جب سے یہ کائنات ظہور میں آئی ہے، اللہ پاک اپنے بندوں کو صراط مستقیم پر چلانے کے لیے اور ان کی اصلاح کے لیے مختلف زمانوں میں، مختلف علاقوں میں اور مختلف قوموں میں انبیائےکرام کو بھیجتا رہا ہے۔ انسان جب گردش حالات اور اپنی فطری کمزوریوں کے باعث سیدھے رستے سے بھٹک جاتے، خدائے یکتا کی عبادت کے بجائے طرح طرح کے معبودوں کی پرستش کرنے لگتے اور شرک و کفر میں حد سے بڑھ جاتے تو اللہ پاک ان میں اپنا کوئی نبی بھیج دیتا۔ جو اپنی قوم کو سیدھی راہ پر چلنے کی تلقین کرتا۔ نتیجتا کچھ لوگ پیغمبروں پر ایمان لے آتے اور کچھ سرکشی میں اس قدر بڑھ جاتے کہ اللہ کا عذاب انھیں نیست و نابود کردیتا۔

ایسی ہی ایک بدبخت قوم، حضرت صالح علیہ اسلام کی قوم تھی۔ جسے قوم ثمود کہا جاتا ہے۔یہ لوگ ثمود بن رام بن سام بن نوح  کی اولاد میں تھے اور حجاز و شام کے درمیان سرزمین حِجْر میں رہتے تھے۔ یہ قوم، قوم عاد کے بعد ان کی جانشین ہوئی۔ مال، اولاد اور مویشیوں کی کثرت تھی۔ جس کے زعم میں مبتلا ہوکر خدائے واحد کے سوا طرح طرح کے معبود بنا رکھے تھے۔ گرمیوں میں زمین ہموار کرکے مکان بناتے اور سردیوں میں پہاڑوں کو تراش کر جائے مسکن بناتے۔ اس قوم کی ہدایت کی خاطر اللہ پاک نے حضرت صالح علیہ اسلام کو مبعوث فرمایا۔

"وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا" (پ8 ،الاعراف:73)

ترجمہ کنز العرفان: "اور قومِ ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا ۔"

حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو خدائے واحد کی عبادت کا پیغام دیا۔ قومِ ثمود کے سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح  سے عرض کی: ’’ اگر آپ سچے نبی ہیں تو پہاڑ کے اس پتھر سے ایک اونٹنی ظاہر کریں جو حاملہ ہو، اگر ہم نے یہ معجزہ دیکھ لیا تو آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ حضرت صالح  نے رب پاک سے دعا کی ۔ سب کے سامنے وہ پتھر پھٹا اور ایک جوان اور انتہائی خوبصورت اونٹنی نمودار ہوئی اور ایک ساعت بعد بچہ جنا۔ یہ معجزہ دیکھ کر جندع تو اپنے خاص لوگوں کے ساتھ ایمان لے آیا جبکہ باقی لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے اور کفر پر قائم رہے۔

حضرت صالح نے فرمایا۔ "اللہ پاک کے حکم سے اس اونٹنی کی پانی پینے کی باری ایک دن اور ایک دن تمہاری باری ہے۔ خبردار اس کو نقصان نہ پہنچانا ورنہ ایک سخت دن کی آفت تمھیں گھیر لے گی۔"

اس نصیحت پر قوم نے کچھ عرصہ من و عن عمل کیا۔ اور اس کے دودھ سے بے بہا فائدہ اٹھایا۔ مگر جلد ہی اپنے منہ مانگے معجزے سے قوم بے زار ہوگئی۔

قومِ ثمود میں ایک صدوق نامی عورت تھی، جو حسین اور مالدار تھی، اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں۔ چونکہ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی سے اس کے جانوروں کو دشواری ہوتی تھی اس لئے اس نے مصدع ابن دہر اور قیدار کو بلا کر کہا کہ’’ اگر تو اونٹنی کو ذبح کر دے تو میری جس لڑکی سے چاہے نکاح کر لینا۔ یہ دونوں اونٹنی کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ پا کر دونوں نے اسے قتل کر دیا اور اس کی کونچیں کاٹ دی۔ اور حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے سرکشی کرتے ہوئے کہنے لگے: اے صالح! اگر تم رسول ہو تو ہم پر وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے رہتے ہو۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا کہ تم تین دن کے بعد ہلاک ہو جاؤ گے۔ پہلے دن تمہارے چہرے زرد، دوسرے دن سرخ، تیسرے دن سیاہ ہو جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، تین دن بعد ایک خوفناک چنگھاڑ سے ان کے جگر پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے۔

ان کی ہلاکت سے پہلے حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مومنوں کے ساتھ اس بستی سے نکل کر جنگل میں چلے گئے۔ پھر ان کی ہلاکت کے بعد وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ روانگی کے وقت ان کی لاشوں پر گزرے تو ان کی لاشوں سے خطاب کر کے بولے: " اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب پاک کا پیغام پہنچا دیا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔"یوں قوم ثمود اپنی نافرمانیوں کے باعث صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔