7۔ مؤلف: عبد اللہ فراز عطاری ( درجہ ثالثہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور)
حضرت
آدم علیہ السلام سے لے کر ابھی تک بہت سے لوگ اس زمین پر آباد ہوئے جن کا تعلق
مختلف قوموں سے تھا۔ اللہ تعالی نے ان کی ہدایت کے لئے کئی پیغمبر
بھی بھیجے۔ ان قوموں میں سے کچھ کا ذکر قران مجید میں بھی ہے۔ قرآن مجید میں مذکور
ان قوموں میں قوم نوح جو طوفان سے ہلاک کی گئی، قوم عاد جو ہوا سے ہلاک کی گئی،
قوم ابراہیم جو سلب نعمت سے ہلاک کی گئی، قوم شعیب جو بادل والے دن کے عذاب سے
ہلاک کی گئی اور قوم ثمود جو زلزلے سے ہلاک کی گئی بھی ہیں۔
ثمود بھی عرب کا ہی ایک قبیلہ تھا ۔ یہ لوگ ثمود
بن ارم بن سام بن نوح علیہ السّلامکی اولاد میں سے تھے اور حجاز و شام
کے درمیان سرزمین حِجْرمیں رہتے تھے۔ حضرت صالح علیہ السّلام کے والد کا
نام عبید بن آسف بن ماسح بن عبید بن حاذر ابن ثمود ہے۔ قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد
ہوئی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السّلام کے بعد
ہیں۔ اللہتعالیٰ نے
حضرت صالح علیہ السّلام کو
ان کی قوم ثمود کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا :اے میری قوم! تم اللہ
تعالیٰ کوایک مانو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراؤ اور صرف اسی کی
عبادت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس قابل ہی نہیں
ہے کہ وہ عبادت کا مستحق ہو، اللہ تعالیٰ ہی تمہارا معبود ہے۔
حضرت
صالح علیہ السّلام نے
قوم ثمود کو اللہ تعالیٰ
کی نعمتیں یاد دلا کر بھی سمجھایا کہ: اے قوم ثمود! تم اس وقت کویاد کرو،
جب اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہیں قومِ عاد کے بعد ان کا جانشین بنایا،
قومِ عاد کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر کے تمہیں ان کی جگہ بسایا، اللہ تعالیٰ
نے تمہیں زمین میں رہنے کو جگہ عطا کی، تمہا را حال یہ ہے کہ تم گرمی کے موسم میں
آرام کرنے کیلئے ہموار زمین میں محلات بناتے ہو اور سردی کے موسم میں سردی سے بچنے
کیلئے پہاڑوں کو تراش کر مکانات بناتے ہو۔ تم اللہ تعالیٰ
کی ان نعمتوں کو یاد کرو اور زمین میں کفر ا ور گناہ کرنے سے بچو کہ گناہ، سرکشی
اور کفرکی وجہ سے زمین میں فساد پھیلتا ہے اور ربِّ قہار عَزَّوَجَلَّ کے
عذاب آتے ہیں۔ تو قوم نے ان نصیحتوں پر عمل نہ کیا جو بڑی نافرمانیوں میں سے
ایک تھی۔
قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت
صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں
تو پہاڑ کے اس پتھر سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی ظاہر کریں ، اگر ہم نے یہ
معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے ایمان کا وعدہ لے کر رب عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی ۔
سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور اسی شکل و صورت کی پوری جوان اونٹنی نمودار ہوئی اور
پیدا ہوتے ہی اپنے برابر بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے
ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔ حضرت
صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے متکبر سردار کمزور مسلمانوں
سے کہنے لگے: کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے
رب کے رسول ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیشک ہمارا یہی عقیدہ ہے، ہم انہیں اور ان کی
تعلیمات کو حق سمجھتے ہیں۔ سرداروں نے کہا :جس پر تم ایمان رکھتے ہو ،ہم تواُس کا
انکار کرتے ہیں۔
حضرت
صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اس معجزے والی اونٹنی کے بارے
میں فرمایا تھا کہ ’’تم اس اونٹنی کو تنگ نہ کرنا اور اسے اس کے حال پر چھوڑ
دو تا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی کی نیت سے
ہاتھ نہ لگانا ، نہ مارنا، نہ ہنکانا اور نہ قتل کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو نتیجہ
یہ ہوگا کہ تمہیں درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔ قومِ ثمود میں ایک صدوق نامی عورت
تھی، جو بڑی حسین و جمیل اور مالدار تھی، اس کی لڑکیاں بھی بہت خوبصورت تھیں۔
چونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی سے اس
کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا
کہ’’ اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ یہ
دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے ذبح کر دیا مگر قیدار
نے ذبح کیا اور مصدع نے ذبح پر مدد دی۔ قوم عاد نے جو نافرمانیاں کیں ان میں سے ایک
بڑی نافرمانی یہ بھی تھی۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے
سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی
تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ انہوں نے بدھ کے دن اونٹنی کی کوچیں کاٹیں تھیں ،
حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے
بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہو
جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اتوار کے دن دوپہر کے قریب اولاً ہولناک
آواز میں گرفتار ہوئے جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔
قران مجید میں گزشتہ قوموں کے واقعات ذکر کرنے
کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم ان سے عبرت حاصل کریں اور ان کاموں سے باز رہیں جن کی
وجہ سے گزشتہ قوموں کو عذاب دیا گیا۔ ان برے کاموں سے بچنا تبھی ممکن ہے جب ان کا
علم ہو اور یہ علم حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ، ابو صالح مفتی محمد قاسم عطاری کی
تصانیف "صراط جنان" اور "سیرت الانبیاء" کا مطالعہ کرنا ہے۔ (صراط الجنان ماخوذاً)