اولاد کو سدھارنے اور ان کی بہترین تربیت کرنا والدین کی بنیادی اور اہم ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری نہ صرف دنیاوی اعتبار سے اہم ہے بلکہ دینی اعتبار سے بھی بہت بڑی نیکی اور عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث میں اس کی اہمیت کو بار بار واضح فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔اس آیت میں واضح طور پر والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے اعمال کو درست کریں بلکہ اپنے گھر والوں، خاص طور پر بچوں کی بھی تربیت کریں تاکہ وہ جہنم کی آگ سے محفوظ رہ سکیں۔ امام طبری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا کہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیں جو انہیں گناہوں سے بچائے اور اطاعت الٰہی پر قائم رکھے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک نگران ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ ایک آدمی اپنے اہل خانہ کا نگران ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

یہ حدیث والدین کی ذمہ داری کو مزید واضح کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے معاملے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔

اولاد کو سدھارنے کے عملی طریقے:

1۔ دینی تربیت: بچوں کو بچپن سے دین کے بنیادی اصول سکھائیں، جیسے نماز، قرآن کی تلاوت، اور اخلاقی اقدار۔

2۔ اچھے اخلاق کی تعلیم: انہیں سچ بولنے، احترام کرنے، اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی عادت ڈالیں۔

3۔ اچھی صحبت: بچوں کو نیک لوگوں اور اچھے ماحول میں رکھیں تاکہ وہ مثبت اثرات لے سکیں۔

4۔ عملی نمونہ بنیں: والدین خود اپنے عمل سے بچوں کے لیے مثال بنیں، کیونکہ بچے باتوں سے زیادہ عمل سے سیکھتے ہیں۔

5۔ تعلیم و تربیت میں توازن: دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم میں بھی ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو سکیں۔

والدین کی حقیقی ذمہ داری صرف دنیاوی آسائشیں فراہم کرنا نہیں، بلکہ اپنی اولاد کو دین کی سمجھ دینا اور انہیں اللہ کی ناراضگی سے بچانے کی کوشش کرنا ہے۔ کیونکہ دنیاوی مال و دولت عارضی ہے، لیکن آخرت کی کامیابی ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

6۔ دعائیں کریں: اللہ سے ہمیشہ اپنے بچوں کی بھلائی اور ہدایت کی دعا مانگتے رہیں۔

اولاد کی تربیت میں محنت اور وقت صرف کرنا والدین کے لیے ایک آزمائش بھی ہے اور انعام بھی۔ اگر والدین اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں تو نہ صرف بچے نیک اور صالح بنیں گے بلکہ والدین کے لیے بھی صدقہ جاریہ ثابت ہوں گے۔

رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور اسلامی تربیت کے اصول بچوں کی اخلاقی، دینی، اور سماجی زندگی کی بنیاد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اس بات کی طرف واضح رہنمائی دیتی ہے۔

اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں اور نماز نہ پڑھیں تو انہیں (نرمی کے ساتھ) مارو اور ان کے بستروں کو الگ کر دو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 495)

بچوں کی تربیت کے اصول:

1۔ عمر کے مطابق ہدایات: سات سال کی عمر: اس عمر میں بچوں کو نرمی، محبت اور اچھے رویے کے ذریعے نماز کی عادت ڈالیں۔ انہیں نماز کے فضائل، اور اس کے اجر و ثواب کے بارے میں بتائیں۔ دس سال کی عمر: اس عمر تک بچے شعور اور ذمہ داری کا فہم رکھتے ہیں۔ اگر وہ نماز میں سستی کریں تو مناسب حد تک سختی کی اجازت ہے، لیکن یہ سختی صرف تربیت کے لیے ہو، نہ کہ ظلم یا زیادتی کے لیے۔

2۔ نرمی اور سختی کا توازن: بچوں کو پہلے نرمی اور محبت سے سمجھانا چاہیے۔ اگر وہ غلطی کریں تو ان پر سختی تب کی جائے جب وہ بدنی اور عقلی طور پر اس کو سمجھ سکیں اور برداشت کر سکیں۔

3۔ بری صحبت سے دوری: بچوں کو خراب صحبت سے بچائیں کیونکہ بری صحبت اکثر ان کے اخلاق اور کردار پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ ان کی صحبت کا خیال رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

4۔ مثالی شخصیات کو رول ماڈل بنانا: سلف صالحین کے اقوال اور طرز زندگی کو بچوں کے سامنے پیش کریں۔ انہیں صحابہ، تابعین اور نیک لوگوں کے واقعات سنائیں تاکہ ان میں اچھے اخلاق اور نیک اعمال کا جذبہ پیدا ہو۔

5۔ تعلیم و ادب کی اہمیت: بچوں کو قرآن، دین کے ضروری احکام، ادب اور زبان سکھائیں۔ ان کی زبان اور کردار کو بہتر بنانے پر خاص توجہ دیں۔

6۔ انعام و سزا کی حکمت عملی: انعام: بچوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر وہ اچھا کام کریں یا اپنی ذمہ داری نبھائیں تو انہیں انعام، تحفے یا تعریف سے نوازیں۔ سزا: غلط کام کرنے پر پہلے سمجھائیں، پھر دھمکائیں، اور آخر میں ہلکی جسمانی سزا دیں، لیکن یہ صرف اس صورت میں ہو جب ضروری ہو۔

7۔ ہر بچے کا انفرادی مزاج: بچوں کے مزاج کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہر بچے کو ایک جیسی تربیت نہیں دی جا سکتی۔ جو بچے نرم مزاج ہوں، ان کے ساتھ زیادہ نرمی اور محبت سے پیش آئیں، اور جو ضدی ہوں، ان کے ساتھ حکمت اور مناسب سختی اختیار کریں۔

اسلامی تعلیمات والدین کو بچوں کی تربیت کے لیے ایک واضح اور متوازن رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ نرمی، محبت، سختی، اور حکمت کے ذریعے بچوں کو دین، اخلاق اور کردار کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی کے لیے تیار کریں۔