محمد وقار یونس عطّاری ( درجۂ سادسہ، جامعۃُ المدینہ فیضانِ غوثِ اعظم
، کراچی)
مرشد کا لفظی معنیٰ ہے راہنما، سیدھے
راستے پر چلانے والا، حضرت مجدّدِ الف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:پیر وہ
ہوتا ہے جو مرید کے مردہ قلب اور روح کو زندہ کرتا ہے اور اسے مکاشفہ اور مشاہدہ تک پہنچاتا ہے۔ (تصوف کا مکمل انسائیکلو پیڈیا،ص
95 ) مرشد کی ذات وہ ذات ہوتی ہے جو ہمیں
اللہ اور رسول کے راستے پر چلاتی ہے، سنتوں پر عمل کرنے کا طریقہ بتاتی اور جذبہ دیتی
ہے، ہمارے ظاہر وباطن کو پاک کرتی ہے اور شریعت کی روشنیوں سے سجاتی ہے۔
ضرورتِ مرشد: اللہ پاک کا قرب حاصل کرنا تو ہر بندہ ٔ مؤمن کے لئے عین سعادت ہے کیونکہ اللہ پاک کی طرف سے مؤمنوں
کو قربِ الٰہی حاصل کرنے کا حکم ہے۔ قرب ِ الٰہی اور روحانی منازل طے کرنے کے لئے
کسی ماہر استاد یا قربِ ِالٰہی کے حامل شخص کی راہنمائی
ضروری ہے ولی اور شیخ کی حیثیت تو صرف روحانی راہنما اور نگران کی ہے جب
اولیا کے دامن سے طالبینِ حق وابستہ ہوتے ہیں تو وہ ان کو محفوظ راستوں سے قربِ الٰہی
کی منازل طے کرواتے ہیں۔
یہاں پیر و مرشد کے متعلق کچھ حقوق لکھے گئے ہیں، ملاحظہ کیجئے!
ادبِ مرشد : مرید پرلازم ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اپنے
پیر کا ادب کرے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں:ان (یعنی مرشدِ کریم) کے کپڑوں ، ان کے بیٹھنے کی جگہ ، ان کی اولاد، ان کے
مکان ، ان کے محلے اور ان کے شہر کی تعظیم کرے ۔ (فتاویٰ رضویہ،24/369 ملخصاً)
مرشِد کے حکم کی بجاآوری
کرنا : مرید کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے
حکم میں اپنے پیر کے سامنے عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے بلکہ اپنے پیر کے حکم پر سر
تسلیمِ خم کر دے ۔ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جو وہ ( یعنی پیر صاحب ) حکم دیں
کیوں نہ کہے (اور بجالانے میں) دیر نہ کرے (بلکہ) سب کاموں پر اسے تقدیم (یعنی
اولیت، ترجیح) دے۔(فتاویٰ رضویہ،24/369 )
پیر کی بارگاہ کا لحاظ
رکھنا: مرید جب بھی پیر کی بارگاہ میں حاضر
ہو تو اسے چاہئے کہ خوب توجہ سے، زبان و دل کو اپنے قابو میں رکھے ۔ بعض بزرگ
فرماتے ہیں: جب کسی دنیا دار کے پاس بیٹھو تو زبان سنبھال کر بیٹھو اور جب وَلیُّ
اللہ کی بارگاہ میں بیٹھو تو دل سنبھال کر بیٹھو۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے: ( پیر کی
بارگاہ میں) ہنسنا تو بڑی چیز ہے ان کے سامنے آنکھ، کان، دل ہمہ تن (ایک ساتھ مکمل
طور پر) انہی کی طرف مصروف رکھے۔ (فتاویٰ رضویہ،24/369 )
پیر پر اعتراض نہ کرے : مرید پر ہر صورت میں لازم ہے کہ پیر
پر اعتراض نہ کرے ۔ اسی ضمن میں سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں:
پیروں پر اعتراض سے بچے کہ یہ مریدوں کے لئے زہرِ قاتل ہے، کم کوئی مرید ہوگا جو
اپنے دل میں شیخ پر کوئی اعتراض کرے پھر فلاح پائے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/510)
پیر کےحق کو سمجھنا: مرید کو چاہئے کہ اپنے پیر کے حقوق
کو سمجھے، اسے اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے افضل جانے، مال جان، اولاد، سب
ان پر تصدق کرنے کو تیار رہے ۔ ان کے ہاتھ میں ایسے رہے جیسے زندہ کے ہاتھ میں
مردہ، ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمن کا دشمن رہے۔ (فتاویٰ رضویہ ،
24/369ملتقطاً)
ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں
حقِ مرشد کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطافرما اور ہمارے مرشد، شیخِ کامل، امیرِ
اہلِ سنت مولانا الیاس قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کو ہم سے راضی
فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم