوں کہ اسکا نقصان یہ ہوتا کہ اولاد بگڑ جاتی ہے جیسا کہ آج کل ایک وافر تعداد ہے جو اس چیز کا رونا روتے نظر آتے ہیں جیسے کہ بات نہیں مانتیں، گالیاں دیتے، بد تمیز ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کاش! کہ والدین اولاد کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کریں۔

اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟ اس کے بہترین اصول ہمیں قرآن پاک میں ملتے ہیں۔ مثلا نیک اعمال کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے، اور ایسے ہی گناہگاروں کو گناہ کرنے پر جہنم کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔ اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی فضیلت کے متعلق حدیث مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔

فرمان مصطفٰی ﷺ ہے: ایک آدمی کا اپنی اولاد کو اچھا ادب سکھانا ایک صاع خیرات کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذی، 3/328،حدیث: 1958)

بچوں کی اخلاقی تربیت کس طرح کی جا سکتی ہے اس کے متعلق چند طریقے ملاحظہ کیجئے، جن پر عمل کر کے آپ اپنے بچوں کے اخلاق کو بہتر بنا سکتے ہیں:

اپنی سوچ بدلئے: والدین کی جو یہ سوچ ہے کہ بچے بڑے ہو کر سمجھ جائیں گے اور خاص دھیان نہیں دیتے بلکہ بعض حرکتوں پر تو ہنس دیا جاتا اور خوشی خوشی رشتہ داروں کو بھی بتایا جاتا ہے کہ ہمارا بچہ یہ سب کر رہا ہو اور اسکو ان سب باتوں اگرچہ وہ غلط ہی ہوں پیار ملتا ہے جو کہ بچے بگڑنے کا سبب ہے ایسے تو بچوں کی عادت پختہ ہو جائے گی لہذا بچپن سے ہی انکی اخلاقی تربیت کی جائے۔

پلاننگ کریں: ہر ضروری کام کو مکمل کرنے کے لیے پلاننگ بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے بغیر کام صحیح طریقے سے مکمل نہیں ہو سکتا۔ پلاننگ اس چیز کی کرنی ہے کہ کاموں سے بچنا ہوگا اور کون کون سے امور اختیار کرنے ہوں گے وغیرہ۔

اپنے طور طریقے میں تبدیلی لائیں: یہ حقیقت ہے کہ بچہ قول سے کم اور عمل سے زیادہ سیکھتا ہے، اپنے والدین اور قریب موجود دیگر افراد کو جو کچھ کرتے دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔ لہذا جیسے والدین چاہتے ہیں کہ انکا بچہ اچھے کام کریں ویسے ہی والدین کو چاہئے کہ خود بھی اس طرح کا عمل ہی کریں۔

بچوں کو سمجھائیے: بچے نا سمجھ ہوتے ہیں اس لیے کوئی بھی ایسا کام کر دیتے ہیں جو اخلاقیات کے خلاف ہوتے ہیں لیکن چونکہ بچوں کی حرکتیں سب کو بہت اچھی لگتی ہیں اور ان سے بچوں پر مزید پیار آتا ہے اور بچوں کو بار بار وہی کام کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اور وہی کام جب بڑا ہو کر کرے تو سب اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں لہذا والدین کو چاہئے کہ شروع ہی سے بچوں کو ایسی حرکت پر پیار سے سمجھا دینا چاہئے۔

اولاد کے لیے دعا: اولاد کے لیے عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں، حدیث پاک میں ہے کہ تین دعائیں ایسی ہیں جن کے مقبول ہونے میں کوئی شک نہیں:1۔مظلوم کی دعا 2۔مسافر کی دعا اور3۔ والد کی دعا اولاد کے لیے۔ (ترمذی،3 / 362،حدیث:1912)

محترم والدین! مذکورہ طریقے اپنا کر آپ اپنی اولاد کو سدھار سکتے ہیں اللہ کریم والدین کو اولاد کی تربیت قرآن و سنت کر مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اولاد کی تربیت والدین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ بچے قوم کا مستقبل اور والدین کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ بچوں کو ایک نیک، مہذب اور کامیاب انسان بنانے کے لیے درج ذیل طریقے اپنائے جا سکتے ہیں:

1۔ اچھی مثال قائم کریں: بچے عموماً والدین اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی نقل کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود ان اصولوں پر عمل کریں جو وہ اپنی اولاد میں دیکھنا چاہتے ہیں، جیسے دیانت داری، وقت کی پابندی، اور دوسروں کا احترام۔

2۔ محبت اور شفقت سے پیش آئیں: بچوں کے ساتھ محبت بھرے رویے سے پیش آئیں تاکہ وہ آپ پر اعتماد کریں۔ سختی اور چیخنے چلانے سے بچے بغاوت کی طرف جا سکتے ہیں جبکہ شفقت اور نرمی انہیں مثبت سمت میں لے جاتی ہے۔

3۔ اخلاقی تربیت: بچوں کو اچھے برے کی تمیز سکھائیں اور انہیں اخلاقی اقدار جیسے سچ بولنا، امانت داری، بڑوں کا ادب اور دوسروں کی مدد کرنا سکھائیں۔ دینی تعلیم کی بنیاد ڈالنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ اللہ کا خوف اور محبت دل میں رکھیں۔

4۔ مثبت گفتگو کریں: بچوں کو حوصلہ افزائی دینے والے جملے کہیں اور ان کی چھوٹی کامیابیوں پر تعریف کریں۔ حوصلہ افزائی انہیں خود اعتمادی دیتی ہے اور وہ بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

5۔ وقت دینا: بچوں کے ساتھ معیاری وقت گزاریں۔ ان کی بات سنیں، ان کے مسائل کو سمجھیں اور انہیں رہنمائی فراہم کریں۔ والدین کی توجہ بچوں کو غیر اخلاقی سرگرمیوں سے دور رکھتی ہے۔

6۔ تعلیم کی اہمیت: بچوں کو تعلیم کی اہمیت بتائیں اور انہیں علم حاصل کرنے کے لیے شوق دلائیں۔ اسکول کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف مہارتیں سکھائیں جو زندگی میں کام آئیں۔

7۔ غلطیوں پر مناسب رویہ اپنائیں: بچوں کی غلطیوں پر سخت ردعمل دینے کے بجائے سمجھداری اور صبر سے انہیں درست کریں۔ غلطی کی نشاندہی کریں مگر ساتھ ہی اصلاح کا طریقہ بھی بتائیں تاکہ وہ بہتر ہو سکیں۔

8۔ نظم و ضبط سکھائیں: بچوں کو وقت کا پابند بنائیں اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلائیں۔ نظم و ضبط انہیں زندگی میں کامیاب انسان بننے میں مدد دیتا ہے۔

9۔ دوستی کا رشتہ قائم کریں: بچوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھیں کہ وہ آپ سے اپنے مسائل اور راز بلا جھجھک شیئر کر سکیں۔ والدین کی حیثیت سے ساتھ ساتھ ان کے دوست بھی بنیں۔

10۔ ٹیکنالوجی کا استعمال معتدل کریں: بچوں کے موبائل، انٹرنیٹ اور دیگر ٹیکنالوجی کے استعمال پر نظر رکھیں اور انہیں مثبت سرگرمیوں جیسے کھیل، کتابیں پڑھنا اور تخلیقی کاموں کی طرف راغب کریں۔

11۔ دعا اور تربیت میں استقامت: اولاد کی اصلاح کے لیے والدین کو دعا کا سہارا لینا چاہیے۔ اللہ سے ہدایت اور نیک اولاد کی دعا کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔

اولاد کو سدھارنے کا عمل وقت اور محنت طلب ہے۔ والدین کو مستقل مزاجی اور حکمت سے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ بچوں کی صحیح تربیت نہ صرف والدین کی کامیابی ہے بلکہ یہ پوری قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ علم سیکھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اولاد کو سدھارنے کے کئی طریقے ہیں جو والدین کو مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ یہاں کچھ اہم نکات دیئے جا رہے ہیں:

1۔ مثالی رویہ: بچوں کے سامنے خود ایک مثالی رویہ پیش کریں۔ اگر آپ اچھے اخلاق، ایمانداری اور محنت کی مثال قائم کریں گے تو بچے بھی آپ کی پیروی کریں گے۔

2۔ محبت اور توجہ: بچوں کو محبت اور توجہ دیں۔ ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی باتیں سنیں اور ان کی ضروریات کو سمجھیں۔ یہ انہیں احساس دلائے گا کہ آپ ان کی فکر کرتے ہیں۔

3۔ تعلیم کی اہمیت: بچوں کو تعلیم کی اہمیت سمجھائیں۔ انہیں کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں اور ان کی تعلیمی سرگرمیوں میں دلچسپی لیں۔

4۔ حدود کا تعین: بچوں کے لیے واضح حدود مقرر کریں۔ انہیں بتائیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اور ان حدود کی پاسداری کریں۔

5۔ مثبت حوصلہ افزائی: جب بچے اچھا کام کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کی کامیابیوں پر تعریف کریں تاکہ وہ مزید محنت کرنے کی خواہش رکھیں۔

6۔ مشکلات کا سامنا: اگر بچے کسی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں تو انہیں سمجھائیں کہ مشکلات کا سامنا کرنے سے ہی انسان مضبوط ہوتا ہے۔ ان کی مدد کریں کہ وہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

7۔ دوستانہ ماحول: گھر میں دوستانہ اور خوشگوار ماحول بنائیں۔ بچوں کو محسوس ہونا چاہیے کہ وہ گھر میں محفوظ ہیں اور ان کی رائے اہم ہے۔

اولاد کو برے کاموں سے روکنے کے لئے کچھ طریقے ہیں جو آپ آزما سکتے ہیں:

1۔ بات چیت کریں: سب سے پہلے، اس کے ساتھ کھل کر بات کریں۔ اسے بتائیں کہ آپ کو اس کے برے کاموں کے بارے میں کیا تشویش ہے اور کیوں آپ چاہتے ہیں کہ وہ انہیں نہ کرے۔

2۔ مثبت متبادل پیش کریں: اس کو بتائیں کہ وہ اپنے وقت اور توانائی کو کس طرح بہتر طریقے سے استعمال کر سکتا ہے۔ مثلاً، اگر وہ خطرناک کام کر رہا ہے تو اسے کوئی محفوظ اور مفید سرگرمی تجویز کریں۔

3۔ نمونہ بنیں: خود بھی اچھے کام کریں اور اس کے سامنے ایک مثال قائم کریں۔ اگر وہ آپ کی مثبت تبدیلیوں کو دیکھے گا تو شاید وہ بھی متاثر ہو۔

4۔ حمایت فراہم کریں: اگر وہ کسی مشکل میں ہے تو اس کی مدد کریں۔ کبھی کبھار لوگ برے کاموں کی طرف اس لیے جاتے ہیں کیونکہ انہیں حمایت یا رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

5۔ سرگرمیوں میں شامل کریں: اسے ایسی سرگرمیوں میں شامل کریں جو مثبت ہوں، جیسے کھیل، مطالعہ، یا فنون لطیفہ۔ اس سے اس کا دھیان برے کاموں سے ہٹ سکتا ہے۔