اولاد کو سدھارنے کے طریقے از بنت نواز،فیضان ام عطار شفیع
کا بھٹہ سیالکوٹ
اولاد
کو سدھارنے کے کئی طریقے ہیں جو والدین کی رہنمائی اور محبت پر مبنی ہوتے ہیں۔
یہاں کچھ اہم طریقے دیئے جا رہے ہیں:
1۔ محبت اور توجہ: بچوں کو محبت اور توجہ دینا بہت ضروری
ہے۔ یہ ان کی خود اعتمادی کو بڑھاتا ہے اور انہیں محفوظ محسوس کراتا ہے۔ جب بچے
محسوس کرتے ہیں کہ ان کے والدین ان کی پرواہ کرتے ہیں، تو وہ بہتر رویے کی طرف
مائل ہوتے ہیں۔
2۔ مثالی کردار بنیں: والدین کو خود ایک اچھا کردار بننا
چاہیے۔ بچے اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں، لہذا اگر آپ اچھے اخلاق اور رویے کا
مظاہرہ کریں گے تو بچے بھی آپ کی پیروی کریں گے۔
3۔ قواعد و ضوابط: بچوں کے لیے واضح قواعد و ضوابط بنائیں
اور ان پر عمل درآمد کروائیں۔ یہ ان کو سکھاتا ہے کہ کس طرح صحیح اور غلط میں فرق
کرنا ہے۔
4۔ تعلیم و تربیت: بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیں۔ انہیں
مختلف موضوعات میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کریں اور ان کی ذہنی
نشوونما میں مدد کریں۔
5۔ مثبت تنقید: بچوں کی غلطیوں پر تنقید کرتے وقت مثبت
انداز میں بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ وہ کیا بہتر کر سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ صرف
ان کی غلطیوں پر توجہ دیں۔
6۔ سماجی مہارتیں: بچوں کو دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے
کی تربیت دیں۔ انہیں سکھائیں کہ کس طرح دوستانہ رویہ اپنایا جائے، دوسروں کا
احترام کیا جائے، اور مسائل کو حل کیا جائے۔
7۔ وقت گزاریں: اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ ان کے
ساتھ کھیلیں، باتیں کریں، اور ان کی دلچسپیوں میں شامل ہوں۔ یہ ان کے ساتھ تعلق کو
مضبوط کرتا ہے۔
8۔ مثبت ماحول: گھر میں ایک مثبت اور خوشگوار ماحول
بنائیں۔ یہ ان کی ذہنی صحت کے لیے بہت اہم ہے اور انہیں بہتر رویے کی طرف مائل
کرتا ہے۔
یہ
طریقے بچوں کی تربیت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور انہیں بہتر انسان بنانے میں
مدد کریں گے۔بیشک، بچوں کی تربیت میں احادیث کا بہت بڑا مقام ہے۔ یہاں کچھ احادیث
ہیں جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرتی ہیں:
1۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی،
نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (بخاری، 1/457، حدیث: 1358) اس حدیث سے یہ سمجھا جا
سکتا ہے کہ بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے اور یہ ان کی فطرت کے مطابق ہونی
چاہیے۔
2۔ ایک
اور حدیث میں آتا ہے: تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری
کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ
والدین کو اپنے بچوں کی تربیت میں ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
3۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انسان کا اپنے
بچے کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (ترمذی،
3/382، حدیث: 1958)
یہ اس
بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بچوں کو صحیح ادب اور اخلاق سکھانا بہت اہم ہے۔
یہ
احادیث ہمیں بتاتی ہیں کہ بچوں کی تربیت میں محبت، توجہ، اور صحیح اخلاق سکھانا
کتنا ضروری ہے۔ جہاں تک اولادکو سکھانے کی بات ہے تو قرآن پاک سکھائے، سات برس کی
عمر میں نماز کا حکم دینے کے ساتھ ہی نماز اور طہارت کے ضروری مسائل بھی سکھائے کہ
سات سے نو برس کی عمر بچوں کی تربیت کے تعلق سے بالخصوص بچیوں کے لیے بےحد اہم ہے
کہ بچیاں اس کے بعد کبھی بھی بالغہ ہو سکتی ہے۔ ان علوم کے سکھانے کے ساتھ ساتھ
شرعی تقاضوں کے مطابق دنیوی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔ والدین پر اولاد کے جو حقوق
اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بیان
فرمائے ہیں ان میں سے سیکھنے سیکھانے کے چند حقوق یہ ہیں:
زبان
کھلتے ہی اللہ،اللہ پھر لا الٰہ الّا اﷲ پھر پورا کلمۂ طیبہ سکھائے۔ جب تمیزآئے
ادب سکھائے، کھانے، پینے، ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے،چلنے، پھرنے، حیا، لحاظ،
بزرگوں کی تعظیم، ماں باپ، استاذ وغیرہ کا ادب سکھائےاور دختر (یعنی بیٹی)
کوشوہرکی اطاعت کے طرق (یعنی طریقے) و آداب بتائے۔ قرآن مجید پڑھائے۔ استاذ نیک،
صالح، متقی، صحیح العقیدہ، سنّ رسیدہ (یعنی بڑی عمر)کے سپرد کردے اور دختر کو نیک
پارسا عورت سے پڑھوائے۔ بعد ختم قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکید رکھے۔ عقائد اسلام و
سنّت سکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی وقبول حق پرمخلوق ہے (یعنی چھوٹے بچے دین
فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں یہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا) اس وقت
کابتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔ حضور اقدس، رحمت عالم ﷺ کی محبت وتعظیم ان کے دل میں
ڈالے کہ اصل ایمان وعین ایمان ہے۔ حضورپرنور ﷺ کے آل و اصحاب و اولیاء و علما کی
محبت و عظمت تعلیم کرے کہ اصل سنّت و زیور ایمان بلکہ باعث بقائے ایمان ہے(یعنی یہ
محبت ایمان کی حفاظت کا ذریعہ ہے)۔
سات
برس کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کر دے۔ علم دین خصوصاً وضو،غسل، نماز و
روزہ کے مسائل توکل، قناعت، زہد، اخلاص، تواضع، امانت، صدق، عدل، حیا، سلامت صدور
و لسان وغیرہا خوبیوں کے فضائل،حرص وطمع، حب دنیا، حب جاہ، ریا، عجب، تکبّر،
خیانت، کذب، ظلم، فحش، غیبت، حسد، کینہ وغیرہا برائیوں کے رذائل(یعنی بری صفات)
پڑھائے۔ خاص پسر (یعنی بیٹے)کے حقوق سے یہ ہے کہ اسے لکھناسکھائے۔ سورۂ مائدہ کی
تعلیم دے۔ اعلان کے ساتھ اس کاختنہ کرے۔ خاص دختر (یعنی بیٹی) کے حقوق سے یہ ہے کہ
اس کے پیدا ہونے پر ناخوشی نہ کرے بلکہ نعمت الٰہیہ جانے، اسے سینا،پرونا، کاتنا،کھانا
پکانا سکھائے اورسورۂ نور کی تعلیم دے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/455 ملخصا)
اولاد
کو سدھارنے کے لیے مختلف منفرد طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں جو ان کی شخصیت، عمر،
اور ضروریات کے مطابق ہوں۔ یہاں کچھ مؤثر طریقے دیئے جا رہے ہیں:
1۔ مثالی رویہ: والدین کو خود ایک اچھا نمونہ بننا
چاہیے۔ بچے والدین کے رویے سے سیکھتے ہیں، اس لیے اگر آپ ان سے محبت، احترام، اور
ایمانداری کا سلوک کریں گے تو وہ بھی آپ کے نقش قدم پر چلیں گے۔
2۔ مثبت حوصلہ افزائی: بچوں کی اچھی عادات اور کارکردگی کی
تعریف کریں۔ جب وہ کچھ اچھا کرتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ یہ ان کے اعتماد
کو بڑھاتا ہے اور انہیں بہتر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
3۔ کھلی بات چیت: بچوں کے ساتھ کھل کر بات کرنے کی عادت
ڈالیں۔ ان کی باتوں کو غور سے سنیں اور ان کے خیالات کا احترام کریں۔ اس سے انہیں
احساس ہوگا کہ آپ ان کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔
4۔ نظم و ضبط: بچوں کے لیے واضح اصول اور حدود مقرر
کریں۔ انہیں سمجھائیں کہ ان اصولوں کی پیروی کیوں ضروری ہے۔ نظم و ضبط سے انہیں
ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔
5۔ تعلیمی سرگرمیاں: بچوں کو تعلیمی سرگرمیوں میں مشغول
کریں جیسے کہ کتابیں پڑھنا، سائنسی تجربات کرنا، یا فنون لطیفہ میں حصہ لینا۔ یہ
ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتا ہے اور انہیں سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔
6۔ وقت گزارنا: اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، چاہے وہ
کھیلنے کا وقت ہو یا کوئی مشترکہ سرگرمی۔ اس سے آپ کے درمیان رشتہ مضبوط ہوتا ہے
اور بچے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
7۔ مشکلات کا سامنا: بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کی تربیت
دیں۔ انہیں سکھائیں کہ ناکامی بھی سیکھنے کا حصہ ہے اور اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
8۔ جذباتی حمایت: بچوں کو یہ سمجھائیں کہ ان کے جذبات
اہم ہیں۔ اگر وہ پریشان یا غمگین ہیں تو ان کی بات سنیں اور انہیں تسلی دیں۔
یہ
طریقے آپ کی اولاد کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہر بچہ منفرد ہوتا
ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ ان کی ضروریات اور حالات کے مطابق طریقے اپنائیں۔اللہ
پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین