والدین شریعت کے پابند اور علم دین حاصل کرنے کےشوقین ہوں تو ان کی نسلیں بھی نیکیوں کے راستے پر چلتی ہیں اور والدین کی نجات و بخشش اور نیک نامی کا سبب بنتی ہیں اوراگر والدین خودبری عادتوں کے شکار ہوں تو اولادمیں بھی وہی برائیاں منتقل ہوجاتی ہیں اور ایسی اولاد سبب نجات نہیں بلکہ سبب ہلاکت بن جاتی ہے۔یاد رکھئے!اولادکی درست تربیت کرنا ماں باپ دونوں ہی کی ذمہ داری ہے مگر باپ کمانے کا بہانہ بنا کر تربیت اولاد کی ذمّہ داری بچوں کی ماں پر ڈال کر خود کو اس ذمہ داری سے بچانے کی کوشش کرتا ہے جبکہ بچوں کی ماں گھر کےکام کاج کا عذر پیش کرکے تربیت اولاد کا اصل ذمّہ دار اپنے شوہر کو قرار دیتی ہے،پھر ہوتا یہ ہے کہ ایسی اولادہاتھوں سے نکل کر گھر والوں کیلئے باعث زحمت بن جاتی ہے۔لہٰذا والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئےاولاد کوبچپن ہی سے نیک اور معاشرے کا باکردار فرد بنانے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ بچپن میں جوچیزسیکھی جاتی ہے،اس کے اثرات مضبوط ہوتے ہیں۔

آئیے! تربیت اولاد کے بارے میں مدنی مصطفٰےﷺ کےمہکے مہکے 4فرامین سنئے:

1۔ رسول انور ﷺ نے(جب) یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔توصحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ! ہم اپنے گھر والوں کو کس طرح آگ سے بچائیں؟تونبیّ کریم ﷺنے فرمایا:انہیں ان کاموں کا حکم دو جو اللہ پاک کوپسند ہیں اوران کاموں سے منع کرو جو اللہ پاک کو ناپسند ہیں۔

2۔ ارشادفرمایا:اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو(1)اپنے نبی(ﷺ) کی محبّت (2)اہل بیت کی محبّت اور(3)قرآن پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

3۔ ارشادفرمایا:اولادکا والدپر یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ (شعب الایمان، 6/400، حدیث:8658)

4۔ ارشاد فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا انعام نہیں دیا،جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔ (ترمذی، 3/383،حدیث: 1959) حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار، متّقی، پرہیزگار بنانا ہے۔ اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیّہ (انعام)کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں کام آتی ہے۔ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں، انہیں دیندار بنا کر جائیں، جو خود انہیں بھی قبر میں کام آوے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مردہ کوقبر میں ملتا ہے۔ (مرآۃ المناجیح،6/565ملتقطاً)

بچوں کی اسلامی تعلیم و مدنی تربیت کی جتنی ضرورت آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی کیونکہ آج ہر طرف شیطانی کاموں اورگناہوں کے آلات کی بھرمار ہے اور اولاد کو صرف دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنے کا رجحان زور پكڑتا جارہا ہے،جبکہ پہلے کے دور میں اولاد کے لئے دینی تعلیم کوزیادہ حیثیّت دی جاتی تھی،شاید یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں والدین کے ساتھ ساتھ ان کی اولاد بھی پرہیزگار اورفرمانبردارہوتی تھی مگر اب دنیوی تعلیم کو ترجیح دی جانے لگی ہے، یہی وجہ ہےکہ اسکولوں میں بھاری فیسوں کی ادائیگی اورہرآسائش وسہولیات کی فراہمی اس لیے کی جاتی ہے کہ بچوں کادنیوی مستقبل روشن ہوجائے،اچھی نوکری(Job) لگ جائے،خوب بینک بیلنس جمع ہوجائے حتّٰی کہ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے والدین اپنی اولادکوبیرون ملک پڑھنے کیلئےبھی بھیج دیتے ہیں۔یوں دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بچہ پکا دنیا دار،اچھا بزنس مین اور ماڈرن تو بن جاتاہے مگر نیک،عاشق رسول اور باعمل مسلمان نہیں بن پاتا۔والدین ان فضائل کواسی صورت میں پاسکتے ہیں جب خود علم و عمل اور سنّتوں کے پیکر،خوف خدا رکھنے والے اورعلم دین سے محبّت رکھنے والے ہوں گے۔اگرہم بھی ان خوبیوں سے آراستہ ہونا چاہتے ہیں تو عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوجائیں، ان شآء اللہ ہماری آنے والی نسلیں سنور جائیں گی۔ ان شاءاللہ