شہاب الدین عطاری (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ
ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)
معاشرے میں
رائج بیماریوں میں سے ایک شدید بدترین، قبیح بیماری قتل و غارت ہے۔ جی ہاں خوف خدا
نہ ہونے کی وجہ سے ، صبر ، و رضا ، بھائی چارہ ، اخوت ، الغرض بنیادی علم دین نہ
ہونے کی وجہ سے ، حقوق العباد کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ، مزید اور بھی بہت سی
اغراض ہیں جن کی وجہ سے قتل ناحق جیسی بیماری جنم لیتی ہے۔ قرآن و حدیث میں قتلِ
ناحق کی بڑی شدت سے مذمت بیان کی گی ہے ۔ جیسے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے
وَ مَنْ
یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ ترجمہ
کنزالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے (
پارہ 5 ، سورہ النساء ، آیت نمبر 93)
آئیے احادیث
مبارکہ کی روشنی میں ناحق قتل کی مذمت کے بارے میں جانتے ہیں :
1:
بڑے کبیرہ گناہوں میں سے : حضرت انس رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ ختم نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو( ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری،
کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالٰی: ومن احیاہا، 4 / 358،
الحدیث: 6871)
2:
بڑے خسارے کا شکار : حضرت ابو بکرہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس خاتم النبیین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع
ہوجائیں تواللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔(معجم صغیر، باب العین،
من اسمہ علی، ص205 ، الجزء الاول)
3:
اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس لوگ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے
کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ
میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا ’’یہ اللہ عَزَّوَجَلَّ
کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الدیات، باب التغلیظ فی قتل مسلم ظلمًا، 3 / 262، الحدیث: 2620)( تفسیر
صراط الجنان ، پارہ 5 سورہ النساء ، آیت نمبر ، 93)
4:
دنیا کے زوال سے بڑھ کر : حضرتِ سیدنا عَبْدُ اللہ بن عَمْرو رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک ایک مومن کا قتل دنیا کے زوال سے بڑھ
کر ہے۔ (ترمذی،کتاب الدیات، باب ماجاء فی تشدید قتل مؤمن،3/98،
حدیث:1400)
احادیث مبارکہ
میں بڑی شد و مد کے ساتھ مذمت کی گی ہے ۔ مگر افسوس کہ آج سوچے سمجھے سازشوں کے
تحت مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی بات پر، ہلکی سی نوک
جوک پر ، تو ترا سے بات قتل تک جا پہنچتی ہے ، اپنے دوست ، ہریف، رشتے داروں اہل
حق کو ہرانے کے لیے ، نیچہ دیکھانے کے لیے ، حسد و بغض اور بے جا عزت و شہرت کی
بنا پر قتل کیا جاتا ہے ۔ یاد رہے عزت دینے والی ذات ، نعمت دینے والے ذات ، اور
دیگر شر سے بچانے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے اس کی جانب رجوع کیا جائے ،
کسی کو ناحق قتل کر کے ، وہ چیز حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ البتہ دین و دنیا کی
بربادی کا سبب بن جاتا ہے بندہ اور آخرت کا دائمی عذاب الگ ۔ پھر کہاں باقی رہی وہ
چیز جس کے لیے یہ کام کیا ؟
عموما ایسے
کام علم دین نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ نفس کو کسی کا خوف نہ ہو تو وہ بے باکی
کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اس برے بدترین عمل سے بچنے اور بچانے کے لیے علم دین حاصل بھی
کیا جائے اور اس کی شمع کو عام کیا جائے ، ایسی بری صحبتوں سے پرہیز کیا جائے ،
قرآن و حدیث میں وارد ترغیبات کا مطالعہ کیا جائے ۔ دائمی عذاب ہر غور کیا جائے ۔
دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہونے سے خوف خدا جیسی عظیم دولت حاصل ہو گی ۔
ان شاءاللہ عزوجل آپ کو دعوت ہے آئیے اور دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے ۔
دعا ہے کہ
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی تمام بری حرکتوں کے مرتکب ہونے سے بچائے ، ایسی راہ سے بچتے
رہنے بلخصوص بری صحبتوں سے بچتے رہنے اور ان کاموں کے معاون و مددگار بننے سے بھی
بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
۔
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔