ثمود کس نبی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قوم کا نام ہے، اللہ پاک نے اِس قوم کی طرف اپنے جلیلُ القدر نبی حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا۔مدینۂ منورہ سے کم و بیش چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر یہ علاقہ موجود ہے، جسے اب مدائن صالح کہا جاتا ہے، جبکہ اس علاقے کا اصل نام حجر ہے۔

قرآن کریم میں ذکر ہے:ولقد کذب اصحب الحجر المرسلین۔ "اور حجر والوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔"(پ14، حجر:80)

اس قوم کو ثمود کہنے کی وجہ:

ثمود نامی ایک بڑا آدمی تھا، اس کی نسل اس علاقے میں آ کر آباد ہو گئی تو اس نسل کو قومِ ثمود کہا جانے لگا اور قرآن کریم میں بھی قومِ ثمود سے ہی ذکر کیا گیا ہے، بعض مفسرین نے کہا کہ اس قوم کو عادِ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔

قومِ ثمود کا تعارف:

قومِ ثمود عرب میں آباد تھی، یہ لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے اور ان کے پاس حیران کُن ہنر پہاڑوں کو تراشنا تھا، یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر اِس میں مکان بنا ڈالتے تھے، کہتے ہیں کہ اِن کے ہاتھوں میں پتھر موم کر دیا گیا تھا، ان کے مکانات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم زیادہ قدآور نہ تھی، بہت خوشحال اور طاقتور تھی اور اسی گھمنڈ نے ان کو مغرور اور ظالم بنا دیا تھا، یہ قوم بت پرست اور مُشرک تھی۔

قومِ ثمود کی نافرمانیاں:

1۔ایمان کی دعوت قبول نہ کی:

حضرت صالح علیہ السلام نے اِس قوم کو اللہ پاک کے فرمان سُنا کر ایمان کی دعوت دی، تو اس سرکش قوم نے اس دعوت کو قبول نہ کیا، بلکہ آپ سے معجزہ طلب کیا۔

معجزہ:

کہ آپ علیہ السلام اس چٹان میں سے ایک گابھن اُونٹنی نکالئے، جو خوب فربہ اور نقص سے پاک ہو، آپ علیہ السلام نے اشارہ کیا، تو ایک اُونٹنی نکل پڑی اور نکل کر اس نے بچہ بھی جنا۔ 2۔آپ علیہ السلام کی بات مان کر پھر گئے:

آپ علیہ السلام نے فرمایا:" کہ یہ معجزہ کی اُونٹنی ہے، ایک روز یہ سارے تالاب کا پانی پی جائے گی اور ایک روز تم لوگ پینا، قوم یہ بات مان گئی، پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے تقریر فرمائی: "اے میری قوم!اللہ کو پُوجو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بے شک تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے روشن دلیل آئی ہے، یہ اللہ کا ناقہ ہے، تمہارے لئے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے بُرائی سے ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آئے گا۔"(اعراف"73)

چنددن قومِ ثمود نے برداشت کیا کہ ایک دن اِن کو پانی ملتا تھا، پھر وہ اپنی بات سے پھر ے اور اپنے نبی کی نافرمانی کرتے ہوئے اس اُونٹنی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

3۔آپ کے منع کرنے کے باوجود اُونٹنی کو قتل کر دیا:

قدار بن سالف اس اُونٹنی کے قتل کرنے کو راضی ہوگیا، آپ علیہ السلام منع کرتے رہے، لیکن اس سُرخ رنگ کے پستہ قد آدمی نے بڑی بے رحمی سے اُونٹنی کے چاروں پاؤں کاٹ دئیے، پھر انتہائی سرکشی کے ساتھ اس کو ذبح کردیا اور حضرت صالح علیہ السلام سے بے ادبا نہ گفتگو کرنے لگا۔(القرآن، سورہ اعراف:77)

"پس ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح! ہم پر لے آؤ، جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول ہو۔"

4۔نافرمانی کا انجام:

قومِ ثمود کی سرکشی اور نافرمانی کا بھیانک انجام ایک خوفناک چنگھاڑ کی آواز کے بعد شدید ترین زلزلہ سے ہوا، قومِ ثمود کا ایک ایک آدمی گھٹنوں کے بل اوندھا گر کر مر گیا۔(القرآن، سورہ اعراف، آیت نمبر 78)

تو انہیں زلزلہ نے آ لیا، تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔

خلاصہ کلام:

قومِ ثمود کی بستی برباد و ویران ہو کر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اُتر گئی، کی آج ان کی نسل کا کوئی اِنسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔(حوالہ جات:عجائب القران مع غرائب، ص106 تا 103، ترجمہ کنزالایمان، کچھ معلومات مدنی چینل کے سلسلہ مقاماتِ عبرت سے حاصل کی ہے۔)