حافظ احمد حماد عطّاری(درجۂ سادسہ،فیضان آن لائن اکیڈمی
اوکاڑہ پاکستان)
اللہ کریم اِرشاد فرماتا ہے:﴿ اَنْ
یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ(۲)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: کہ کہیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔ (پ20، العنکبوت:2)
تو اس فرمان اور سورۂ بقرہ آیت نمبر 155 میں آزمائش کے ذکر سے یہ بات واضح ہے کہ
ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی ضروری ہے، اب ایمان کے بعد آزمائش تو ضرور ہوگی
اور اس میں کامیاب ہونے کے احکامات کو کتابِ مُبین میں کھول کر بیان فرما
دیا،قراٰنِ مجید نے کامیابی کا ذریعہ اتباعِ شریعت ہی کو قرار دیا، ارشاد ہوا:﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمان برداری کرے اس نے
بڑی کامیابی پائی۔ (پ22، الاحزاب:71) پھر سورۂ مؤمن آیت نمبر:40 میں عملِ صالح کو
جنت میں داخلے کا ذریعہ بتایا جو اصل میں اتباع ِشریعت ہی ہے۔قراٰنِ پاک میں ایمان
والوں کے لئے متعدد احکام بیان فرمائےگئے، کچھ احکام ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں۔
(1)اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا:﴿ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً۪- ﴾ ترجَمۂ کنزالعرفان: اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔(پ2،
البقرۃ:208) جب مسلمان ہوگئے تو سیرت و صورت، ظاہر و باطن، عبادات و معمولات، رہن
سہن، میل برتاؤ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔(صراط
الجنان،1/325)
(2)حُضورِ اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظمت و توقیر کو فرض قرار دیتے ہوئے متعدَّد
مقامات پر آداب کو بیان فرمایا گیا، ایک جگہ اِرشاد فرمایا: ﴿ لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: راعِنا نہ کہو۔(پ1، البقرۃ: 104) ”رَاعِنا“ کے یہ معنی
تھے کہ یا رسولَ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے حال کی رعایت فرمائیے
جبکہ ایک معنی بے ادبی والا تھا جو یہودیوں کے ہاں مستعمل تھا تو یہ آیت نازل ہوئی
جس میں ”رَاعِنَا“ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ
”اُنْظُرْنَا“ کہنے کا حکم ہوا۔(صراط الجنان، 1/181 ماخوذاً)
(3)اطاعت کا حکم
دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ﴿ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-﴾ ترجَمۂ کنز
الایمان : حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں
حکومت والے ہیں۔(پ 5، النسآء:
59) حکومت والوں سے مسلمان حکمران مراد ہیں، یعنی جب وہ حق کا حکم دیں تو اس کو
مانو ۔ (خزائن العرفان،ص157ماخوذاً)
(4)تمام معاملات میں
مالک کےقہر سے ڈرنے کا حکم ہوتا ہے: ﴿ اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ
تُقٰتِهٖ﴾
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ سے ڈرو جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے۔(پ 4،اٰل عمرٰن: 102)
(5)زندگی کے ہر
معاملے میں عدل و انصاف قائم رکھنے کا حکم فرمایا جاتا ہے: فرمانِ ذوالجلال ہے:﴿ كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ﴾ترجَمۂ
کنزُالایمان:انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ۔(پ5، النسآء: 135)
(6، 7)کلامِ مجید کی
متعدد آیات میں عبادات کو بجالانے کا حکم دیا گیا ہے:جیسے ارشاد ہوتا ہے: ﴿ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ ترجمۂ کنز الایمان: نماز قائم رکھو۔(پ1،البقرۃ:43) اور
صاحبِ استطاعت کو زکوٰۃ کا حکم فرمایا گیا:﴿ وَ
اٰتُوا الزَّكٰوةَ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اور زکٰوۃ دو۔(پ1، البقرۃ:43)
(8، 9)﴿ كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ ﴾ترجمۂ کنزالایمان: تم پر روزے فرض کیے گئے۔ (پ2،البقرۃ:183)
اور اسی طر ح حج کو بھی صاحبِ استطاعت پر فرض فرمایا: ﴿ وَ
لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ ﴾ ترجَمۂ کنز العرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج
کرنا فرض ہے۔(پ4،اٰل عمرٰن:97)
(10)عبادات ادا کرنے
کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بچنے کا حکم دیا جاتا ہے: پارہ7، سورۂ مَآئدہ آیت:90 میں ارشاد ہوتا
ہے: ترجمۂ کنزالایمان: شراب اور جُوا اور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام
تو ان سے بچتے رہنا۔
(11)بہت سے کبیرہ
گناہوں مثلاً اولاد کو قتل کرنے، زنا کرنے، ناحق قتل کرنے، یتیم کا مال کھانے، عہد
کو پورا نہ کرنے، جھوٹا الزام لگانے، جھوٹی گواہی دینے اور کم تولنے سے منع فرمایا
گیا۔ حکم ہوتا ہے:﴿ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا
بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِؕ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اور ماپو تو پورا ماپو اور برابر تراوز سے تولو۔(پ15،بنی
اسرآءیل:35)
(12)خود رازقِ واحد،
رزق عطا فرماتا ہے اور پھر ارشاد فرماتا ہے:﴿ اَنْفِقُوْا
مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرو۔(پ2، البقرۃ: 254)
(13)پھر اپنے رزق کو
سود سے پاک رکھنے کا حکم ملتا ہے کہ ﴿ لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪-﴾ ترجَمۂ کنزالعرفان: دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ۔(پ 4، اٰل عمرٰن: 130)
(14)فرمانِ باری
تعالیٰ ہے: ﴿ لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ
عَلَیْهِمْ﴾ترجمۂ کنزالایمان: ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ کا
غضب ہے۔(پ28،الممتحنۃ:13)
(15)غلطیاں اور گناہ
سر زد ہو جائیں تو توبہ کرو: ﴿ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً
نَّصُوْحًاؕ-﴾
ترجمۂ کنزالایمان: اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو
نصیحت ہوجائے۔(پ28، التحریم: 8)
اللہ کریم اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی محبت و رحمت سے حصہ پانے اور اللہ وَاحِد قَہَّار و جَبَّار کے غضب اور
عذاب و عِتاب سے خود کو بچانے کیلئے ان احکامات پرعمل ضروری ہے۔
اللہ کریم ہمیں نیک اور متبعِ سنّت بنائے اور ہماری
کوتاہیوں سے در گزر فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم