اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت رزاق احمد، جامعۃ المدینۃ تلواڑہ مغلاں سیالکوٹ
اولاد اللہ پاک کی طرف سے ہمارے لئے ایک عظیم نعمت
ہے اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک
اس کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک
بنے اور آخرت میں بھی اس کی نجات کا ذریعہ۔
اولاد کے نیک بننے میں والدین کی تربیت کا بہت بڑا عمل
دخل ہے جو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو اللہ پاک ان کو اس کا صلہ
ضرور عطا کرتا ہے۔ اولاد کی تربیت دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرنا والدین کی
ذمہ داری میں شامل ہے لیکن آج کل کے دور میں اس کا فقدان ہے اکثر والدین اس بات کا
اظہار کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بگڑ گئی ہے بات نہیں مانتی، بدتمیز ہے، صفائی
ستھرائی کا لحاظ نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ۔
کون کس کا جواب دہ ہوگا: یادرکھئے!اگر
سستی سے کام لیتے ہوئے اولاد کی اچھی تربیت نہ کی توبروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں
اس کا جواب دینا ہوگا،حضور اکرم، نور مجسم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران
ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔بادشاہ
نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا
نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے
گھر اور اولاد کی نگران ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری،2/159، حدیث:
2554)
موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی اور ٹی وی کا
غلط استعمال:
میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! بروز قیامت اس جواب دہی سے بچنے کیلئے اپنے بچوں کی مدنی
تربیت کیجئے اوران کے بگڑنے والے اسباب کوبھی فراموش نہ کیجئے،جیسے آج کل موبائل
فون، ٹیبلٹ پی سی، ٹی وی اورانٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی نسل کی تباہی
اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں، ابتداءًوالدین خود ہی یہ چیزیں بچوں کو دلاتے ہیں کہ
ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے خبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں
پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر گناہوں کی گندگی میں ڈبکیاں لگا کر
خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت باپ کی آنکھ کھلتی ہے مگر ”اب پچھتائے کیا ہوت جب
چڑیا چگ گئیں کھیت کے مصداق“ اب افسوس کرنا بے کار ہوتا ہے (یعنی نقصان ہوجانے کے
بعدپریشان ہونے سے کیا فائدہ؟)اب اگر باپ اس گندگی سے نکالنا چاہے بھی تو بچے ان
چیزوں کوچھوڑنے کوتیار نہیں۔ لہٰذااگربچوں کو ضرورتاً یہ جدید چیزیں دینی ہی ہیں
توآپ بحیثیت باپ پیار محبّت سے ان چیزوں کے غلط استعمال کے نقصانات بھی ضرور
بتائیے،صحیح استعمال سکھائیے،ضرورت ہوتو سادہ موبائل دلوائیےاور ان کو دعوت اسلامی
کی ویب سائٹ کا وزٹ کروائیے۔
تربیت اولاد کے بہترین اصول:
(1) جو کچھ بچے کو سکھانا چاہتے ہیں وہ دین اسلام
کی تعلیمات کے مطابق ہو اس کے لئے والدین کو دین کا بنیادی علم حاصل ہونا بہت
ضروری ہے۔
(2) اچھی نیت کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اعمال کا
دار و مدار نیتوں پر ہے اولاد کی تربیت میں ہماری بنیادی نیت اللہ پاک کی رضا و
خوشنودی ہونی چاہئے۔
(3) گھر یا خاندان کے تمام افراد کا ان اصولوں پر
ایک جیسا عمل کرنا ضروری ہے اگر کوئی ایک فرد بھی بے جا لاڈ کرے گا اور بچّے کی
غلط باتوں پر اس کی سرزنش نہیں کرے گا تو اس سے بچے کے بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے
ہیں اور بڑوں کے بھی آپس میں تعلقات خراب رہتے ہیں۔
(4) بچے کی عقل اور سمجھ کے مطابق ہر بات کی پہلے
وضاحت کریں پہلے بچے کو بتائیں کہ فلاں کام کرنے کا صحیح طریقہ یوں ہے اور غلط
طریقہ یوں مثلاً چھوٹے بچے کو کہنا کہ کھانا سیدھے ہاتھ سے کھایا جاتا ہے الٹے
ہاتھ سے نہیں۔ جب سیدھا ہاتھ بولیں تو بچّے کے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کریں تا کہ
اسے معلوم ہو کہ یہ سیدھا ہاتھ ہے۔
(5) جوں جوں بچے بڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنے ارد گرد
کی دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں سوال اس سمجھ کی چابی ہے والدین کو چاہئے کہ
جو بھی تربیت کا نیا اصول بچوں پر لاگو کرنا ہو اس کو اچھی طرح سمجھایا جائے اس
اصول پر بچہ جو بھی سوال کرے اس کا تسلی بخش جواب دیا جائے مثلاً تین یا چار سال
کا بچہ پوچھ سکتا ہے کہ ہم سیدھے ہاتھ سے ہی کیوں کھاتے ہیں؟ تو والدین کو اس کا
جواب اچھے انداز میں پیش کرنا ہوگا۔ ورنہ جو اصول بچہ مکمل طور پر سمجھے گا ہی
نہیں تو ایسے اصول پر وہ شوق اور لگن کے ساتھ عمل نہیں کرے گا۔
(6) جب بھی بچہ مطلوبہ اصول پر عمل کرے تو اس عمل
کرنے پر اس کو ہر بار Reward ضرور دیں۔ انسانی نفسیات ہے کہ چھوٹی عمر
میں چند بار Reward
ملنے پر کام کرنے کی پختہ عادت بن جاتی ہے لہٰذا جتنی چھوٹی عمر میں بچے کی تربیت
شروع ہو اتنا آسان ہوتا ہے۔
بچے کی حوصلہ افزائی (Reward) کی مثالیں: بچے
کی طرف توجہ سے دیکھنا بچے کی طرف دیکھ کر مسکرانا، بچے کو پیار کرنا اور سینے سے
لگانا، شاباش دیتے ہوئے بچے کی پیٹھ تھپکنا بچے کی بات توجہ سے سننا اور اس کے
سوالات کے جوابات دینا بچے کے ساتھ کھیلنا اس کی مثبت چیزوں کی تعریف کرتے رہنا کھانے
کی پسندیدہ چیز (جو مضر صحت نہ ہو) دینا پسند کا کھلونا خرید کر دینا۔
بچے کی سرزنش (Sanction ) کی مثالیں: خاموشی کے ساتھ روٹھ کر ناراضی کا
اظہار کرنا، چہرے کو دوسری طرف پھیر لینا، بچے کو بتانا کہ آپ اس سے فلاں کام کی
وجہ سے ناراض ہیں، اسکرین ٹائم کو کم کردینا، پسندیدہ کھیل سے کچھ دیر کے لئے روک
دینا، دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑا کر دینا۔
پہلے اپنی تربیت کیجیے: محترم
اسلامی بہنو! اولاد کی مدنی تربیت میں سب سے اہم چیزباپ کی اپنی عملی حالت ہے اگر
باپ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرناچاہتا ہے تو پہلےخوداپنے اعمال وکردار کی اصلاح
کرنی ہوگی کیونکہ اسلامی طریقے پر اولاد کی تربیت کاخواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر
ہوسکے گا،جب ماں باپ اوردیگر اہل خانہ بھی شریعت کے پابند ہوں گے،نماز،روزے کے
پابندہوں گے،تلاوت قرآن کرنے والے ہوں گے،فلموں ڈراموں، گناہوں بھرے چینلز
دیکھنےسے بچنے والے ہوں گے،جھوٹ، چغلی،غیبت جیسے امراض سے بچنے والے ہوں گے، کھانے
پینے،اٹھنے بیٹھنے،چلنے پھرنے میں سنّت کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔مگر افسوس صد
کروڑافسوس! آج کل جہاں باپ مغربی تہذیب اور اغیار کی عادت و اطوار سے متاثر ہو کر
ان جیسے کام کرنے میں معاذ اللہ فخر محسوس کرتا، اسلامی لباس کو چھوڑ کرغیروں جیسا
لباس پہنتا ہے، وہیں آج کی ماؤں نے بھی پردے کو خیربادکہہ کرگلی بازاروں میں بے
پردہ گھومنا،فیشن کے نام پر تنگ وچست لباس پہن کر بدنگاہی کا سامان بننا شروع
کردیاہےاور بے حیائی اور فحاشی سے بھرپورناچ گانے،فلمیں ڈرامے نہ صرف خود بلکہ
بچوں کو بھی اپنے ساتھ بٹھاکر دکھاتے،ذرانہیں شرماتے، بچوں کی تعلیم و تربیت کا
حال یہ ہے کہ انہیں دینی علوم و فنون سکھانے کے بجائےمغربی تہذیب کے نمائندہ
اداروں کے مخلوط ماحول (یعنی جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہوں)میں تعلیم
دلوانے میں کوئی شرم و عار محسوس نہیں کرتے۔
یادرکھئے!ماں باپ کی بد اعمالی،مغربی تہذیب سے محبت
اور روشن خیالی کے نام پر اخلاقی قدروں کی پامالی یقیناًاولاد بگڑنے کی ایک بڑی
وجہ ہے۔لہٰذاماں باپ کو چاہیے کہ پہلے خود اپنی عملی حالت درست کریں،نماز وروزے کی
پابندی اورپیارے آقا،حبیب کبریا ﷺ کی سنتوں سے محبّت اوران پر عمل کی کوشش کریں۔جب
ہمارے بچے ہمیں نیکیوں میں مشغول دیکھیں گے تو انہیں بھی رغبت ملے گی اوروہ بھی
نیکیوں کی طرف مائل ہوں گے۔ ان شاء اللہ بچوں کی دینی تربیت کرنے کا فائدہ یہ ہو
گا کہ دنیا میں راحت و سکون،عزّت و وقار حاصل ہو گا،آخرت میں ربّ تعالیٰ کی بارگاہ
میں اس کے کرم سے اولاد کی تربیت کے معاملے میں نہ صرف بری ہوں گے بلکہ اجروثواب
بھی پائیں گے۔ ان شاء اللہ