عموماً دیکھا گیا ہے کہ بگڑی ہوئی اولادکے والدین
اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں مگریاد رکھئے
اولاد کی تربیت صرف ماں یامحض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اللہ ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔ جب نبی اکرم، نور مجسّم ﷺ نے یہ آیت
مبارکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یارسول
اللہ! ہم اپنے اہل وعیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار مدینہ، فیض
گنجینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:، تم اپنے اہل وعیال کو ان چیزوں کاحکم دو جو اللہ کو
محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکوجو رب تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ (در منثور، 8/225)
حضور پاک ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو
اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بادشاہ
نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا
نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے
گھر اور اولادکی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث:
2554)
یقینا وہی اولاد اخروی طور پر نفع بخش ثابت ہوگی جو
نیک وصالح ہو اور یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اولاد کو نیک یا بد بنانے
میں والدین کی تربیت کو بڑا دخل ہوتا ہے۔ایک مرتبہ ایک مجرم کو تختہ دار پر لٹکایا
جانے والا تھا۔جب اس سے اسکی آخری خواہش پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ میں اپنی ماں
سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس کی یہ خواہش پوری کردی گئی۔جب ماں اس کے سامنے آئی تو وہ
اپنی ماں کے قریب گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا کان نوچ ڈالا۔ وہاں پر موجود
لوگوں نے اسے سرزنش کی کہ نامعقول ابھی جبکہ تو پھانسی کی سزا پانے والا ہے تونے
یہ کیا حرکت کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ مجھے پھانسی کے اس تختے تک پہنچانے والی یہی
میری ماں ہے کیونکہ میں بچپن میں کسی کے کچھ پیسے چرا کر لایا تھا تو اس نے مجھے
ڈانٹنے کی بجائے میری حوصلہ افزائی کی اوریوں میں جرائم کی دنیا میں آگے بڑھتا
چلاگیا اور انجام کار آج مجھے پھانسی دے دی جائے گی۔
بچوں کی تربیت کب شروع کی جائے؟ والدین
کی ایک تعدادہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے،
تھوڑا بڑا ہوجائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے۔ ایسے والدین کو چاہئیے کہ
بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال
بقیہ زندگی کے لئے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار
عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ جو کچھ بچہ اپنے بچپن میں سیکھتا ہے
وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیونکہ بچے کا دماغ مثل موم ہوتا ہے اسے
جس سانچے میں ڈھالنا چاہیں ڈھالا جا سکتا ہے، بچے کی یاداشت ایک خالی تختی کی
مانند ہوتی ہے اس پر جو لکھا جائے گا ساری عمر کے لئے محفوظ ہوجائے گا۔
آج کل کے دور میں سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بھی اولاد
بگڑنے کی بہت بڑی وجہ ہے اور یہ بیماری پوری دنیا میں عام ہوتی جارہی ہے اور بچے
اسکے ذریعے بہت سے گناہوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری
استعمال انہیں اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے یہاں تک اس میں پائے جانے والی بے
حیائی اور کفریات ہمارے ایمان کے سلب ہونے کا ذریعہ بن جاتے ہیں معاذاللہ۔
اگر آج کل کے معاشرے میں غور کیا جائے تو ان حالات
میں بچوں کو موبائل دینا اور ان کی طرف سے لاپرواہی اختیار کرنا معاشرے کے بگاڑ
اور ایمان کی تباہی کا سبب ہے۔ اگر ہم بچوں کی پرورش اچھے و فہم انداز میں کریں
اور اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کریں تو یہی اولاد والدین کی بخشش کا وسیلہ بن
جائیں۔
نیک اولاد کی خواہش تو ہر والدین کرتے ہیں لیکن ان کو
نیک بنانے والے اعمال نہیں کرواتے۔ بچپن میں بچہ بچہ کہہ کر اسکی طرف سے لاپرواہی
کرتے ہیں اور جب بچہ ہاتھ سے نکل جائے تو پھر اسکو سمجھاتے ہیں حالانکہ اب تو
سمجھانے کا دور ختم ہوچکا اب وہ وہی کرے گا جسکی اسے تربیت دی گئی اچھی تربیت پر
اچھے کام اور بری تربیت پر اپنے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی آزمائش بن جاتا
ہے۔تو ہر والدین اپنی ذمہ داری کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کی بہترین طریقے
سے تربیت کریں تاکہ بعد میں آپکے لیے سکون کا باعث بنے۔