حدیث
میں ہے:"ایک بار حضور صلی اللہ
علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہو گئے، بیٹھے نہیں پھر سلام کے بعد
سجدہ سہو کیا۔"اس حدیث کو ترمذی نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ
حدیث حسن صحیح ہے۔
1۔واجباتِ
نماز میں سے کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے لیےسجدہ سہو واجب ہے۔
2۔سجدہ
سہو اس وقت واجب ہے کہ وقت میں گنجائش ہو اور اگر وقت میں گنجائش نہ ہو تو سجدہ
سہو ساقط ہو گیا۔
3۔فرض
کی پہلی دو رکعتوں میں اور نفل وتر کی کسی رکعت میں سورہ فاتحہ کی ایک آیت بھی رہ
گئی یا سورت سے پیشتر دو بار سورہ فاتحہ پڑھی یا سورت ملانا بھول گیا یا سورت کو فاتحہ
پر مقدم کیا یا سورہ فاتحہ کے بعد ایک یا دو چھوٹی آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا گیا، پھر یاد
آیا اور لوٹا اور تین آیتیں پڑھ کر رُکوع کیا،
تو ان سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے۔
4۔رُکوع
و سُجود و قعدہ میں قرآن پڑھا تو سجدہ سہو واجب ہے۔
5۔
تعدیلِ ارکان بھول گیا، سجدہ سہو واجب ہے۔
6۔
قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد اتنا پڑھا، "اللھم صلی علی محمد" تو سجدہ سہو واجب
ہے۔
7۔
کسی قعدہ میں اگر تشہد میں سے کچھ رہ گیا، سجدہ سہو واجب ہے، نماز نفل ہو یا فرض۔
8۔عیدین
کی سب تکبیریں یا بعض بھول گیا یا یا زائد کہیں یا غیرِ محل میں کہیں، ان سب
صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے۔
9۔اِمام
سے سَہو ہوا اور سجدہ سہو کیا تو مقتدی پر بھی سجدہ سہو واجب ہے اور لاحق پر بھی۔
10۔قراءَت
وغیرہ کسی موقعے پر سوچنے لگا کہ بقدر ایک رکن یعنی تین بار" سبحان اللہ" کہنے کے وقفہ ہوا، تو سجدہ
سہو واجب ہے۔( بہار شریعت ، حصّہ4 ، صفحہ نمبر708 تا 716)