محمد اسجد عطّاری (درجۂ
ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو یقینا ماں باپ کا درجہ بہت بلند و بالا ہے ان کی دعائیں اولاد کے حق
میں مقبول ہوتی ہیں بس انہیں خوش رکھیے خوب ان کی خدمت کر کے دعائیں لیجیے ان کی
خوشی ایمان کی سلامتی اور ان کی ناراضی ایمان کی بربادی کا باعث ہو سکتی ہے آئیے
ایک حکایت پڑھتے ہیں ایک ڈاکٹر کا بیان ہے ایک شخص کو دل کا شدید دورہ پڑا بچنے کی
امید نہ تھی اس کی ماں بچھونے کے پاس بیٹھی دعا کر رہی تھی جو حاضرین نے سنی وہ
کہہ رہی تھی یا اللہ عزوجل میں اپنے بیٹے سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا ڈاکٹرز
علاج میں مشغول تھے اور محترمہ دعا میں لگی ہوئی تھی جب آخری وقت آیا مریض نے بلند
آواز سے کلمہ پڑھا ہونٹوں پر تبسم پھیل گئی اور روح پرواز کر گئی سبحان اللہ جس
مسلمان کی ماں آخری وقت اس سے خوش ہو اس کی بھی کیا شان ہے اور جس کو آخری وقت
کلمہ نصیب ہو جائے خدا کی قسم وہ بڑا ہی خوش نصیب ہے چنانچہ اللہ عزوجل کے محبوب
دانائے غیوب منزہ عیوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان جنت نشان ہے جس کا آخری
کلمہ لا الہ الا اللہ وہ جنت میں داخل ہوگا میٹھے اسلامی بھائیو اگر آپ کے ماں باپ
یا ان میں سے کوئی ایک ناراض ہے تو فورا ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لیجئے
اس میں دونوں جہاں کی بھلائیاں ہیں۔
(1)کیا
میں نے والدہ کا حق ادا کر لیا؟ ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نے
بارگاہ نبوی میں عرض کی کہ ایک راہ میں ایسے گرم پتھر تھے کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان
پر ڈالا جاتا تو کباب ہو جاتا میں اپنی ماں کو گردن پر سوار کر کے چھ میل تک لے
گیا ہوں کیا میں ماں کے حقوق سے فارغ ہو گیا ہوں سرکار نامدار صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں
شاید یہ ان میں سے کسی ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکتا ہے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد 3)
(2)سب
سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں ہو کر عرض کی لوگوں میں سب سے
زیادہ میرے حسن سلوک کا حقدار کون ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد فرمایا پھر تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد
فرمایا پھر تیری ماں عرض کی پھر کون ارشاد فرمایا پھر تیرا باپ۔(مسلم شریف, حدیث
2548)
(3)کافرہ
والدہ کے ساتھ بھی حسن سلوک حضرت سیدنا اسماء رضی اللہ تعالی عنہا
سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ میری ماں جو کہ مشرکہ تھی قریش کے احد اور اس کی مدت میں
جب کہ انہوں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے معاہدہ کیا ہوا تھا
اپنے باپ کے ساتھ آئی میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کیا میں
اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔(صحیح بخاری،حدیث 5979)
جہاد
پر جانے کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے (5)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی
اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جہاد میں جانے کی اجازت لینے کے لیے حاضر ہوا رسول
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں اس نے عرض
کی جی ہاں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پس تو ان دونوں کی خدمت
میں رہ کر جہاد کر۔(صحیح مسلم, حدیث 2549)
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم
دیا ہے خصوصا ان کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے یقینا ماں باپ کا
بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے بسا اوقات سخت بڑھاپے میں اکثر بستر ہی پر
بول و براز یعنی گندگی کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموما اولاد بیزار ہو جاتی
ہے یاد رکھیے ایسے حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازمی ہے بچپن میں ماں بھی تو
بچے کی گندگی برداشت کرتی ہیں۔اس لیے ہمیں کبھی بھی ان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے
اور تو اور ماں باپ کو محبت کے ساتھ دیکھنے سے مقبول حج کا ثواب بھی ملتا ہے آپ
اپنے والدین کو خوش ہو کر محبت کے ساتھ دیکھیں ان شاءاللہ آپ کو مقبول حج کا ثواب
ملے گا۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔