محمد ارسلان عطاری ( درجہ رابعہ جامعۃُ
المدينہ فیضان غریب نواز لاہور پاکستان )
پیر و مرشد سے محبت کرنے سے خدا و عشقِ مصطفےٰ اُجاگر ہوتا
ہے ۔ دنیا و آخرت سنور جاتی ہے، الغرض پیر و مُرشد کے اپنے مُریدین پر بے شمار
اِحْسانات ہوتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی خوش
نصیب مرشِدِ کامل کے دامنِ کرم سے وابستہ ہو کر مُرید ہونے کی سعادت پالے، تو اُسے
چاہیے کہ اپنے مرشِد سے فیض پانے کیلئے پیکرِ اَدَب بنا رہے ۔ جو مُریدین دل و جان
سے اپنے پیر و مرشد کا ادب كرتے ہیں ، ان کے آداب و حُقُوق میں کوتاہی نہیں کرتے تو ایسے سعادت مند
مُریدین ہی ترقی کی منازل طے کرتے اور پیر و مرشد کے پیارے، محبوب اور منظورِ نظر
بن کر اُبھرتے ہیں، پیر و مرشد کے احسانات و حقوق کس قدر زیادہ ہیں اور ان کا ادب
و احترام کتنا ضروری ہے، اس کا اندازہ بزرگانِ دین کے ان ارشادات سے لگائیے ،چنانچہ حضرت ذُوالنُّون مِصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ ،جب کوئی
مُرید اَدَب کا خیال نہیں رکھتا ، تو وہ لوٹ کر وہیں پہنچ جاتا ہے، جہاں سے چَلا
تھا۔(رسالہ قشیریہ،باب الادب،ص319)
حضرت خواجہ قُطبُ الدِّین بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ سے
جب یہ عرض کی گئی کہ پیر کا مرید پر کس قدر حق ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: اگر
کوئی مُرید عمر بھر حج کی راہ میں پِیر کو سر پر اُٹھائے رکھے تو بھی پیر کا حق
اَدا نہیں ہو سکتا۔(ہشت بہشت،ص397)
حضرت سَیِّدُنا امام عبدُ الوہاب شعرانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: مُریدکی شان یہ ہے کہ کبھی اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اس نے اپنے
مُرشِد کے احسانات کا بدلہ چُکا دیا ہے ۔اگرچہ اپنے مرشِدکی ہزار برس خدمت کرے اور
اس پر لاکھوں روپے بھی خرچ کرے کیونکہ جس مُرید کے دل میں اتنی خدمت اور اتنے خرچ
کے بعد یہ خیال آیا کہ اس نے مُرشِد کا کچھ حق اَدا کردیا ہے تو وہ راہِ طریقت سے
نکل جائے گا یعنی پیر کے فیض سے اس کا کوئی تعلق باقی نہ رہے
گا۔(الانوارالقدسیۃ،الجزءالثانی،ص27)
مُرشِد کے حقوق: مرشِدکے حقوق بے شمار ہیں چند پیش خدمت ہیں:۔
(1) اُس کی رِضا کو اللہ پاک کی رِضا جانے
(2) اُس
کی ناخوشی کو اللہ پاک کی نا خوشی جانے،
(3)اُسے اپنے
حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے ۔
(4) اگر کوئی نِعمت دوسرے سے ملے تو بھی اُسے مُرشد
ہی کی عطا اور اُنہیں کی نظر کی توجہ کا صَدْقہ جانے۔
(5) مال ، اولاد ، جان سب اُن پر تَصَدُّق کرنے کو
تیار رہے۔
(6) اُنکی جو بات اپنی نظر میں خلافِ شرعی، اُس
پر اعتراض کرے نہ دل میں بدگمانی کو جگہ
دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے۔
(7) دوسرے کو
اگر آسمان پر اُڑتا دیکھے جب بھی مُرشِد کے سوا دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کو آگ
جانے۔
(8)ان کے حضور بات نہ کرے۔
(9) ہنسنا تو بڑی چیز ہے اِن کے سامنے آنکھ ، کان،
دِل ، ہمہ تَن اِنہیں کی طرف مصروف رکھے۔
(10) جو وہ
پوچھے نہایت نرم آواز سے بکمال ادب بتا کر جلد خاموش ہو جائے۔