حضور جان عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خالق پاک ارشاد فرماتا ہے:اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ۔ترجمہ:آج ہم ان کے مونہوں پر مہر کر دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے کئے کی گواہی دیں گے۔(پ 26، یٰسٓ: 65)اللہ ُ اکبر ! دلوں کو چیر دینے والی اور اعضاء کو خوفِ خدا پاک میں فنا کردینے والی آیت ہے، وہ کیا منظر ہوگا جب زبانیں خشک ہوں گی، پسینےبہتے ہوں گے، دل گلوں تک آ گئے ہوں گے، تپتی زمین پاؤں نہ رکھنے دے گی، برہنہ جسم ہوں گے، ہر ایک دوسرے سے بیزار اپنے نتیجے کا انتظار کرتا ہوگا، اِس کڑے وقت میں اس شخص کا تصور کریں،جس کو حساب کے لئے بلایا جا رہا ہے، کہاں ہے فلاں! آج سامنے آؤ اور ہمیں اپنے اعمال کا حساب دو، اب جھوٹ بولنا چاہے گا تو اس کے منہ پر مہر کر دی جائے گی، اس کی آنکھوں کو حکم ہوگا، بولو اس نے کیا کیا کیا؟ ارے کیا حالت ہوگی، جب آنکھ کہے گی:اے میرے ربّ!تیرے اور تیرے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عشق میں فنا کرنے کی بجائے اس نے مجھے بے حیائی میں فنا کردیا تھا۔پاؤں کہیں گے:اے میرے ربّ! اس نے تیری نہ مانی، بلکہ تیرے دشمن شیطان کی مانی، دل کہے گا:اے میرے ربّ! تو نے فرمایا تھا :دلوں کا سکون ذکر اللہ میں ہے، مگر اس نے مجھے کبھی سکون ہی نہ دیا، یوں ہی تمام اعضاء بولتے جائیں گے، یہ شرم و ندامت میں بھرا سنتا جائے گا، سارے اہلِ محشر سنتے ہوں گے، کہیں گے: ارے کتنا نافرمان تھا، آج تو دوزخ کا ایندھن بن جائے گا،آنکھ اٹھا کر دیکھے گا، سامنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جلوہ فرما ہیں، وہ سن رہے ہیں، میں کیا کرتا تھا، اب تو اس کی گردن شرم سے جھک جائے گی، حساب اور وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے! روتا تڑپتا حضور جانِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدمینِ شریفین میں گرے گا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم چاہیں گے تو شفاعت فرمائیں گے، ورنہ جہنم کی گہرائیوں کو دیکھے گا۔کبھی تصور کریں کہ یہ کتنا مشکل وقت ہوگا کہ آج میرا کچھ بھی نہ چھپے گا، نہ میں جھوٹ بول سکوں گا، نہ فدیہ دے کر جان چھڑا سکوں گا، وہ لوگ بھی سنیں گے جن کے سامنے نیک بنتا تھا اور تنہائیوں میں ربّ پاک کی نافرمانیاں کرتے حیانہ آتی تھی، اے ریاکار! بول کر پکارا جائے گا یا فاسق کہہ کر پکارا جائے گا یا نافرمان کہہ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔نہیں نہیں! ابھی وقت ہے، ابھی سانسیں جاری ہیں، مجھے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے حیا آتی ہے، وہ کام نہیں کروں گی، جو ربّ پاک کو ناراض کریں، جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قلبِ منور کو رنج دیں۔میں بروزِ قیامت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قلبِ انور کو خوش کروں گی، میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دکھ نہیں دینا چاہتی۔