حضور کریم ﷺ کا فرمان ہے: کسی باپ کی طرف سے اسکی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اسکی اچھی تربیت کرے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)

ہمارے معاشرے میں جہاں ماں باپ، بہن بھائی اور نیک شوہر کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پر لوگ نیک اولاد کی بھی تمنا کرتے ہیں تاکہ انکی نسل آگے بڑھ سکے اور وہ اولاد انکا بڑھاپے میں سارا بن سکے۔ والدین اولاد کی تمنا تو کر لیتے ہیں مگر انکی اچھی تربیت کرنا بھول جاتے ہیں اور آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے وہ اولاد غلط راستے پر نکل پڑتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں اولاد بگڑنے کے اسباب میں والدین کا اولاد پر توجہ نہ دینا، انکے غلط کام پر روک ٹوک نہ کرنا یا پھر بچوں کا غلط صحبت اختیار کرنا وغیرہ ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

اولاد کی تربیت کوئی عام کام نہیں ہے اس کےلیے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں جب ایک نسل کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوں گے تو اگلی نسل تباہ و برباد ہو جائے گی آج والدین اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ تو کرتے ہیں مگر دینی تعلیم دینا بھول جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو تین چیزوں کی تعلیم دو: (1) اپنے نبی کریم ﷺ کی محبت (2) اہل بیت کی محبت (3) اور قران پاک کی تعلیم۔(جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311)

جہاں بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں پر ماں باپ چار سال کی عمر میں بچوں کو سکول تو بھیج دیتے ہیں مگر سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کی سختی نہیں کرتے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جبکہ وہ 7 سال کے ہو جائیں اور جب 10 سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں مارو۔ (ابو داود، 1/208، حدیث: 494)

والدین اپنی جابز میں اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ بچوں پر مخصوص توجہ نہیں دے پاتے اور پھر اولاد ہاتھوں سے نکل جاتی ہے جب اولاد کو بچپن میں ہی اسلام کی تعلیم سے منور کروایا جائے تو اسکے اثرات انکی جوانی پر مثبت پڑھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بچپن میں علم حاصل کرنا پتھر پر نقش کی طرح ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/333، حدیث: 5015)

اچھی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے آج کی اولاد اپنے والدین کو اولڈ ہاؤس میں بھیج دیتی ہے حالانکہ اس عمر میں والدین کو بچوں کی دعاؤں اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو مختلف نصیحتیں کی جو قرآن پاک میں ذکر کی گئی ہیں تو آج کے والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کو اچھی نصیحتیں کریں انکے ہر اچھے اور برے عمل پر نظر رکھیں تاکہ معاشرے میں اولاد بگڑنے والے مسائل کا حل ہو سکے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے والدین کا با ادب بنائے۔ آمین