میرے پیارے اور میٹھے اسلامی بھائیوں جیسا کہ آپ سب حضرات جانتے ہیں کہ اس دور میں بے شمارفتنے اور فساد پھیلے ہوۓ ہیں جن میں سے ایک ناحق قتل بھی ہے جو اس وقت بہت زیادہ پھیل رہا ہے گلی گلی محلہ محلہ اس برے فساد کا شکار ہے جس کی وجہ سے نا حق قتل پہ قتل ہو رے ہیں جو کہ ہماری دنیاوآخرت کے لۓ نہایت نقصان کا باعث ہے ۔

اللہ پاک ہمیں اس برے فتنے و فساد سے محفوظ فرماۓ(آمین)!

میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیوں احادیث طیبہ طاہرہ میں اس کی بے شمار جگہ پر مذمت فرمائ ہے ۔ چنانچہ چند احادیث ناحق قتل کی مذمت میں درج ذیل ہیں؛

1-وَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛اَوَّلُ مَا یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فِیْ الدِّمَاءِ0 روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کے قیامت کے دن سب سے پہلے خونوں کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ (مشکوۃ المصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308 حدیث نمبر 3298)یعنی قیامت کے دن معاملات میں سب سے پہلے خون نہ حق کا فیصلہ ہوگا بعد میں کچھ اور۔

وَعَنِ الْمِقْدَادِبْنِ الْاَسْوَدِ اَنَّہُ قَالَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَرَاَیْتَ اِنِّ لَقِیْتُ رَجُلًامِنَ الْکُفَّارِفَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ اِحْدَی یَدَیَّ بِالسَّیْفِ فقطعھما ثُمَّ لَاذَ مِنِّی بِشَجَرَۃِ فَقَالَ:اَسْلَمْتُ لِلّٰہِ وَفِی رِوَایَۃٍ: فَلَمَّااَھْوَیْتُ لِاَقْتُلَہُ قَالَ:لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَاَقْتُلُہُ بَعْدَ اَنْ قَالَھَا؟قَالَ(لَا تَقْتُلْہُ)فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّہُ قَطَعَ اِحْدَی یَدَیَّ فَقَالَ:رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَا تَقْتُلْہُ فَاِنْ قَتَلْتَہُ فَاِنَّہُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ اَنْ تَقْتُلَہُ وَاِنَّکَ بِمَنْزِلَتَہُ قَبْلَ اَنْ یَقُوْلَ کَلِمَتَہُ الَّتِی قَالَ

روایت ہے حضرت مقداد ابن اسود سےانہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فرمائیے اگر میں کسی کافر ادمی سے ملوں پھر ہم جنگ کریں تو وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ دےپھر وہ مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے لے پھر کہے کہ میں اللہ کے لیے اسلام لے ایا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کرنا چاہا تو وہ بولا لا الہ الا اللہ تو اس کے کہنے کے بعد میں اسے قتل کر دوں? فرمایا قتل نہ کرو پس وہ بولے یا رسول اللہ اس نے میرا ایک ہاتھ کاٹ دیا ہےتو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا .مت قتل کرواگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے درجے میں ہوگا جو قتل کرنے سے پہلے تمہارا تھا اور تم اس کے درجے میں ہو جو اس کے کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر308،حدیث نمبر3299)

وَعَنْ ابْنِِ عُمَرَ قَالَ :قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنْ یَزَالَ الْمُوْمِنُ فِیْ فُسْحَۃٍ مِنْ دِیْنِہِ مَا لَمْ یُصِبْ دَمًا حَرَامًا) ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مسلمان اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے جب تک کہ حرام خون نہ کرے۔ (مشکاۃالمصابیح،جلد دوم،صفحہ نمبر 308،حدیث نمبر3297)

یعنی مسلمان ادمی کیسا ہی گنہگار ہو مگر وہ اسلام کی گنجائش رحمت الہی کی وسعت میں رہتا ہے اللہ سے نا امید نہیں ہوتا مگر قاتل ظالم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں رہتا کل قیامت میں اس طرح ائے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا (آیس من رحمۃ اللہ )حدیث شریف میں ہے کہ جو قتل مومن میں ادھی بات سے بھی مدد کرے وہ بھی رب تعالی کی رحمت سے مایوس ہے بعض نے فرمایا کہ ظالم قاتل کو دنیا میں نیک اعمال کی توفیق نہیں ملتی۔

وَعَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (مَنْ اَعَانَ عَلَی قَتْلِ مُوْمِنٍ شَطْرَ کَلِمَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ مَکْتُوْبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ آیسُ مِنْ رَحْمَۃِ

اللّٰہِ)0

حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو کوئ مسلمان کے قتل میں آدھی بات سے بھی مدد کی تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ اللہ کی رحمت سے نا امید۔(مشکاۃالمصابیح،جلد دوم، صفحہ نمبر311،حدیث نمبر 3328)

وَ عَنْ اَبِی سَعِیْدٍ وَ اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ :(لَوْاَنَّ اَھْلَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ الشْتَرَکُوْا فِی دَمِ مُوْمِنٍ لَاَکَبَّھُمُ اللّٰہُ فِی النَّارِ

حضرت ابو سعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر زمین و اسمان والے ایک مسلمان کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالی انہیں آگ میں اوندھا ڈال دے۔(مشکاۃالمصابیح ،جلد دوم،صفحہ نمبر309/310،حدیث نمبر3311)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔