صحابہ ٔ کرام کے فضائل

Mon, 31 Aug , 2020
4 years ago

حضرت عیسی علیہ السَّلام کی بعثت کے بعد ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد انسانیت کفر و شرک کے اندھیرے میں ڈوب چکی تھی، پوری دنیا میں سوائے چند اہل کتاب کے لوگ شرک کی غلاظت میں ڈوبے ہوئے تھے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کائنات پر کرم فرمایا اور اس کائنات پر رحم کرنا چاہا تو اپنے آخری نبی و رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اللہ تبارک و تعالی کا یہ قانون ہے کہ جب وہ اپنے فیصلے نافذ فرمانا چاہتا ہے اور اپنے احکامات کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو اس کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کا انتخاب فرماتا ہے۔

جب سے یہ کائنات بنی تھی اس وقت سے لے کر آقا علیہ ا لصلوة والسلام کی بعثت تک ، اللہ عزوجل نے سلسلہ نبوت اپنے سب سے افضل نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر ختم فرمادیا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ دعوت پھیلانے کے لیے ساتھیوں کی ضرورت تھی جو آپ کی اس دعوت کو لے کر دنیا کے اندر پھیلاتے ، دنیا سے بے نیاز اور مخلص ہو کر آپ کے پیغام کو دنیا تک پہنچاتے، اس مقصد کے لیے آقا علیہ الصلوة والسلام نے مکہ مکرمہ میں 13 سال سخت محنت کی جس کے نتیجہ میں حضور علیہ الصلوة والسلام کے یہ ساتھی جن کو آپ علیہ ا لسلام نے اپنی زبان اطہر سے فرمایا کہ میر ے صحابہ آسمانِ ہدایت کے ستارے ہیں، جلوہ فگن ہوئے۔

صحابی کی تعریف :وہ لوگ جنہوں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان پر ملاقات فرمائی اور ایمان پر ہی ان کی وفات ہوگئی ہو اگرچہ درمیان میں ارتداد ہوگیا۔پھربعد میں توبہ کرلی ہو ،جو نصوص قرآن پاک میں وارد ہوئی ہیں سب ان کے لیے ہیں۔

حضور علیہ الصلوة والسلام کے صحابہ وہ پاکیزہ نفوس ہیں کے جن کے ذریعے اسلام ہم تک پہنچا، قرآن و حدیث کو ہم تک جو پہنچایا گیا تو یہ انہی کے احسان عظیم میں سے ہے، جو قرآن و حدیث کو سمجھتے ہیں، سیکھتے ہیں، استدلال کرتے ہیں، استنباط کر تے ہیں پھر وہ بات عوام الناس تک پہنچاتے ہیں، تو یہ سب صحابہ کرام کی برکتیں ہیں، جنہوں نے حدیث و قرآن کو سمجھا اور پھر محفوظ کیا، اور پھر اسی طر ح ہم تک پہنچایا، جس طرح سے انہوں نے سنا تھا یہ دینی اور علمی اعتبار سے ان کا ہم پر احسان ہے۔

جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےزمانے میں قرآن پاک پر کام ہوا، اس کو جمع کرنے اور ہم تک پہنچانے میں صحابہ کا بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ آقا علیہ الصلوة والسلام کے افعال کو دیکھنا ، ان کے اقوال کو سننا اور یاد رکھنا پھر مسلمانوں تک پہنچانا یہ صحابہ کا بہت بڑا کارنامہ ہے، صحابہ کرام اگر اس طرح سے باریک بینی نہ کرتے تو یہ دین ہم تک نہ پہنچتا۔

اس کے علاوہ صحابہ کرام نے راہِ اسلام میں جو تکالیف برداشت کیں ان کی کہیں مثال نہیں ملتی، خصوصاً حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ ، حضرت عمر فاروق ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت ابو ابو ذر غفار ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرفہرست ہیں۔، ان لوگوں نے جو تکالیف اٹھائیں، جو ظلم برداشت کیے، ذہنی اور جسمانی اعتبار سے ہماری تکالیف وغیرہ ان کے آگے ذرہ بھی نہیں ہیں، انہوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگ کے لیے چلے جانا،او ر جنگ نہ بھی ہوتی ہو تو بھی تکلیفیں برداشت کرکے ان کے احسانات کو ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ان کی ان کاوشوں محنتوں کے صلا میں خود رب کائنات نے ان کو رضی اللہ عنہم و ر ضو عنہ کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا، تو جن سے ان کا رب راضی ہوجائے ان کی عظمت کو سلام ہے۔

اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کی فضیلت اپنی شان والی کتاب میں سورہ الفتح کی آیت مبارکہ ۲۹ میں ارشاد فرمارہا ہے۔ترجمہ کنزالایمان ۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لو گ جو ان کے ساتھ ہیں کفار پر بڑے سخت ہیں اور آپس میں بڑے رحم دل ہیں، تم انہیں دیکھو گے رکوع کرتے ہوئے سجدے کی حالت میں، اللہ کے فضل کو تلاش کرتے ہیں،اور رضا مندی کو تلاش کرتے ہیں۔

تو جن پاکیزہ نفوس کی نشانی رب کا قرآن بیان کرے ان کا احترام ہر مسلمان پر واجب ہے، کیونکہ ان ہستیوں کے ہم پر ہمارے دین و ایمان کے حوالے سے بڑے احسانات ہیں اور احسان کا بدلہ احسان ہے اللہ رب العزت کی ذا ت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پاکیزہ نفوس کی فضیلتوں کو سمجھنے اوران فضیلتوں سے فیض حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں