کسی کا ناحق
قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے جس کا ذکر بہت سی احادیث مبارکہ میں ہوا ہے۔ ناحق قتل کرنے
کے بارے میں کچھ احادیث درج ذیل ہیں:
1:لا ترجعوا بعدي كفاره
يضرب بعضكم رقاب بعض(صحیح مسلم ج 1ص58) ترجمہ: میرے بعد کفر کی طرف نہ
لوٹ جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں مارنا شروع کر دیں۔ اور رسول اکرم صلی
اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
2:لا يَزَالُ الْعَبْدُ فِي
فَحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يَصُبُ دَمَّا حَرَامًا (صحیح مسلم ج
ا ص 58) بندہ ہمیشہ اپنے دین کی وسعت میں ہوتا ہے جب تک حرام خون تک نہ پہنچے۔
نبی اکرم صلی
اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:
3:اولُ مَا يَقْضِي بَيْنَ
بدر النَّاسِ يَوْمَ القِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ -( صحیح
بخاری ج 2 ص 1014) قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون (قتل) کا فیصلہ ہو
گا۔
آپ کا ارشاد
گرامی ہے:
4: لَقَتْلُ مُؤْمِنَ
أَعْظَمُ عِنْداللهِ مِن زَوَالِ الدُّنْيَا( .السنن
الکبریٰ للبیہقی ج 8ص (22) کسی مومن کا قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں دنیا کے زوال سے
بھی بڑا (جرم) ہے۔
رسول اکرم صلی
اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
5:لا تَقْتُلُ نَفْسَ
ظُلْمًا إِلَّا كَانَ علَى ابْنِ آدَمَ الأَوَّلُ كُفْلَ مِنْ دَمِهَا لِأَنَّهُ
أُولُ مِن سَن القَتْلِ (صحیح مسلم ج2 ص 60) جب کوئی نفس ظلم کے طور پر قتل
ہوتاتواس کا گناہ حضرت آدم علیہ السلام کےپہلے بیٹے (قابیل) پر ہوتا ہے، وہ اس کے
خون کا ذمہ دار ہے، کیونکہ اس نےسب سے پہلے قتل کا طریقہ جاری کیا۔
حضرت معاویہ
رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
6: كُلِّ ذَنْب عَسَى
اللَّهُ أَن يغفره الا الرجل. يَمُوتُ كَافِرًا او الرَّجُلُ يَقْتُلُ مُؤْمِنًا
متعمدا،(مسند
امام احمد بن حنبل ج 4 ص 99) قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو بخش دے ، مگر جو
شخص حالت کفر میں مر جائے یا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔