آیت مبارکہ:

اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں صلح کروانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 26، سورہ حجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمان عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"

پارہ 5، سورہ نساء،آیت نمبر 128 پر اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔"

پارہ 26، سورہ حجرات، آیت نمبر 10 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔"

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

1۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان فرما رہے تھے، اس دوران فرمایا:ہرقاطع رحم (رشتہ داری توڑنے والا) ہماری محفل سے اٹھ جائے، ایک نوجوان اٹھ کر اپنی پھوپھی کے پاس گیا، جس سے اس کا کئی سال کا پرانا جھگڑا تھا، جب دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے تو اس نوجوان سے پھوپھی نے کہا:تم جا کر اس کا سبب پوچھو، آخر ایسا کیوں ہوا ؟یعنی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اعلان کی کیا وجہ تھی؟

جب نوجوان نے حاضر ہو کر پوچھا، تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے،"جس قوم میں قاطع رحم(رشتہ داری توڑنے والا) ہو، اس قوم پر اللہ کی رحمت کا نزول نہیں ہوتا۔"(ازدواجرمن اقتراف الکبائر، جلد 2، ص 153)

دعا قبول نہیں ہوتی:

طبرانی میں حضرت سیدنا اعمش رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے، حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک بار صبح کے وقت مجلس میں تشریف فرما تھے، انہوں نے فرمایا:میں قاطع رحم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ یہاں سے اٹھ جائے، تاکہ ہم اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کریں، کیونکہ قاطع رحم(رشتہ توڑنے والے) پر آسمان کے دروازے بند رہتے ہیں،(یعنی اگر وہ یہاں موجود رہے گا تو رحمت نہیں اترے گی اور ہماری دعا قبول نہیں ہوگی۔")(المعجم الکبیر، جلد 9، صفحہ 158، رقم8793)

بہترین صدقہ:

بحوالہ مسند امام احمد، جلد 9، صفحہ 138، حدیث3215، مسند امام احمد کی حدیث پاک میں ہے: "بیشک افضل ترین صدقہ وہ ہے، جو دشمنی چھپانے والے رشتے دار پر کیا جائے۔"

مختصرشرح:

صلہ رحمی کی بہت زیادہ فضیلت ہے، ایک حدیث کا مضمون ہے کہ جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو، تو رزق میں فراخی، تو چاہئے کہ صلہ رحمی کرے، صلہ رحمی یہ نہیں کہ کسی نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا، بدلے میں ہم نے بھی اچھا سلوک کیا، یہ تو ادلا بدلا ہوگیا، کوئی ہمارے پاس آیا، ہم اس کے پاس چلے گئے، کسی نے ہمیں تحفہ دیا، جو اباً ہم نے بھی تحفہ دے دیا، حقیقتاً صلہ رحمی یہ ہے کہ وہ کاٹے اور تم جوڑو، وہ تم سے جدا ہونا چاہتا ہے، بے اعتنائی( لاپرواہی) کرتا ہے اور تم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی مراعات (لحاظ) کرتے ہو۔

اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق دے۔آمین

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

مسلمانوں میں صلح کروانا:

مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا نیکی کا کام ہے، مسلمانوں میں صلح کروانے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے خلافِ واقع بات(جھوٹی بات) کہہ سکتے ہیں، مثلاً ایک کے سامنے کہنا کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے، تمہیں سلام کہہ رہا ہے، اسی طرح دوسرے سے بھی کہے، تاکہ ان دونوں میں بغض و عداوت کم ہو اور صلح ہو جائے۔

حدیث پاک:

حضرت سیدتنا اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:"تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں، خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے، جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا، لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا، ان تین باتوں کے علاوہ جھوٹ بولنا جائز نہیں۔"

کونسی صلح کروانا جائز نہیں؟

ہر وہ صلح کروانا جائز نہیں، جس میں فتنہ کا خوف ہے، لڑائی کا خوف ہے، ان میں سے کوئی ایک کے سبب دوسرے کا برائی کی طرف مائل ہونے کا خوف ہے، ایسے بہت ساری صورتیں بنتی ہیں، جیسے لڑکی، لڑکے کی ناجائز دوستی ہو اور لڑائی ہو جائے تو صلح نہ کروائی جائے، ایک صورت یہ بھی ہے۔