کفر
و شرک، گمراہی اور بد عملی کے ماحول میں لوگوں کو اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان لانے،شرک
سے روکنے،ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینے اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے
کے لیے اللہ پاک نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر بھیجا۔انبیا
علیہم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیرو ں،موتیوں کی طرح
جگمگاتی شخصیات ہیں،جنہیں اللہ پاک نے وحی کے نور سے روشنی بخشی،حکمتوں کے سر چشمے
ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی
تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ اور اولو
العزم رسولوں میں سے ایک رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔
نام و لقب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام
موسیٰ، لقب کلیمُ اللہ اور صفیُّ اللہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ
بن عمران علیہ السلام ”صفیُّ اللہ“ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔
نسب نامہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں اور آپ کا نسب نامہ یہ ہے:موسیٰ بن عمران
بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔
ولادت:آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ
السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو برس بعد
پیدا ہوئے اور ایک سو بیس برس عمر پائی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اوصاف مبارک:
1) حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے
ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے۔ارشادِ باری ہے: وَ
اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا
نَّبِیًّا (۵۱) (پ16،مریم:51) ترجمہ کنز
العرفان: اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی
رسول تھا۔
2) آپ علیہ السلام رب کی بارگاہ میں بڑی وجاہت
یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔ارشادِ باری ہے: وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (۶۹) (پ22،الاحزاب:69) ترجمہ کنز
العرفان: اور موسیٰ اللہ کےہاں بڑی وجاہت والاہے۔
3) آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون
علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔ارشادِ باری ہے: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۲۲) (پ23،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ
کنزالعرفان: بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔
4)آپ علیہ السلام کو کسی واسطے کے بغیر اللہ
پاک سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔آپ بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہوئے
کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی
عظیم نعمت سے نوازا۔قرآن میں ارشاد ہوتاہے:وَنَادَیْنٰهُ
مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا
لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) (پ14،مریم:52،53)ترجمہ
کنزالعرفان:ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے
لیے مقرب بنایا اور ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔
اس
سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتا لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر
ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل!البتہ اب نبوت کا
باب چونکہ بند ہو چکا ہے اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔اللہ پاک ہمیں
انبیائے کرام علیہم السلام کی بے ادبی کرنے سے محفوظ فرمائے،ان کے مقام کو سمجھنے
کی توفیق عطا فرمائے،تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سچی اور حقیقی محبت عطا
فرمائے اور ان کے فیض سے مالا مال فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ