بروزِقیامت زبان
بند کر دی جائے گی اور آنکھیں، کان وغیرہا
سے جتنے گناہ کئے ہوں گے، ان سب کا بتائیں
گے، ہاتھ سے کئے جانے والے گناہوں کی گواہی
ہاتھ دیں گے، اسی طرح پاؤں سے کئے جانے
والے گناہوں کی گواہی پاؤں دیں گے، وعلی ھذاالقیاس(اور اسی پر تمام اعضاء کا قیاس کر لیں)۔اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے تو قرآن پاک میں خود ربّ کریم سورۂ
یٰسین، آیت نمبر 65 میں ارشاد فرماتا ہے:اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى
اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ و تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا
كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۔ترجمہ کنزالعرفان:آج ہم ان
کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں ان
کے اعمال کی گواہی دیں گے۔معلوم ہوا ! بندہ اپنے جسم کے جن اعضاء سے گناہ کرتا ہے،
وہی اعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں
گے اور اس کے تمام اعمال بیان کردیں گے اور اس کی ایک حکمت یہ ہے کہ بندے کی ذات
خود اس کے خلاف حجّت ہو، جیسا کہ حضرت
ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے: بندہ کہے گا:اے میرے ربّ!میں تجھ پر، تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا، میں نے نماز پڑھی، روزہ رکھا اور صدقہ دیا، وہ اپنی استطاعت کے مطابق اپنی نیکیاں بیان کرے
گا، اللہ پاک ارشاد فرمائے گا :ابھی
پتہ چل جائے گا، پھراس سے کہا جائے گا : ہم ابھی تیرے خلاف گواہ بھیجتے
ہیں، وہ بندہ اپنے دل میں سوچے گامیرے
خلاف کون گواہی دے گا؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران، اس کے گوشت اور اس کی ہڈیوں سے کہا جائے گا:تم
بولو، پھر اس کی ران، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال بیان کریں گی اور یہ اس لئے
کیا جائے گا کہ خود اس کی ذات اس کے خلاف حُجّت ہو اور یہ بندہ وہ منافق ہوگا،جس
پر اللہ
پاک ناراض ہوگا۔(مسلم، کتاب الزہد والرقائق،
ص1587، حدیث16(2968)لہٰذا آیت و حدیث مبارکہ سے
واضح ہو گیا کہ قیامت کے دن اعضاء گواہی دیں گے، اس سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہےکہ آج جو اعضاء ہمارے گناہ میں مددگار ہیں، کل وہی ہمارے خلاف حجّت بنیں گے، اللہ پاک ہمیں ہر صغیرہ و کبیرہ گناہ سے محفوظ
فرمائے۔آمین ثم آمین۔یاد رہے! مونہوں پر لگائی جانے والی مہر ہمیشہ کے لئے نہ ہوگی،
بلکہ اعضاء کی گواہی لے کر توڑ دی جائے گی،
اس لئے وہ دوزخ میں پہنچ کر شور مچائیں گے۔