وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ترجمۂ کنز الایمان اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لئے تیار رکھا بڑا عذاب۔

اس آیت میں جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کرنے کی اُخروی وعید بیان کی گئی ہے مسلمان کو ناحق قتل کرنے کی مذمت میں جو احادیث مبارکہ وارد ہوئیں وہ تو بہت ہیں البتہ ان میں سے چند درج ذیل ہیں

(1)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاھا،385/4.حدیث6871)

2۔ حضرت ابو بکرہ رَضِیَ ا للہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی رسول ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین، من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)

(3)…حضرت ابو بکرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے مروی ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: مقتول جہنم میں کیوں جائے گا؟ ارشاد فرمایا: اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی کو قتل کرنے پرمُصِر تھا۔(بخاری، کتاب الایمان، باب وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوا۔۔۔ الخ،1 / 23حدیث 31)

(4)…حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے،اللہ پک کے آخری نبی رسول عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے مایوس ہے۔‘‘(ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا،262/3. حدیث 2620)

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے اور عسکری وِنگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارتگری کرنا ہے۔

مسلمانوں کا باہمی تعلق کیساہونا چاہئے؟ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہئے، اس بارے میں 5 احادیث پیش کرتا ہوں۔

(1)…حضرت عبداللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ پر نور شافع یوم النشور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون۔۔۔ الخ، 15/1 حدیث 10)

(2)…حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسندکرتا ہے۔(بخاری، کتاب الایمان، باب من الایمان ان یحبّ لاخیہ۔۔۔ الخ، 14/1 الحدیث: 13)

(3)…حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ نہ اس پر ظلم کرے نہ اسے حقیر جانے ۔ تقویٰ یہاں ہے اور اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا۔ انسان کے لیے یہ برائی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے ۔ مسلمان پر مسلمان کی ہر چیز حرام ہے ، اس کا خون، اس کا مال، اس کی آبرو۔ یعنی عزت (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ ص1484 حدیث: 32.(2564)

(4)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا سے مروی ہے ,اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی ،محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ و ہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ دے اور بری باتوں سے منع نہ کرے۔ (ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی رحمۃ الصبیان369/3 حدیث: 1928)

(5)… حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان : مسلمان کو گالی دینا فِسق اور اسے قتل کرنا کفر ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب بیان قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: سباب المسلم۔۔۔ الخ ، ص52،حدیث 116(62)

مسلمان کو قتل کرنا کیسا ہے؟ اگر مسلمانوں کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور قتل کو حرام ہی سمجھا لیکن پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت ِ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ناجائز و گناہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے لھذا اپنے آپ کو اللہ پاک کی بے نیازی سے ڈراتے ہوئے جس نے یہ فعل قبیح کیا وہ توبہ بھی کرے اور آئندہ اپنے آپ کو سنتوں کا پابند بنانے کی کوشش کرتا رہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنتوں کا عامل بنائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔