قوم ثمود کی نافرمانیاں

Mon, 5 Jul , 2021
2 years ago

3۔ مؤلف:  اویس افضل عطاری ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضانِ امام غزالی فیصل آباد)

قومِ ثمودکی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے ، ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں تھے اور حجازو شام کے درمیان سر زمین حجر میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ السّلام کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذرابن ثمود ہے، قوم ثمود قوم عاد کے بعد ہوتی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد ہیں۔(تفسیر صراط الجنان جلد۳، صفحہ۳۶۹)

قوم ثمود کا واقعہ :

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم فرمایا : اے میری قوم ! تم اللہ تعالی کو ایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے، حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ ، اے قوم ثمود! تم اس وقت کو یاد کرو، جب اللہ عزوجل نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قوم عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کیا اور تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالی نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کے لیے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو تراشتے ہو اور مکان بناتے ہو، تم اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ کرنے سے بچو کہ، گناہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا اور رب قہار (عزوجل) کے عذاب آتے ہیں۔

قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی : اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریںْ( ان صفات کے بارے میں مکتبہ المدینہ کی کتاب عجائب القرآن میں لکھا ہے کہ ایک گابھن ( یعنی بعد میں بچہ بھی دے) اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ ( یعنی موٹی تازی بھی ہو) اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو)

اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ السّلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا : بے شک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا، جس پر تم ایمان رکھتے ہو، ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں کھاتے اور برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہاکنا، اور نہ قتل کرنا، اگر ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں دردناک عذاب پکڑلے گا۔

قوم ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی جو بڑی حسین و جمیل تھی اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لیے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا، اگر تو اونٹنی کو ذبح کردے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا، یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کردیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی، اورحضرت صالح علیہ السلام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے، اے صالح اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو، انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں(ٹانگیں ) کاٹیں تھیں، حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن بعد ہلاک ہوجاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوتے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہوگئے۔ پھر سخت زلزلہ قائم کیا گیا، ان کی ہلاکت سے پہلے اولاً حضر تِ صالح علیہ السلام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے، پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے، روانگی کے وقت ان کی لاشوں پرگزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کرکے بولے : اے میری قوم ! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔(یہ واقعہ تفسیر صراط الجنان جلد 3، پارہ 8 سورة الاعراف کی آیت نمبر 73 تا79 کے تحت ، صفحہ 360 تا 361 پر ہے۔ )

درس ہدایت :

اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب ایک نبی کی ایک اونٹنی کو قتل کردینے والی قوم عذابِ الہی کی تباہ کاریوں سے اس طرح فنا ہوگئی کہ ان کی نسل کا کوئی انسان بھی روئے زمین پر باقی نہ رہا تو جو قوم اپنے نبی کی آل و اولاد کو قتل کر ڈالے گی بھلا وہ عذاب الہی کے قہر سے کب اور کیسے محفوظ رہ سکتی ہے، چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ کربلا میں اہل بیت نبوت کو شہید کرنے والے یزیدی کو فیوں اور شامیوں کا یہی حشر ہوا کہ مختار بن عبید کے دور حکومت میں یزیدیوں کا بچہ بچہ قتل کردیا گیا اور ان کے گھروں کو تخت و تاراج کرکے ان پر گدھوں کے ہل چلائے گئے اور آج روئے زمین پر ان یزیدیوں کی نسل کا کوئی ایک بچہ بھی باقی نہیں رہ گیا۔

( کتاب عجائب القرآن صفحہ ، 105 تا 106 مکتبۃ المدینہ )قومِ ثمودکی طرف حضرت صالح علیہ السلام نبی بنا کر بھیجے گئے ، ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں تھے اور حجازو                               شام کے                               درمیان سر زمین حجر                               میں رہتے تھے، حضرت صالح علیہ السّلام                               کے والد کا نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذرابن ثمود ہے، قوم ثمود قوم عاد کے بعد ہوتی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السلام کے بعد ہیں۔(تفسیر صراط الجنان جلد۳، صفحہ۳۶۹)

قوم ثمود کا واقعہ :

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم فرمایا : اے میری قوم ! تم اللہ تعالی کو ایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل نہیں ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے، حضرت صالح علیہ السلام نے قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ ، اے قوم ثمود! تم اس وقت کو یاد کرو، جب اللہ عزوجل نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا، قوم عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کیا اور تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالی نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہارا حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں آرام کرنے کے لیے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم سے بچنے کے لیے پہاڑوں کو تراشتے ہو اور مکان بناتے ہو، تم اللہ کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر اور گناہ کرنے سے بچو کہ، گناہ سرکشی اور کفر کی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا اور رب قہار (عزوجل) کے عذاب آتے ہیں۔

قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السلام سے عرض کی : اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریںْ( ان صفات کے بارے میں مکتبہ المدینہ کی کتاب عجائب القرآن میں لکھا ہے کہ ایک گابھن ( یعنی بعد میں بچہ بھی دے) اونٹنی نکالیے جو خوب فربہ ( یعنی موٹی تازی بھی ہو) اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو)

اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح علیہ السّلام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عزوجل سے دعا کی، سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری اونٹنی نمودار ہوئی اور پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا، یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جب کہ باقی اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح علیہ السلام اپنے رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا : بے شک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں، سرداروں نے کہا، جس پر تم ایمان رکھتے ہو، ہم تو اس کا انکار کرتے ہیں۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دو تاکہ اللہ کی زمین میں کھاتے اور برائی کی نیت سے ہاتھ نہ لگانا، نہ مارنا، نہ ہاکنا، اور نہ قتل کرنا، اگر ایسا کیا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہیں دردناک عذاب پکڑلے گا۔

قوم ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی جو بڑی حسین و جمیل تھی اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لیے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا، اگر تو اونٹنی کو ذبح کردے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا، یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کردیا مگر قیدار نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی، اورحضرت صالح علیہ السلام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے، اے صالح اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو، انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں(ٹانگیں ) کاٹیں تھیں، حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن بعد ہلاک ہوجاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک آواز میں گرفتار ہوتے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہوگئے۔ پھر سخت زلزلہ قائم کیا گیا، ان کی ہلاکت سے پہلے اولاً حضر تِ صالح علیہ السلام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے، پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے، روانگی کے وقت ان کی لاشوں پرگزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کرکے بولے : اے میری قوم ! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچادیا اور میں نے تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔(یہ واقعہ تفسیر صراط الجنان جلد 3، پارہ 8 سورة الاعراف کی آیت نمبر 73 تا79 کے تحت ، صفحہ 360 تا 361 پر ہے۔ )