ماں باپ کو یہ جان لینا چاہیے کہ بچپن میں جو اچھی یا بری عادتیں بچوں میں پختہ ہو جاتی ہیں وہ عمر بھر نہیں چھوٹتی ہیں اس لیے ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو بچپن ہی میں اچھی عادتیں سکھائیں اور بری عادتوں سے بچائیں۔

بعض لوگ یہ کہہ کر کہ ابھی بچہ ہے بڑا ہو گا تو ٹھیک ہو جائے گا بچوں کو شرارتوں اور غلط عادتوں سے نہیں روکتے وہ لوگ درحقیقت بچوں کے مستقبل کو خراب کرتے ہیں اور بڑے ہونے کے بعد بچوں کےبرے اخلاق اور گندی عادتوں پر روتے ہیں اس لیے نہایت ضروری ہے کہ بچپن ہی میں اگر بچوں کی کوئی شرارت یا بری عادت دیکھیں تو اس پر روک ٹوک کرتے رہیں بلکہ سختی کے ساتھ ڈانٹتے رہیں۔اور طرح طرح سے بری عادتوں کی برائیوں کو بچوں کے سامنے ظاہر کر کے بچوں کو ان خراب عادتوں سے نفرت دلاتے رہیں اور بچوں کی خو بیوں اوراچھی اچھی عادتوں پر خوب شاباش کہہ کر ان کا دل بڑھائیں۔بلکہ کچھ انعام دے کر ان کا حوصلہ بلند رکھیں۔

ماں باپ پر لازم ہے کہ ان باتوں کا خاص طور پر دھیان رکھیں تاکہ بچوں اور بچیوں کا مستقبل روشن بن جائے۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں اولاد کو کیا کیا سکھانا چا ہیے ملاحظہ فرمائیے:

ہر شخص نگران ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ایک آدمی اپنے اہل خانہ کا نگران ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

یہ حدیث والدین کی ذمہ داری کو مزید واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔

اپنی اولاد کو نماز سکھائیں: اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں(نرمی کے ساتھ )مارو اور ان کے بستروں کو الگ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)

اولاد کے لیے والدین کی طرف سے سب سے بہتر عطاء: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی باپ اپنے بیٹے کو نیک ادب اور صحیح تربیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دیتا۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

مطلب یہ ہے کہ ایک باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کے لیے جو چیز سب سے زیادہ قیمتی اور سب سے زیادہ مفید ہو سکتی ہے وہ صحیح تعلیم و تربیت ہے۔

اپنی اولاد کو تین باتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی ﷺ کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن کریم کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

ہر ماں باپ کا فرض ہے کہ بچوں اور بچیوں کو ہر برےکاموں سے بچائیں اور ان کو اچھے کاموں کی رغبت دلائیں تاکہ بچے اور بچیاں اسلامی آداب واخلاق کے پابند اور ایمان داری و دینداری کے جوہر سے آراستہ ہو جائیں اور صحیح معنوں می مسلمان بن کر اسلامی زندگی بسر کرے۔

بچوں کو بچپن ہی سے اس بات کی عادت ڈالو کہ وہ اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں۔وہ اپنا بچھونا خود اپنے ہاتھ سے بچھائیں اور صبح کو خود اپنے ہاتھ سے اپنا بستر لپیٹ کر اس کی جگہ پر رکھیں اپنے کپڑوں کو خود سبنھال کر رکھیں۔

بچے اور بچیاں کوئی کام چھپ چھپا کر کریں تو ان کی روک ٹوک کرو کہ یہ اچھی عادت نہیں۔

بچوں اور بچیوں کو کھانے،پہننے،اور لوگوں سے ملنے ملانے اور محفلوں میں اٹھنےبیٹھنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھاناماں باپ کے لیے ضروری ہے۔

چلنے میں تاکید کرو کہ بچے جلدی جلدی اور دوڑتے ہوے نہ چلیں اور نظر اوپر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوے نہ چلیں اور نہ بیچ سڑک پر چلیں بلکہ ہمیشہ سڑک کےکنارے کنارے چلیں۔

بچے غصہ میں اگر کوئی چیز توڑ پھوڑ دیں یاکسی کو مار بیٹھیں تو بہت زیادہ ڈانٹو بلکہ مناسب سزا دو تاکہ بچے پھر ایسا نہ کریں اس موقع پر لاڈ پیار نہ کرو۔

بچوں کی ہر ضد پوری مت کرو کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ضدی ہو جاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نہیں چھوٹتی۔

بچوں کے ہاتھ فقیروں کو کھانا اور پیسہ دلایا کرواسی طرح کھانے پینے کی اشیاء بچوں کے ہاتھ سے اسکے بھائی بہنوں کو یا دوسرےبچوں کو دلایا کرو تاکہ سخاوت کی عادت ہو جائے اور خود غرضی اور نفس پروری کی عادت پیدا نہ ہو اور بچہ کنجوس نہ ہو جائے۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنی اولاد کی تربیت قرآن و حدیث کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔